صحيح البخاري
كِتَاب الْمَظَالِمِ
کتاب: ظلم اور مال غصب کرنے کے بیان میں
13. بَابُ إِثْمِ مَنْ ظَلَمَ شَيْئًا مِنَ الأَرْضِ:
باب: اس شخص کا گناہ جس نے کسی کی زمین ظلم سے چھین لی۔
حدیث نمبر: 2452
حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي طَلْحَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَمْرِو بْنِ سَهْلٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ زَيْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ ظَلَمَ مِنَ الْأَرْضِ شَيْئًا طُوِّقَهُ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ".
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم سے زہری نے بیان کیا، ان سے طلحہ بن عبداللہ نے بیان کیا، انہیں عبدالرحمٰن بن عمرو بن سہل نے خبر دی اور ان سے سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے کسی کی زمین ظلم سے لے لی، اسے قیامت کے دن سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2452 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2452
حدیث حاشیہ:
زمین کے سات طبقے ہیں۔
جس نے بالشت بھر زمین بھی چھینی تو ساتوں طبقوں تک گویا اس کو چھینا۔
اس لیے قیامت کے دن ان سب کا طوق اس کے گلے میں ہوگا۔
دوسری روایت میں ہے کہ وہ سب مٹی اٹھا کر لانے کا اس کو حکم دیا جائے گا۔
بعض نے کہا طوق پہنانے کا مطلب یہ ہے کہ ساتوں طبقوں تک اس میں دھنسا دیا جائے گا۔
حدیث سے بعض نے یہ نکالا کہ زمینیں سات ہیں جیسے آسمان سات ہیں۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2452
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4132
حضرت سعید بن زید بن عمر بن نفیل رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کسی کی ایک بالشت زمین ظلم کرتے ہوئے قبضہ میں لے لی، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے ساتوں زمینوں سے اس قدر طوق بنا کر پہنائے گا۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4132]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
اقتطع:
غصب کر لیا،
ناجائز طور پر قبضہ کر لیا۔
فوائد ومسائل:
(1)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ زمینیں سات ہیں،
اور ان کا طوق بنانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ اوپر نیچے ہیں،
اور قرآن مجید کی آیت ﴿وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ﴾ زمینیں بھی (آسمانوں)
جتنی ہیں،
اس کا مؤید ہے،
لیکن اس کی ہئیت و کیفیت کو پوری طرح قرآن و حدیث میں بیان نہیں کیا گیا،
اصل مقصد یہاں ظلم و زیادتی سے ڈرانا اور باز رکھنا ہے کہ معمولی ظلم کے نتائج بھی انتہائی سنگین نکلیں گے۔
(2)
اس حدیث کی تشریح اور توجیہ میں علماء کے مندرجہ ذیل اقوال ہیں۔
(ا)
زمین غصب کرنے والے کو اس چیز کا مکلف ٹھہرا دیا جائے گا کہ اس نے جتنی زمین غصب کی تھی،
اتنی زمین،
ساتوں زمینوں تک اٹھا کر میدان محشر میں لائے گا،
لیکن وہ یہ کام نہیں کر سکے گا،
اور یہ ذمہ داری اس کے گلے کا ہار بن جائے گی۔
(ب)
اس شخص کو اتنی زمین،
میدان محشر تک لانے کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا،
اور اس کے لیے اس کی گردن کو وسیع کر کے،
اتنی مٹی کو اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا۔
(ج)
اس شخص کو سات زمینوں تک زمین میں دھنسا دیا جائے گا،
اور اس طرح ساری زمین اس کے گلے کا طوق ہو گی،
(اس شخص کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہو گا کہ اتنی زمین گلے کا طوق بنا،
لیکن یہ کام کر نہیں سکے گا،
اس طرح وہ مسلسل عذاب میں مبتلا رہے گا۔
) (ط)
اس ظلم کا گناہ،
اس کے گلے کا ہار ہو گا،
وہ اس سے چھٹکارا نہیں حاصل کر سکے گا۔
(فتح الباری،
ج 5،
ص 130۔
دارالسلام)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
زمین پر ملکیت ہو سکتی ہے،
اور دوسرا اس پر غاصبانہ قبضہ کر سکتا ہے،
جس کی سزا انتہائی سنگین ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4132
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4133
حضرت سعید بن زید بن عمرو بن نفیل رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ارویٰ نامی عورت نے، ان سے گھر کے بعض حصہ کے بارے میں جھگڑا کیا، تو انہوں نے کہا، اس حصہ کو اس عورت کے لیے چھوڑ دو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، ”جس نے ایک بالشت زمین ناحق لے لی، قیامت کے دن، ساتوں زمینوں تک وہ اس کے گلے کا طوق بنا دی جائے گی۔“ (پھر حضرت سعید نے) دعا کی، اے اللہ! اگر یہ عورت جھوٹی ہے، تو اس کو اندھا کر دے اور... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4133]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
اس حدیث سے علماء نے یہ بھی استنباط کیا ہے کہ زمین کا مالک،
اس کے انتہائی نچلے حصہ کا بھی مالک ہے اور اس کی اجازت کے بغیر،
اس کے نچلے حصہ سے دوسرا فائدہ نہیں اٹھا سکتا،
اور اگر اس کی زمین سے کوئی گیس،
تیل یا کان نکالتی ہے،
تو وہ اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
(2)
حضرت سعید نے بددعا کی تھی کہ وہ اندھی ہو کر،
گھر کے کنویں میں گرے اور وہی اس کی قبر بنے،
اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور وہ عشرہ مبشرہ میں سے تھے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4133
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4134
حضرت عروہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ارویٰ بنت اویس نے حضرت سعید بن زید رضی اللہ تعالی عنہ کے خلاف یہ دعویٰ کیا، کہ اس نے اس کی کچھ زمین پر قبضہ کر لیا ہے اور وہ مقدمہ، مروان بن الحکم کے پاس لے گئی، تو حضرت سعید رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، کیا میں اس کی کچھ زمین پر قبضہ کر سکتا ہوں، جبکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ مروان نے پوچھا، آپﷺ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سنا ہے، تو انہوں نے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4134]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
اس حدیث سے علماء نے یہ بھی استنباط کیا ہے کہ زمین کا مالک،
اس کے انتہائی نچلے حصہ کا بھی مالک ہے اور اس کی اجازت کے بغیر،
اس کے نچلے حصہ سے دوسرا فائدہ نہیں اٹھا سکتا،
اور اگر اس کی زمین سے کوئی گیس،
تیل یا کان نکالتی ہے،
تو وہ اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
(2)
حضرت سعید نے بددعا کی تھی کہ وہ اندھی ہو کر،
گھر کے کنویں میں گرے اور وہی اس کی قبر بنے،
اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور وہ عشرہ مبشرہ میں سے تھے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4134
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3198
3198. سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ؓ سے روایت ہے کہ مسماۃ اروی سے ان کا کسی حق کے متعلق جھگڑا ہوگیا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ انھوں نے اس کی زمین کم کردی ہے۔ وہ اپنا معاملہ مروان کے پاس لے کرگئی۔ حضرت سعید ؓ نے فرمایا: میں اس کا حق کسی طرح کم کرسکتا ہوں جبکہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سناہے: ”جس شخص نے زمین کا کچھ حصہ بھی ظلم سے لے لیا تو اسے قیامت کے دن سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔“ ابن ابی زناد، ہشام سے اور وہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت سعید بن زید ؓ نے مجھے کہاکہ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3198]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث سے ﴿وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ﴾ کی تفسیر کی ہے کہ آسمانوں کی طرح زمین کے بھی سات طبقات ہیں اور وہ آسمانوں کی طرح ایک دوسرے کے اوپر ہیں۔
2۔
تیسری حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ لوگ جاہلیت میں محرم کو صفر تک مؤخر کر دیتے تھے۔
قرآن کریم نے ان کے اس عمل کو نسیئی سے تعبیر کیا ہے وہ تقدیم و تاخیر اس لیے کرتے تھے کہ اس مہینے میں جنگ اور لوٹ مار کر سکیں اس لیے وہ محرم کو صفر بنا لیتے۔
وہ ہر سال اسی طرح کرتے اور محرم کو دوسرے مہینے کی طرف منتقل کرتے رہتے حتی کہ وہ اپنے مخصوص وقت میں گھوم آتا جس سے وہ اسے آگے لے گئے تھے۔
الغرض رسول اللہ ﷺ کے حج کے موقع پر مہینے اسی حالت کی طرف لوٹ آئے تھے جس حالت میں اللہ تعالیٰ نے انھیں ترتیب دیا تھا۔
اور حج ذوالحجہ میں ہوا جو اس کا وقت ہے جبکہ حضرت ابو بکر ؓ کا اس سے پہلے حج ذوالقعدہ میں ہوا تھا۔
واللہ أعلم الغرض نص قرآنی سے سات آسمانوں اور انھی کی طرح سات زمینوں کا وجود ثابت ہوا۔
جو ان کا انکار کرتا ہے وہ گویا قرآن کا انکار کرتا ہے۔
اب سات آسمانوں اور سات زمینوں کی کھوج لگانا انسانی اختیارات سے تجاوز کرنا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3198