Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب مناسك الحج
کتاب: حج کے احکام و مناسک
127. بَابُ : مَوْضِعِ الصَّلاَةِ فِي الْبَيْتِ
باب: بیت اللہ (کعبہ) میں نماز پڑھنے کی جگہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 2912
أَخْبَرَنَا حَاجِبُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمَنْبِجِيُّ، عَنْ ابْنِ أَبِي رَوَّادٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، قَالَ:" دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْكَعْبَةَ، فَسَبَّحَ فِي نَوَاحِيهَا، وَكَبَّرَ، وَلَمْ يُصَلِّ، ثُمَّ خَرَجَ، فَصَلَّى خَلْفَ الْمَقَامِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ قَالَ:" هَذِهِ الْقِبْلَةُ".
اسامہ بن زید رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ میں داخل ہوئے، تو اس کے کناروں میں آپ نے تسبیح پڑھی اور تکبیر کہی اور نماز نہیں پڑھی ۱؎، پھر آپ باہر نکلے، اور مقام ابراہیم کے پیچھے آپ نے دو رکعتیں پڑھیں، پھر فرمایا: یہ قبلہ ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 110)، مسند احمد (5/209، 210) (منکر) (اسامہ کی اس روایت میں صرف ”خلف المقام‘‘ کا ذکر منکر ہے (جو کسی کے نزدیک نہیں ہے) باقی باتیں سنداً صحیح ہیں)»

وضاحت: ۱؎: اسامہ کی یہ نفی ان کے اپنے علم کی بنیاد پر ہے، وہ کسی کام میں مشغول رہے ہوں گے جس کی وجہ سے انہیں آپ کے نماز پڑھنے کا علم نہیں ہو سکا ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: منكر بذكر المقام

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، عبدالمجيد بن عبدالعزيز بن أبى رواد: ضعفه الجمهور (الفتح المبين: 82/ 3 ص 101) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 343

سنن نسائی کی حدیث نمبر 2912 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2912  
اردو حاشہ:
(1) حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی یہ روایت صحیح مسلم میں بھی ہے جس میں نماز کی نفی ہے۔ ممکن ہے حضرت اسامہ کو کسی وجہ سے آپ کے نماز پڑھنے کا پتہ نہ چلا ہو۔ لیکن مسند احمد: (5/ 304 وسندہ صحیح) میں حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ ہی سے روایت ہے کہ آپ نے بیت اللہ میں نماز پڑھی ہے۔ ممکن ہے انھیں کسی معتبر شخص نے بتلایا ہو، اس لیے انھیں یقین آگیا ہو۔ پہلی روایت ان کے اپنے علم کے مطابق ہے۔ اصولی طور پر نفی اور اثبات میں مقابلہ ہو تو اثبات کو ترجیح ہوتی ہے کیونکہ ممکن سے نفی کرنے والے کو پتا نہ چلا ہو یا وہ بھول گیا ہو، وغیرہ۔
(2) یہ قبلہ ہے یعنی کعبہ قبلہ ہے۔
(3) یہ روایات فتح مکہ کے بارے میں ہیں مگر دیگر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ حجۃ الوداع کے موقع پر بھی بیت اللہ میں داخل ہوئے تھے۔ اور بعد میں افسوس کا بھی اظہار کیا تھا کہ کہیں لوگ اسے سنت نہ سمجھ لیں اور تنگی میں نہ پڑیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2912