أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: أَقْبَلْنَا مُهِلِّينَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَجٍّ مُفْرَدٍ، وَأَقْبَلَتْ عَائِشَةُ مُهِلَّةً بِعُمْرَةٍ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِسَرِفَ عَرَكَتْ حَتَّى إِذَا قَدِمْنَا طُفْنَا بِالْكَعْبَةِ، وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ،" فَأَمَرَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَحِلَّ مِنَّا مَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ، قَالَ: فَقُلْنَا: حِلُّ مَاذَا؟ قَالَ:" الْحِلُّ كُلُّهُ" , فَوَاقَعْنَا النِّسَاءَ، وَتَطَيَّبْنَا بِالطِّيبِ، وَلَبِسْنَا ثِيَابَنَا، وَلَيْسَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ عَرَفَةَ إِلَّا أَرْبَعُ لَيَالٍ، ثُمَّ أَهْلَلْنَا يَوْمَ التَّرْوِيَةِ، ثُمَّ دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عَائِشَةَ فَوَجَدَهَا تَبْكِي، فَقَالَ:" مَا شَأْنُكِ؟" فَقَالَتْ: شَأْنِي أَنِّي قَدْ حِضْتُ، وَقَدْ حَلَّ النَّاسُ، وَلَمْ أُحْلِلْ، وَلَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ، وَالنَّاسُ يَذْهَبُونَ إِلَى الْحَجِّ الْآنَ، فَقَالَ:" إِنَّ هَذَا أَمْرٌ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَى بَنَاتِ آدَمَ، فَاغْتَسِلِي، ثُمَّ أَهِلِّي بِالْحَجِّ" , فَفَعَلَتْ، وَوَقَفَتِ الْمَوَاقِفَ حَتَّى إِذَا طَهُرَتْ طَافَتْ بِالْكَعْبَةِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ قَالَ: قَدْ حَلَلْتِ مِنْ حَجَّتِكِ وَعُمْرَتِكِ جَمِيعًا، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أَجِدُ فِي نَفْسِي أَنِّي لَمْ أَطُفْ بِالْبَيْتِ حَتَّى حَجَجْتُ، قَالَ:" فَاذْهَبْ بِهَا يَا عَبْدَ الرَّحْمَنِ، فَأَعْمِرْهَا مِنَ التَّنْعِيمِ وَذَلِكَ لَيْلَةَ الْحَصْبَةِ".
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 44
´اعضائے وضو کے دھونے میں بھی ترتیب ملحوظ رکھنا`
«. . . قال صلى الله عليه وآله وسلم: ابدءوا بما بدا الله به . . .»
”. . . سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آغاز اسی طرح کرو جس طرح اللہ تعالیٰ نے آغاز کیا ہے . . .“ [بلوغ المرام/: 44]
� لغوی تشریح:
«فِيْ صِفَةِ حَجِّ النَّبِيِّ صلَّى اللهُ عَليهِ وسَلمَ» دراصل یہ اشارہ ہے اس لمبی حدیث کی طرف جو کتاب الحج میں بیان ہو گی۔
«اِبْدَءُوا بِمَا بَدَأَ اللهُ بِهِ» جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں پہلے فرمایا ہے اسے عملاً پہلے انجام دیا جائے۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اس وقت فرمایا: جب آپ نے صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنے کا ارادہ کیا اور اس بات کا عزم کیا کہ پہلے صفا سے سعی کا آغاز کیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صفا کا ذکر پہلے کیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللَّهِ» [البقرۃ: 158: 2] لیکن مصنف حدیث کا اتنا ٹکڑا وضو کے باب میں یہ اشارہ کرنے کے لیے لائے ہیں کہ لفظ کے عموم کا اعتبار ہوتا ہے نہ کہ سبب کے خاص ہونے کا، یعنی سبب نزول اگرچہ خاص ہو لیکن لفظ عام ہوں تو دوسرے مسائل سے بھی تعلق ہو سکتا ہے۔ اب یہاں دیکھیے اس فرمان کو آپ نے سعی کے مسئلے کے بارے میں مخصوص طور پر ذکر کیا ہے لیکن اس کے لفظ کی عمومیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ یہاں قاعدہ کلیہ کے ضمن میں وضو کی آیت بھی داخل ہے اور وہ ہے: «فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُءُوْسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ» [المائدۃ:6:5] اس بنا پر وضو میں چہرہ پہلے دھویا جائے گا اور باقی ماندہ اعضاء علی الترتیب دھوئے جائیں گے
«بِلَفْظِ الْخَبَرِ» سے مراد ہے کہ «اِبْدَءُوا» کی بجائے آپ نے «نَبْدَءُ» فرمایا، چنانچہ نسائی نے صیغۂ امر «اِبْدَءُوا» اور مسلم نے جملہ خبریہ، یعنی «نَبْدَءُ» نقل کیا ہے۔
فوائد و مسائل:
➊ مصنف اس حدیث کو باب الوضوء میں لا کر یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اعضائے وضو کے دھونے میں بھی ترتیب ملحوظ رکھنی چاہئے۔ قرآن نے جس عضو کو دھونے کا حکم دیا ہے اسے پہلے دھویا جائے، جس طرح قرآن مجید نے مناسک حج کی ادائیگی کا ذکر کرتے فرمایا: «اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَروَةَ» یعنی سعی کا آغاز صفا سے کیا جائے اسی طرح وضو کی آیت میں جو ترتیب مذکور ہے اس کا لحاظ رکھا جائے۔
➋ آیت وضو میں چہرے کا دھونا پہلے مذکور ہے، ہاتھ اور باقی اعضاء بعد میں ہیں، اسی ترتیب سے وضو کیا جانا چاہیے۔
راوی حدیث:
SR سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما ER ان کی کنیت ابوعبداللہ ہے۔ انصار کے قبیلہ ”سلم“ سے تعلق کی بنا پر انصاری سلمی کہلائے۔ مشہور اور کبار صحابہ میں شمار ہوتے ہیں۔ جنگ بدر میں شریک تھے۔ بعض نے کہا: ہے کہ انہوں نے بدر و احد کے علاوہ باقی غزوات میں شرکت کی تھی۔ جنگ صفین میں بھی موجود تھے۔ یہ حفاظ حدیث صحابہ میں سے تھے اور ان سے بکثرت روایات مروی ہیں۔ آخر عمر میں بصارت سے محروم ہو گئے تھے۔ 74 ہجری میں 94 برس کی عمر پا کر فوت ہوئے، کہا گیا ہے کہ آپ مدینہ منورہ میں وفات پانے والے سب سے آخری صحابی ہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 44
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 392
´نفاس والی عورتیں احرام کے وقت کیا کریں؟`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کے واقعہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ جب انہیں ذوالحلیفہ میں نفاس آ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”انہیں حکم دو کہ غسل کر لیں، اور احرام باندھ لیں“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الحيض والاستحاضة/حدیث: 392]
392۔ اردو حاشیہ: نفاس یا حیض والی عورت کا احرام کے وقت غسل کرنا طہارت کے لیے نہیں، کیونکہ وہ تو نفاس یا حیض ختم ہونے کے بعد ہو گا، بلکہ یہ غسل جسمانی صفائی کے لیے ہے، کیونکہ احرام کئی دن جاری رہ سکتا ہے۔ مزید فوائد کے لیے دیکھیے، حدیث: 292۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 392
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 429
´احرام باندھنے کے وقت نفاس والی عورتوں کے غسل کا بیان۔`
محمد (باقر) کہتے ہیں: ہم لوگ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کے پاس آئے، اور ہم نے ان سے حجۃ الوداع کے متعلق دریافت کیا، تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پچیس ذی قعدہ کو (مدینہ سے) نکلے، ہم آپ کے ساتھ تھے، یہاں تک کہ جب آپ ذوالحلیفہ آئے تو اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے محمد بن ابوبکر کو جنا، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھوایا کہ میں کیا کروں؟ آپ نے فرمایا: ”تم غسل کر لو، پھر لنگوٹ باندھ لو، پھر (احرام باندھ کر) لبیک پکارو۔“ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 429]
429۔ اردو حاشیہ:
➊ نفاس والی عورت کا احرام کے موقع پر غسل صرف جسمانی صفائی یا احرام کی اہمیت کے لیے ہے، نہ کہ پاکیزگی کے لیے کیونکہ وہ غسل تو نفاس (خون) ختم ہونے کے بعد ہو گا۔
➋ لنگوٹ باندھنا اس لیے ہے تاکہ خون کپڑوں اور جسم کو خراب نہ کرے۔ مزید دیکھیے، حدیث: 292 اور اس کے فوائدومسائل۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 429
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 215
´نفاس سے غسل کرنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا والی حدیث میں روایت ہے کہ جس وقت انہیں ذوالحلیفہ میں نفاس آیا ۱؎، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ”اسے حکم دو کہ وہ غسل کر لے، اور احرام باندھ لے۔“ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 215]
215 . اردو حاشیہ:
➊ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو نفاس کا خون آنے کی وجہ سے غسل کرنے کا حکم دیا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ خون نجس اور پلید ہے، جس طرح خون حیض نجس ہوتا ہے کیونکہ اس کی نجاست پر بھی علمائے کرام کا اجماع ہے۔ رہا یہ اعتراض کہ خون تو ابھی منقطع نہیں ہوا، لہٰذا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کا محل کیا ہے؟ لگتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اثنائے نفاس غسل کا حکم بطور نظافت کے دیا ہے کیونکہ حالت احرام میں نظافت مطلو ب ہے، لہٰذا جب اس حالت میں غسل کا حکم ہے، تو خون منقطع ہونے کے بعد تو بالاولیٰ اسے یہ حکم ہو گا تاکہ کمال طہارت حاصل ہو جائے، غالباً امام نسائی رحمہ اللہ کی یہی مراد ہے۔ اس طرح حدیث اور باب میں باہم مطابقت کی صورت نکل آتی ہے کیونکہ امام صاحب نے بھی «الإغتسال من النفاس» کہا ہے، یعنی ”خون نفاس کی وجہ سے غسل کا بیان“، نہ کہ ان کی غرض یہ ہے کہ غسل کا حکم صرف خون منقطع ہونے کے وقت ہے۔ اس صورت میں واقعی باب کی حدیث سے مطابقت نہیں ہوتی جیسا کہ امام سندھی رحمہ اللہ سمجھے ہیں۔ «والله أعلم»
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [ذخيرة العقبيٰ شرح سنن النسائي: 297/4]
➋ حیض یا نفاس والی عورت کے لیے غسل کرنے کے بعد حج یا عمرے کا احرام باندھ کر تلبیہ پکارنا مشروع ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 215
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 292
´احرام باندھنے کے وقت نفاس والی عورتیں کیا کریں؟`
محمد کہتے ہیں کہ ہم لوگ جابر بن عبداللہ کے پاس آئے، اور ہم نے ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج (حجۃ الوداع) کے متعلق دریافت کیا، تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پچیس ذی قعدہ کو نکلے ہم لوگ بھی آپ کے ساتھ نکلے، یہاں تک کہ جب آپ ذوالحلیفہ پہنچے تو اسماء بنت عمیس نے محمد بن ابوبکر کو جنا، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آدمی بھیج کر دریافت کیا کہ اب میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”غسل کر لو اور لنگوٹ کس لو، پھر لبیک پکارو۔“ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 292]
292۔ اردو حاشیہ:
➊ نفاس سے مراد وہ خون ہے جو بچے کی پیدائش کے بعد عورت کو آتا ہے۔ اس دوران میں بھی عورت کے لیے نماز، روزہ، قرآن اور جماع «» ممنوع ہے۔ خون کے اختتام پر غسل کرنے کے بعد مذکورہ چیزیں حلال ہوتی ہیں۔
➋ احرام کے مسئلے میں نفاس والی عورت باقی عورتوں کے برابر ہے، وہ لبیک کہے گی اور حج کے تمام ارکان بھی ادا کرے گی مگر طواف اور سعی نہیں کرے گی کیونکہ اس کا حکم حیض والی عورت کی طرح ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 292
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2741
´تلبیہ کہتے وقت حج یا عمرے کا نام نہ لینے کا بیان۔`
ابو جعفر محمد بن علی باقر کہتے ہیں کہ ہم جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے پاس آئے، اور ہم نے ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نو سال تک مدینہ میں رہے پھر لوگوں میں اعلان کیا گیا کہ امسال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کو جانے والے ہیں، تو بہت سارے لوگ مدینہ آ گئے، سب یہ چاہتے تھے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کریں اور وہی کریں جو آپ کرتے ہی۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2741]
اردو حاشہ:
(1) ”نو سال“ آپ نے اس دوران میں عمرے تو تین کیے مگر حج نہیں فرمایا۔
(2) ”اعلان کروایا گیا۔“ تاکہ تمام موجود مسلمانوں کو رسول اللہﷺ کی زیارت، صحابیت اور اقتدا کا شرف حاصل ہو۔ حج کے افعال براہ راست آپ سے سیکھیں۔ آپ سے شریعت کے دیگر مسائل کا علم حاصل کریں اور مسلمانوں کی اجتماعیت اور شان وشوکت کا اظہار ہو۔
(3) ”نیت حج کی تھی۔“ یعنی مدینے سے نکلتے وقت ورنہ احرام کے وقت تو بعض لوگوں نے عمرے کا احرام بھی باندھا تھا جیسا کہ پیچھے گزرا۔ یا اکثریت کی بات ہے۔
(4) امام نسائی رحمہ اللہ نے شاید نیت کے الفاظ سے یہ استنباط کیا ہے کہ حج یا عمرے کی صراحت ضروری نہیں۔ ویسے اس حدیث میں متعلقہ مسئلے کی وضاحت نہیں۔ بہت سی روایات میں [لبَّيكَ بعُمرةٍ وحجَّةٍ] کے الفاظ صراحتاً رسول اللہﷺ سے مذکور ہیں۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1563، وصحیح مسلم، الحج، حدیث: 1232) ویسے اس بات پر اتفاق ہے کہ نیت کافی ہے۔ لبیک کے ساتھ حج یا عمرے کی صراحت ضروری نہیں، البتہ ابتدائی لبیک میں ذکر ہو تو اچھی بات ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2741
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2762
´نفاس والی عورت کے تلبیہ پکارنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نو برس تک مدینہ میں رہے، اور حج نہیں کر سکے، پھر (دسویں سال) آپ نے لوگوں میں حج کا اعلان کیا تو کوئی بھی جو سواری سے یا پیدل آ سکتا تھا ایسا بچا ہو جو نہ آیا ہو، لوگ آپ کے ساتھ حج کو جانے کے لیے آتے گئے یہاں تک کہ آپ ذوالحلیفہ پہنچے تو وہاں اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ نے محمد بن ابی بکر کو جنا، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اطلاع بھیجی کہ وہ کیا کریں۔ تو آپ ن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2762]
اردو حاشہ:
(1) یہ روایت تفصیلاً پیچھے گزر چکی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں، حدیث: 2664، 2665۔
(2) نفاس والی عورت کا احرام کے وقت غسل کرنا طہارت کے لیے نہیں صرف احرام کی سنت کے طور پر ہے تاکہ احرام کے دنوں میں سر یا بدن میں جوؤں یا میل کچیل سے بچت ہو سکے۔ یہ غسل حائضہ بھی کرے گی۔ غسل کے بعد لبیک کہا جائے، پھر طواف کے علاوہ باقی ارکان ادا کیے جا سکتے ہیں، خواہ حیض ونفاس کا خون جاری ہو۔ (اسی لیے لنگوٹ باندھنے کا حکم دیا۔) جب یہ حالت ختم ہو تو بعد میں طواف کر لے، خواہ کتنی ہی تاخیر ہو جائے۔
(3) حیض اور نفاس والی عورت کی سعی کی بابت اختلاف ہے، تاہم احوط اور افضل یہی ہے کہ وہ صفا مروہ کی سعی بھی نہ کرے۔ واللہ أعلم
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2762
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2763
´نفاس والی عورت کے تلبیہ پکارنے کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے محمد بن ابی بکر کو جنا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھوایا کہ میں کیا کروں؟ تو آپ نے انہیں غسل کرنے، کپڑے کا لنگوٹ باندھنے، اور تلبیہ پکارنے کا حکم دیا۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2763]
اردو حاشہ:
یہ فرض غسل نہیں۔ اگر کوئی مجبوری ہو اور غسل نہ کیا جائے تو بھی گزارا ہو جائے گا، تاہم بلا وجہ نہ چھوڑا جائے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2763
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1905
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کا طریقہ۔`
جعفر بن محمد اپنے والد محمد (محمد باقر) سے روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہم جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے پاس آئے جب ہم ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے آنے والوں کے بارے میں (ہر ایک سے) پوچھا یہاں تک کہ جب مجھ تک پہنچے تو میں نے کہا: میں محمد بن علی بن حسین ہوں، تو انہوں نے اپنا ہاتھ میرے سر کی طرف بڑھایا، اور میرے کرتے کے اوپر کی گھنڈی کھولی، پھر نیچے کی کھولی، اور پھر اپنی ہتھیلی میرے دونوں چھاتیوں کے بیچ میں رکھی، میں ان دنوں جوان تھا، پھر کہا: خوش آمدید، اے میرے بھتیجے! جو چاہو پوچھو، میں نے ان سے سوالات کئے، وہ نابینا ہو چکے تھے اور نماز کا وقت آ گیا، تو وہ ایک کپڑا اوڑھ کر کھڑے ہو گئے (یعنی ایک ایسا کپڑا جو دہرا کر کے سلا ہوا تھا)، جب اسے اپنے کندھے پر ڈالتے تو چھوٹا ہونے کی وجہ سے وہ کندھے سے گر جاتا، چنانچہ انہوں نے ہمیں نماز پڑھائی اور ان کی چادر ان کے بغل میں تپائی پر رکھی ہوئی تھی، میں نے عرض کیا: مجھے اللہ کے رسول کے حج کا حال بتائیے، پھر انہوں نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا اور نو کی گرہ بنائی پھر بولے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نو سال تک (مدینہ میں) حج کئے بغیر رہے، پھر دسویں سال لوگوں میں اعلان کیا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کو جانے والے ہیں، چنانچہ مدینہ میں لوگ کثرت سے آ گئے ۱؎، ہر ایک کی خواہش تھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں حج کرے، اور آپ ہی کی طرح سارے کام انجام دے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور آپ کے ساتھ ہم بھی نکلے، ہم لوگ ذی الحلیفہ پہنچے تو اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کے یہاں محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہما کی ولادت ہوئی، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھوایا: میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم غسل کر لو، اور کپڑے کا لنگوٹ باندھ لو، اور احرام پہن لو“، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ذو الحلیفہ کی) مسجد میں نماز پڑھی، پھر قصواء (نامی اونٹنی) پر سوار ہوئے، یہاں تک کہ جب بیداء میں اونٹنی کو لے کر سیدھی ہو گئی (جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) تو میں نے تاحد نگاہ دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سوار بھی ہیں پیدل بھی، اسی طرح معاملہ دائیں جانب تھا، اسی طرح بائیں جانب، اور اسی طرح آپ کے پیچھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان میں تھے ۱؎، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہو رہا تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا معنی سمجھتے تھے، چنانچہ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے ویسے ہی ہم بھی کرتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید پر مشتمل تلبیہ: «لبيك اللهم لبيك لبيك لا شريك لك لبيك إن الحمد والنعمة لك والملك لا شريك لك» پکارا، اور لوگ وہی تلبیہ پکارتے رہے جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پکارا کرتے تھے ۲؎، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس میں سے کسی بھی لفظ سے منع نہیں کیا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا تلبیہ ہی برابر کہتے رہے۔ ہماری نیت صرف حج کی تھی، ہمیں پتہ نہیں تھا کہ عمرہ بھی کرنا پڑے گا ۳؎، جب ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیت اللہ پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر اسود کا استلام کیا پھر تین پھیروں میں رمل کیا، اور چار پھیروں میں عام چال چلے، پھر مقام ابراہیم کے پاس آئے اور یہ آیت پڑھی: «واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى» ۴؎، اور مقام ابراہیم کو اپنے اور بیت اللہ کے بیچ میں رکھا۔ (محمد بن جعفر) کہتے ہیں: میرے والد کہتے تھے (ابن نفیل اور عثمان کی روایت میں ہے) کہ میں یہی جانتا ہوں کہ جابر رضی اللہ عنہ نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے (اور سلیمان کی روایت میں ہے) میں یہی جانتا ہوں کہ انہوں نے کہا: ”رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں رکعتوں میں «قل هو الله أحد» اور «قل يا أيها الكافرون» پڑھا ۵؎، پھر بیت اللہ کی طرف لوٹے اور حجر اسود کا استلام کیا، اس کے بعد (مسجد کے) دروازے سے صفا کی طرف نکل گئے جب صفا سے قریب ہوئے تو «إن الصفا والمروة من شعائر الله» پڑھا اور فرمایا: ”ہم بھی وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے اللہ تعالیٰ نے شروع کیا ہے“، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا سے ابتداء کی اور اس پر چڑھے یہاں تک کہ بیت اللہ کو دیکھا، تو اللہ کی بڑائی اور وحدانیت بیان کی اور فرمایا: «لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد يحيي ويميت وهو على كل شىء قدير لا إله إلا الله وحده أنجز وعده ونصر عبده وهزم الأحزاب وحده» پھر اس کے درمیان میں دعا مانگی اور اس طرح تین بار کہا، پھر مروہ کی طرف اتر کر آئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم ڈھلکنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطن وادی ۶؎ میں رمل کیا یہاں تک کہ جب چڑھنے لگے تو عام چال چلے، یہاں تک کہ مروہ آئے تو وہاں بھی وہی کیا جو صفا پہ کیا تھا، جب طواف کا آخری پھیرا مروہ پہ ختم ہوا تو فرمایا: ”اگر مجھے پہلے سے معلوم ہوتا جو کہ بعد میں معلوم ہوا تو میں ہدی نہ لاتا اور میں اسے عمرہ بنا دیتا، لہٰذا تم میں سے جس کے ساتھ ہدی نہ ہو تو وہ حلال ہو جائے، اور اسے عمرہ بنا لے۔“ سبھی لوگ حلال ہو گئے اور بال کتروا لیے سوائے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی تھی۔ پھر سراقہ بن جعشم رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کیا یہ (عمرہ) صرف اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ ہمیش کے لیے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے میں داخل کیں اور فرمایا: ”عمرہ حج میں اسی طرح داخل ہو گیا“، اسے دو مرتبہ فرمایا: ”(صرف اسی سال کے لیے) نہیں، بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لیے (صرف اسی سال کے لیے) نہیں، بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لیے“، اور علی رضی اللہ عنہ یمن سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہدی کے اونٹ لے کر آئے تو فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ان لوگوں میں سے پایا جنہوں نے احرام کھول ڈالا تھا، وہ رنگین کپڑے زیب تن کئے ہوئے تھیں، اور سرمہ لگا رکھا تھا، علی رضی اللہ عنہ کو یہ ناگوار لگا، وہ کہنے لگے: تمہیں کس نے اس کا حکم دیا تھا؟ وہ بولیں: میرے والد نے۔ علی رضی اللہ عنہ (اپنے ایام خلافت میں) عراق میں کہا کرتے تھے کہ میں ان کاموں سے جن کو فاطمہ نے کر رکھا تھا غصہ میں بھرا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پوچھنے کے لیے آیا جو فاطمہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بتائی تھی، اور جس پر میں نے ناگواری کا اظہار کیا تھا، تو انہوں نے کہا کہ مجھے میرے والد نے اس کا حکم دیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے سچ کہا، اس نے سچ کہا، تم نے حج کی نیت کرتے وقت کیا کہا تھا؟“، عرض کیا: میں نے یوں کہا تھا: ”اے اللہ! میں اسی کا احرام باندھتا ہوں جس کا تیرے رسول نے باندھا ہے“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے ساتھ تو ہدی ہے اب تم بھی احرام نہ کھولنا۔“ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ہدی کے جانوروں کی مجموعی تعداد جو علی رضی اللہ عنہ یمن سے لے کر آئے تھے اور جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے لے کر آئے تھے کل سو (۱۰۰) تھی، چنانچہ تمام لوگوں نے احرام کھول دیا، اور بال کتروائے سوائے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی تھی۔ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب یوم الترویہ (ذو الحجہ کا آٹھواں دن) آیا تو سب لوگوں نے منیٰ کا رخ کیا اور حج کا احرام باندھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی سوار ہوئے، اور منیٰ پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں ظہر، عصر، مغرب، عشاء اور فجر کی نمازیں ادا کیں۔ پھر کچھ دیر ٹھہرے یہاں تک کہ سورج نکل آیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے بالوں سے بنا ہوا ایک خیمہ کا حکم دیا، تو وادی نمرہ میں خیمہ لگایا گیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے، قریش کو اس بات میں شک نہیں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ میں مشعر حرام ۷؎ کے پاس ٹھہریں گے جیسے جاہلیت میں قریش کیا کرتے تھے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ گئے یہاں تک کہ عرفات جا پہنچے ۸؎ تو دیکھا کہ خیمہ نمرہ میں لگا دیا گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں اترے یہاں تک کہ جب سورج ڈھل گیا تو قصواء کو لانے کا حکم فرمایا، اس پر کجاوہ باندھا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سوار ہوئے یہاں تک کہ وادی کے اندر آئے، تو لوگوں کو خطاب کیا اور فرمایا: ”تمہاری جانیں اور تمہارے مال تم پر ایسے ہی حرام ہیں جیسے تمہارا یہ دن، تمہارے اس مہینے، اور تمہارے اس شہر میں۔ سنو! جاہلیت کے زمانے کی ہر بات میرے قدموں تلے پامال ہو گئی (یعنی لغو اور باطل ہو گئی اور اس کا اعتبار نہ رہا) جاہلیت کے سارے خون معاف ہیں اور سب سے پہلا خون جسے میں معاف کرتا ہوں وہ ابن ربیعہ یا ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب کا ہے- وہ بنی سعد میں دودھ پی رہا تھا- اسے ہذیل کے لوگوں نے قتل کر دیا تھا (وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا چچا زاد بھائی تھا) اور جاہلیت کے تمام سود ختم ہیں سب سے پہلا سود جسے میں ختم کرتا ہوں وہ اپنا سود ہے یعنی عباس بن عبدالمطلب کا کیونکہ سود سبھی ختم ہیں خواہ وہ کسی کے بھی ہوں۔ اور عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو، اس لیے کہ تم نے انہیں اللہ کی امان کے ساتھ اپنے قبضہ میں لیا ہے، اور تم نے اللہ کے حکم سے ان کی شرمگاہوں کو حلال کیا ہے، ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر اس شخص کو نہ آنے دیں جسے تم ناپسند کرتے ہو، اب اگر وہ ایسا کریں تو انہیں بس اس قدر مارو کہ ہڈی نہ ٹوٹنے پائے، اور انہیں تم سے دستور کے مطابق کھانا لینے اور کپڑا لینے کا حق ہے۔ میں تمہارے درمیان ایسی چیز چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم اسے مضبوطی سے پکڑے رہو گے تو اس کے بعد کبھی گمراہ نہ ہو گے، وہ اللہ کی کتاب ہے۔ (اچھا بتاؤ) تم سے قیامت کے روز میرے بارے میں سوال کیا جائے گا تو تمہارا جواب کیا ہو گا؟“ لوگوں نے کہا: ہم گواہی دیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا حکم پہنچا دیا، حق ادا کر دیا، اور نصیحت کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشت شہادت کو آسمان کی طرف اٹھایا، پھر لوگوں کی طرف جھکایا، اور فرمایا: ”اے اللہ! تو گواہ رہ، اے اللہ! تو گواہ رہ۔“ پھر بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی اور اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر پڑھی اور انہوں نے پھر اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز پڑھی یہاں تک کہ میدان عرفات آئے تو اپنی اونٹنی قصواء کا پیٹ صخرات (بڑے پتھروں) کی جانب کیا، اور حبل المشاۃ کو اپنے سامنے کیا، اور قبلہ رخ ہوئے، اور شام تک ٹھہرے رہے یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا اور سورج کی ٹکیہ غائب ہونے کے بعد زردی کچھ کم ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھا لیا، پھر عرفات سے لوٹے، قصواء کی باگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھینچ کر رکھی تھی یہاں تک کہ اس کا سر پالان کے سر سے چھو جایا کرتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے داہنے ہاتھ کے اشارہ سے لوگوں سے کہہ رہے تھے کہ: ”لوگو! اطمینان سے چلو!، لوگو! اطمینان سے چلو!“، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی بلندی پر آتے تو باگ ڈھیلی چھوڑ دیتے تاکہ وہ چڑھ سکے یہاں تک کہ مزدلفہ پہنچے تو مغرب اور عشاء ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ ملا کر پڑھیں۔ عثمان کہتے ہیں: دونوں کے بیچ میں کوئی نفلی نماز نہیں پڑھی پھر سارے راوی متفق ہیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے یہاں تک کہ فجر طلوع ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر پڑھی یہاں تک کہ صبح خوب اچھی طرح روشن ہو گئی، سلیمان کہتے ہیں (یہ نماز) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اذان اور ایک اقامت سے (پڑھی)، پھر سارے راوی متفق ہیں)، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قصواء پر سوار ہوئے یہاں تک کہ مشعر حرام کے پاس آئے، اس پر چڑھے، (عثمان اور سلیمان کہتے ہیں) پھر قبلہ رخ ہوئے اور اللہ کی تحمید، تکبیر اور تہلیل کی، (عثمان نے یہ اضافہ کیا کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید بیان کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں ٹھہرے رہے یہاں تک کہ خوب روشنی ہو گئی اس کے بعد سورج طلوع ہونے سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے چل پڑے، اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کو اپنے پیچھے سوار کر لیا، وہ نہایت عمدہ بال والے گورے خوبصورت شخص تھے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے تو آپ کا گزر ایسی عورتوں پر ہوا جو ہودجوں میں بیٹھی ہوئی جا رہی تھیں، فضل ان کی طرف دیکھنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ فضل کے چہرے پر رکھ دیا تو فضل نے اپنا چہرہ دوسری طرف پھیر لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنا ہاتھ دوسری جانب موڑ دیا تو فضل نے اپنا رخ اور جانب موڑ لیا اور دیکھنے لگے، یہاں تک کہ جب وادی محسر میں آئے تو اپنی سواری کو ذرا حرکت دی (یعنی ذرا تیز چلایا) پھر درمیانی راستے ۹؎ سے چلے جو جمرہ عقبہ پہنچاتا ہے یہاں تک کہ جب اس جمرے کے پاس آئے جو درخت کے پاس ہے تو اسے سات کنکریاں ماریں، ہر کنکری پر تکبیر کہی، کنکری اتنی بڑی تھی کہ انگلی میں رکھ کر پھینک رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی کے اندر سے کنکریاں ماریں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے نحر کرنے کی جگہ کو آئے، اور اپنے ہاتھ سے (۶۳) اونٹنیاں نحر کیں، اور پھر علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تو باقی انہوں نے نحر کیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی اپنے ہدی میں شریک کر لیا (یعنی اپنے ہدی کے اونٹوں میں سے کچھ اونٹ انہیں بھی نحر کرنے کے لیے دے دیئے) پھر ہر اونٹ میں سے گوشت کا ایک ایک ٹکڑا لینے کا حکم دیا، تو وہ سب ٹکڑے ایک دیگ میں رکھ کر پکائے گئے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور علی رضی اللہ عنہ) دونوں نے ان کا گوشت کھایا اور ان کا شوربہ پیا، (سلیمان کہتے ہیں) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور بیت اللہ کی طرف چلے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ میں ۱۰؎ ظہر پڑھی۔ پھر بنی عبدالمطلب کے پاس آئے، وہ لوگ آب زمزم پلا رہے تھے فرمایا: ”اے بنی عبدالمطلب! پانی کھینچو، اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ تمہارے سقایہ پر لوگ تم پر غالب آ جائیں گے ۱۱؎ تو میں بھی تمہارے ساتھ پانی کھینچتا، ان لوگوں نے ایک ڈول آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے پیا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1905]
1905. اردو حاشیہ:
➊ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کو اہل بیت نبوی ﷺ سے انتہائی محبت تھی۔اوراہل بیت سے محبت کرنا اور محبت رکھنا اہل الحدیث یعنی اہل السنۃ والجماعۃ کے ایمان کا حصہ ہے۔(اے اللہ!گواہ رہنا ہمیں تیرے نبی اور اس کی آل سے انتہائی پیار ہے۔رضوان اللہ علیھہم اجمعین۔ہمارا حشر انہی صالحین کے ساتھ فرما۔آمین) عقیدہ حب اہل بیت کی تفصیل کے لئے دیکھئے۔تفسیر ابن کثیر آیت کریمہ(<قرآن> قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ)(الشوریٰ۔23)
➋ اہل بیت کے افراد حصول علم نبوی ﷺکے حریص اور شائق تھے۔اور وہ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے ساتھ گہرے علمی روابط رکھتے تھے۔
➌ ننگے سر نماز جائز ہے۔ مگر کندھوں کا ڈھانپنا ضروری ہے۔ الا یہ کہ کپڑ امیسر ہی نہ ہو۔ مگر ہمیشہ بطور عادت کے ننگے سر رہنا اور ننگے سر ہی نماز پڑھنا اسلامی روایات اور سلف کے طرز عمل کے خلاف ہے۔
➍ رسول اللہ ﷺ کی معیت میں حج کرنے والوں کی تعداد نوے ہزار اور ایک قول کے مطابق ایک لاکھ تیس ہزار تھی۔واللہ اعلم۔
➎ دین کابنیادی ماخذ صرف اورصرف محمد رسول اللہ ﷺ ہیں۔
➏ نفاس اور حیض والی خواتین غسل کرکے احرام باندھیں۔تلبیہ پکاریں۔عام ازکار میں مشغول رہیں۔ چونکہ ان ایام میں وہ نماز نہیں پڑھتیں۔مسجد میں داخل نہیں ہوسکتیں۔اس لئے وہ طواف بھی نہیں کرسکتیں۔
➐ رسول اللہ ﷺ کی اونٹنی کے تین نام آئے ہیں۔قصواء۔عضباء۔اور جدعاء۔
➑ سب سے افضل اور مستحب تلبیہ وہی ہے۔جو رسول اللہ ﷺ کا اختیار کردہ ہے۔کچھ اور کلمات بھی صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین سے وار د ہیں۔مثلا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے الفاظ یوں تھے۔ <عربی> (لبيك ذا النعماء والفضل الحسن لبيك مرهو يا منك ومرغوبا ً اليك حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ منقول ہے۔ <عربی> لبيك وسعديك والخير بيديك والرغباء اليك والعمل حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔ <عربی> لبيك حقا تعبدورقا
➒ حجر اسود کے بعد خانہ کعبہ کادروازہ ہے۔اور اس سے پہلے آنے والے کونے کےلئے الرکن کا لفظ بطور حکم استعمال ہوتا ہے۔اسے رکن یمانی بھی کہا جاتا ہے۔
➓ طواف قدوم میں رمل ایک ثابت شدہ متواتر سنت ہے۔اس کی ابتداء اگرچہ کفار کے سامنے اپنی قوت جسمانی کے اظہار کے لئے تھی۔ اب وہ علت تو نہیں ہے۔صرف اتباع رسول ﷺ مقصود ومطلوب ہے۔ 1
➊ رکعات طواف مقام ابراہیم ؑ کے پیچھے پڑھنی مستحب ہے۔ اگر یہاں نہ پڑھ سکے تو مسجد الحرام میں کہیں بھی پڑھ سکتا ہے۔1
➋ رکعات طواف کے بعد پھر حجر اسود کا استلام سنت ہے۔1
➌ صفا مروہ پر چڑھ کر کعبہ کی طرف رخ کرکےمسنون اذکار پڑھے جایئں خواہ کعبہ نظر آئے یا نہ آئے۔ 1
➍ آجکل دامن وادی کے حصہ کو نمایاں کرنے کے لئے سبز رنگ کے ستون لگادیئے گئے ہیں۔1
➎ رسول اللہ ﷺ علم غیب نہ جانتے تھے۔1
➏ یہ فسخ اب بھی مباح ہے۔یعنی اگر کوئی مفر د حج والا چاہے تو اپنے حج کے احرام کو عمرہ میں تبدیل کرسکتا ہے۔1
➐ اہل بیت نبوی ﷺ امور شریعت کے اسطرح پابند ہیں جیسے کہ امت کے دیگر افراد نیز شوہر کو حق حاصل ہے کہ شرعی امور کی مخالفت پر اہل خانہ پر ناراضی کا اظہار کرے۔اور شریعت کی بات منوائے۔ہر مسلمان کو چاہیے کہ اپنی صلاحیت کے مطابق تحقیق حق میں کوشش کرے۔اور حق کی بنیاد رسول اللہ ﷺ کاقول فعل اور توثیق (اقرار) ہے۔1
➒ آٹھویں زو الحج کو یوم الترویہ کا نام دینے کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ اس دن اگلے دن کےلئے پانی لے لیتے تھے کیونکہ عرفات میں پانی نہیں ہوا کرتا تھا۔20۔چاہیے کہ یہ رات منیٰ میں گُزاری جائے۔یہ مستحب ہے واجب نہیں۔ سنت یہ ہے کہ طلوع آفتا ب کے بعد ہی عرفات کو روانہ ہوا جائے۔قریش اہل حرم ہونے کے زعم میں حدود حرم سے باہر نہ نکلتے تھے۔(عرفات حدودحرم سے باہر ہے۔)اور مزلفہ ہی میں وقوف کرتے تھے۔ بخلاف دیگر قبائل عرب کے وہ سب عرفات میں پہنچتے تھے۔رسول اللہ ﷺنے امرشریعت واضح فرمایا کہ اس میں کسی کی کوئی خصوصیت نہیں۔قریش کے لئے بھی دوسرے لوگوں کیطرح عرفات میں جانا ضروری ہے۔(صحیح البخاری التفسیر حدیث 4520 وصحیح مسلم الحج حدیث 1219) 2
➌ محرم سائے میں اُٹھ بیٹھ سکتا ہے۔خیمے کا ہو یا چھتری کایا کوئی دوسرا مگر کپڑا سر پر نہ رکھے اور نہ لپیٹے۔2
➍ وادی عرنہ عرفات سے متصل ہے۔ مگر بقول جمہور عرفات کاحصہ نہیں ہے۔ ااور یہاں نماز ظہر سے پہلے دو خطبے ہوتے ہیں۔ اور دیگرایا م حج کے خطبے اگر کوئی ہوں تو ایک ایک ہی ہوتے ہیں۔2
➎ اولی االامر اور اصحاب مناصب کو چاہیے کہ حکم عام کی تنفیذ سے پہلے خود اور اپنے عزیز واقارب کو اس کا پابند بنایئں اس طرح قبولیت بڑھ جاتی ہے۔26۔کتاب اللہ سے تمسک اور اس کااعتصام (یعنی اس پر عمل)فرض کرتا ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ کی سنت ثابتہ پر عمل کیا جائے۔ اس کے بغیر تمسک بکتاب اللہ کا دعویٰ پورا ہی نہیں ہوسکتا۔بہت سی آیات میں یہ مضمون آیا ہے۔مثلا اللہ تعالیٰ نےفرمایا <قرآن> (قُلْ أَطِيعُوا اللَّـهَ وَالرَّسُولَ)(آل عمران۔32) او ر فرمایا <قرآن> (مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ)(النساء۔80) اور فرمایا۔ <قرآن> (وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ)(الحشر 7) 2
➐ عرفات میں ظہر اور عصر کی نماز جمع تقدیم اور قصر سے پڑھنا سنت ہے۔ اور اس موقع پر کوئی اور سنت نفل نہیں پڑھے جائیں گے۔2
➑ وقوف عرفات حج کا رکن رکین ہے۔اس کے بغیر حج نہیں۔عرفات کا سارا میدان موقف ہے۔کسی جگہ کی کوئی خصوصیت نہیں۔ اور اس وقوف کا وقت نویں تاریخ کے زوال سے لے کراگلے دن کی صبح صادق تک ہے۔اور وقوف کا معنی پائوں پر کھڑے ہونا نہیں۔بلکہ اس میدان میں رکنا ہے۔ خواہ کوئی کھڑا ہو بیٹھا ہو لیٹا ہو۔ مسنون یہ ہیں کہ غروب آفتاب کے بعد یہاں سے روانہ ہوا جائے۔29۔بے انتہا ازدھام کی وجہ سےنبی کریم ﷺ اپنی سواری کوسختی سے ضبط کیے ہوئے تھے۔30۔حیوانات کے ساتھ رحم شفقت اسلامی شرعی اخلاق کالازمی حصہ ہے۔3
➊ مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نماز جمع تاخیر اور قصر سے پڑھنا مسنون ہے۔ اور اس رات میں کوئی نوافل اور تہجد نہیں3
➋ مشرکین مزدلفہ سے سورج طلوع ہونے کے بعد روانہ ہوتے تھے۔رسول اللہ ﷺنے ان کی مخالفت کرتے ہوئے قبل ازطلوع روانگی اختیار فرمائی۔3
➌ رسول اللہ ﷺ کی تنبیہ کے بعد حضرت فضل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی اور طرف دیکھنے لگے تھے۔3
➍ مشہور ہے کہ اصحاب الفیل کو اسی وادی محشر میں عذاب آیاتھا۔3
➎ دسویں تاریخ کو صرف ایک جمرہ (جمری کبریٰ) کوکنکریاں ماری جاتی ہیں۔اور بقیہ دنوں میں تینوں جمرات کوکنکریوں کے بارے میں ہے کہ چھوٹی چھوٹی ہوں۔(حصہ الخذف) (بالخاء المنقوط) کے معنی میں امام شافعی ؒ کا قول ہے۔کہ طول و عرض میں انگلی کے پورے سے چھوٹی ہوتی ہے۔امام نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ کھجور کی گٹھلی کے برابر ہواور کچھ نے لوہے کے دانوں کے برابر کہا ہے۔بڑے بڑے پتھر یا جوتے مارنا کوئی شرعی عمل نہیں بلکہ ناجائز بات ہے۔ 3
➏ قربانی اپنے ہاتھ سے زبح کرنا یانحر کرنا افضل ہے۔ رسول اللہ ﷺنے اپنی عمر شریف کے عدد سے قربانیاں کیں۔ دسویں تاریخ کے بعد مذید تین دن (ایام تشریق) بھی قربانی کے دن ہیں۔مگر رسول اللہ ﷺ کا اپنی تمام قربانیاں پہلے دن کرلینا اس کی افضلیت کی دلیل ہے۔3
➐ اپنی قربانی کا گوشت بھی کھانا چاہیے۔3
➑ دسویں تاریخ کا طواف حج کارکن ہے۔اسے طواف افاضہ یا طواف زیارہ بھی کہتے ہیں۔3
➒ حجاج کی خدمت انتہائی اجر وثواب کا عمل ہے۔اس میں ہر ممکن طریقے سے حصہ لینا چاہیے 40۔رسول اللہ ﷺ نے اس موقع پرکھڑے ہوکر پانی پیا تھا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1905
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2913
´نفاس اور حیض والی عورتیں حج کا تلبیہ پکار سکتی ہیں۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا کو محمد بن ابی بکر کی (ولادت کی) وجہ سے نفاس (کا خون) آیا، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہلا بھیجا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں غسل کرنے، اور کپڑے کا لنگوٹ کس کر احرام باندھ لینے کا حکم دیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2913]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
کپڑا باندھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اندر روئی وغیرہ رکھ لی جائے تاکہ دوسرے کپڑوں کو خون نہ لگےاور پریشانی نہ ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2913
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3074
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کا بیان۔`
جعفر الصادق اپنے والد محمد الباقر سے روایت کرتے ہیں کہ ہم جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کے پاس گئے، جب ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے آنے والوں کے بارے میں پوچھا کہ کون لوگ ہیں، یہاں تک کہ آخر میں مجھ سے پوچھا، میں نے کہا: میں محمد بن علی بن حسین ہوں، تو انہوں نے اپنا ہاتھ میرے سر کی طرف بڑھایا، اور میرے کرتے کے اوپر کی گھنڈی کھولی پھر نیچے کی کھولی پھر اپنی ہتھیلی میری دونوں چھاتیوں کے درمیان رکھی، میں ان دنوں نوجوان لڑکا تھا، اور کہا: تمہیں خوش آمدید، تم جو چاہو پوچھو، میں نے ان سے (کچھ باتیں) پوچھیں، وہ نابینا تھے ۱؎ اتنے میں ن۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3074]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بزرگ آدمی کو چاہیے کہ نوجوانوں سے شفقت کا سلوک کرے۔
(2)
نابینا ہونا حصول علم یا تعلیم و تبلیغ میں رکاوٹ نہیں۔
(3)
بڑا کپڑا ہوتے ہوئے چھوٹے میں نماز پڑھنا جائز ہے۔
(4)
مرد کے لیے نماز میں سر ڈھانکنا ضروری نہیں اگرچہ ڈھانکنے کے لیے کپڑا موجود ہوتاہم ننگے سر رہنے کواور اسی طرح ننگے سر نماز پڑھنے کو معمول بنا لینا نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے اسوہ اور عمل کے خلاف ہے۔
عورت کے لیے سر چھپانا ضروری ہے۔
اگرچہ وہ گھر میں اکیلی نماز پڑ ھ رہی ہو۔
(5)
رسول اللہﷺ کا عمل قرآن کی تشریح ہے۔
قرآن مجید میں حج کا حکم ہے۔
اس کی ادائیگی کا طریقہ رسول اللہ ﷺ کے ارشادات اور عمل سے معلوم ہوا۔
(6)
مدینے والوں کا میقات ذوالحلیفہ ہے۔
اسے آج کل آبار علي یا بئر علي کہتے ہیں۔
مدینے سے حج یا عمرے کے لیے جانے والوں کو یہاں سے احرام باندھنا چاہیے،
(7)
حیض و نفاس حج سے رکاوٹ کا باعث نہیں۔
(8)
کپڑا باندھنے کا حکم اس لیے دیاکہ اس کے اندر روئی وغیرہ رکھ لی جائے تاکہ خون اس میں جذب ہوتا رہے۔
اور دوسرے کپڑے خراب نہ ہوں۔
(9)
حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ مشہور صحابی خاتون ہیں۔
پہلے حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں۔
ان کے ساتھ حبشہ کی طرف ہجرت بھی کی۔
حضرت جعفر رضی اللہ عنہ سے ان کے ہاں تین بیٹے پیدا ہوئے۔
حضرت جعفر 8ھ میں غزوہ موتہ میں شہید ہوگئے۔
تو حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہ سے حضرت محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔ 13ھ میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو وہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے نکاح میں آ گئیں۔
ان سے ان کے ہاں یحیٰ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے۔
آپ ام المومنین میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہ کی ماں شریک بہن تھیں اور حضرت عباس ر ضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ ام الفضل رضی اللہ عنہ کی سگی بہن تھیں۔
(10)
لبیک پکارتے وقت بہتر یہ ہے کہ وہی الفاظ پڑھے جائیں جو رسول اللہ ﷺ نے پڑھےتاہم دوسرے الفاظ بھی درست ہیں جن میں اللہ کی توحید اس کی طرف رغبت کا اظہار ہو۔
(11)
طواف کی دو رکعتوں میں سورۃ الکفرون اور سورہ اخلاص پڑھنا مسنون ہے۔
(12)
صفا اور مروہ پر ہر چکر میں کعبہ رخ ہو کر دعا مانگنا مسنون ہے۔
(13)
حج مفرد کی نیت کو عمرے کی نیت میں تبدیل کرکے حج تمتع کرنا درست ہے۔
(14)
جو شخص میقات سے قربانی کا جانور نہ لایا ہو اسے حج تمتع ادا کرنا چاہیے۔
(15)
حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا جائز ہے۔
(16)
ایک راوی سے حدیث سن کر مزید تاکید کے لیے دوسرے راوی یا استاد سے دریافت کرنا جائز ہے۔
جیسے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ سے احرام کھولنے کا مسئلہ سن کر نبی اکرم ﷺ سے تصدیق چاہی۔
(17)
حج تمتع کرنے والے کو عمرہ کرکے احرام کھولنا اور دوبارہ آٹھ ذوالحجہ کو حرام باندھنا چاہیے۔
(18)
یہ احرام مکہ میں اپنی رہائش گاہ ہی سے باندھنا چاہیے۔
اس کے لیے میقات پر جانے کی ضرورت نہیں۔
(19)
منی میں آٹھ ذو الحجہ کی ظہر سے نو ذوالحجہ کی فجر تک پانچ نمازیں ادا کرنی ہیں۔
(20)
نو ذوالحجہ کو زوال سے پہلے نمرہ میں ٹھہرنا چاہیے۔
زوال کے بعد میدان عرفات میں داخل ہونا چاہیے۔
(21)
زوال سے غروب آفتا ب کا وقت عرفات میں ٹھہرنے کا ہے۔
یہ حج کا اہم ترین رکن ہے۔
(22)
جو شخص بروقت عرفات نہ پہنچ سکے وہ رات کو کسی وقت صبح صادق ہونے سے پہلے پہلے عرفات میں حاضر ہوجائے۔
اس کا بھی حج ہوجائے گا۔ دیکھیے۔
:
(سن ابن ماجة، حديث: 3015)
(23)
عرفات میں قبلہ رو کھڑے ہو کر یا بیٹھ کر دعائیں مانگنا۔
اور ذکر الہی میں مشغول رہنا چاہیے۔
(24)
عرفات سے سورج غروب ہونے کے بعد مغرب کی نماز پڑھے بغیر روانہ ہونا چاہیے۔
(25)
مغرب کی نماز عشاء کے ساتھ ملا کر مزدلفہ میں ادا کرنا مسنون ہے۔
راستے میں مغرب کی نماز اد ا کرنا سنت کے خلاف ہے۔
(26)
بعض لوگ مزدلفہ کی رات جاگتے اور نوافل پڑھتے ہیں اس رات سونا ہی سنت کا اتباع ہے۔
اور اصل ثواب سنت کی پیروی میں ہے۔
خلاف سنت محنت کرنے میں نہیں۔
(27)
مزدلفہ میں فجر کی نماز کے بعد سورج نکلنے سے پہلے کافی روشنی ہوجانے تک ذکر ودعا میں مشغول رہنا چاہیے۔
(28)
غلطی کرنے والے کو نرمی سے سمجھایا اور اس غلطی سے روکا جا سکتا ہے۔
ڈانٹ ڈپٹ سے ممکن حد تک اجتناب کرنا چاہیے۔
(29)
جن مقامات میں کسی قوم پر اللہ کا عذاب نازل ہوا ہووہاں جانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
ایسے مقامات کو تفریح گاہیں سمجھ لینا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔
(30)
دس ذی الحجہ کو صرف برے جمرے کو رمی کرنی ہوتی ہے۔
(31)
جمرے پر صرف سات کنکریاں مارنی چاہییں۔
(32)
بڑی بڑی کنکریاں مارنا پتھر اور جوتے مارنا غلو ہے۔
جس سے شیطان خوش ہوتا ہے۔
(33)
دس ذی الحجہ کے اعمال کی ترتیب یہ ہے:
رمی، قربانی، حجامت اور طواف کعبہ۔
اگر یہ ترتیب قائم نہ رہ سکے تو کوئی دم یا فدیہ وغیرہ لازم نہیں آتا۔
(34)
قربانی کی واجب مقدار ایک بھیڑ بکری نر ہویا مادہ یا گائے اور اونٹ کا ایک حصہ ہے۔
اس سے زیادہ جتنی طاقت ہوجانور قربانی کیے جا سکتے ہیں۔
(35)
قربانی کا گوشت غریب مسکین لوگوں کا حق ہے۔
تاہم خود بھی کھانا مسنون ہے۔
(36)
زمزم کا پانی پینا سنت اور ثواب ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3074
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1304
1304- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب بیت اللہ کا طواف کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام ابراہیم علیہ السلام کے پاس دو رکعات نماز ادا کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجراسود کے پاس واپس تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا استلام کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صفاء کی طرف تشریف لے گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ہم اس سے آغاز کریں گے، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے پہلے کیا ہے“ (ارشاد باری تعالیٰ ہے) «إِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَةَ مِنْ شَعَائِرِ اللهِ» (2-البقرة:158) ”بے شک صفا اور مروہ اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1304]
فائدہ:
اس حدیث سے مقام ابراہیم پر دو رکعت پڑھنے کا ذکر ہے، اور اس کے بعد بھی حجر اسود کو بوسہ دینا درست ہے۔
سعی صفا سے شروع کرنی چاہیے، اس پر بحوث گزر چکی ہیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1302
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1305
1305- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک قدم وادی کے نشیبی حصے میں پہنچے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوڑنے لگے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس (نشیبی حصے) کو پار کرلیا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1305]
فائدہ:
صفا ومروہ کے درمیان جہاں اب سبنر لائنیں لگی ہوئی ہیں، وہاں سے تیز چل کر گزرنا ہے، حج و عمرہ میں اگر غور کیا جائے تو ہر جگہ اتباع قرآن و سنت کو لازم پکڑ نے کا درس ملتا ہے، لیکن انسان کس قدر غافل ہے کہ وہ قرآن و حدیث سے دور ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1303
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2909
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں بیان کرتے ہیں جب مقام ذوالحلیفہ میں انہیں نفاس شروع ہو گیا، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم دیا تو انہوں نے اسے حکم دیا کہ وہ غسل کر لے اور احرام باندھ لے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2909]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نفاس والی عورت حج کا احرام باندھ سکتی ہے اور حائض کا بھی یہی حکم ہے۔
جمہور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔
اوراحمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک احرام کے لیے غسل کرنا مستحب ہے اور اہل ظاہر کے نزدیک فرض ہے حیض ونفاس والی عورت حج اور عمرہ کے تمام افعال ادا کرے گی،
صرف طواف نہیں کرسکے گی اور اس سے یہ بھی ثابت ہوا احرام کے لیے دو رکعتیں ضروری نہیں ہیں۔
حیض ونفاس والی نماز نہیں پڑھ سکتی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2909
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2950
جعفر بن محمد باقررحمۃ اللہ علیہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم چند ساتھی حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہوں نے ہم سے دریافت کیا، کہ ہم کون کون ہیں، (ہر ایک نے اپنے متعلق بتایا) یہاں تک کہ میری باری آ گئی، تو میں نے بتایا کہ میں محمد بن علی بن حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہوں، (حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت بوڑھے اور نابینا ہو چکے تھے) تو انہوں نے اپنا ہاتھ بڑھا کر میرے سر پر رکھا، اور میرے کرتے کا اوپر والا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:2950]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
سَئَلَ عَنِ الْقَوْمِ:
اپنے پاس آنے والے لوگوں سے پوچھا،
تم کون ہو،
کیونکہ وہ اس وقت عمر کے آخری حصہ میں اندھے ہو چکے تھے۔
(2)
نَزَعَ زِرَّي الْاَعْليٰ:
میرا اوپر کا بٹن کھولا،
مقصد ان کا سینہ ننگا کرکے پیار وشفقت سے اس پر ہاتھ رکھنا تھا۔
(3)
نِسَاجَةٍ:
ایک بنی ہوئی چھوٹی چادر۔
(4)
مِشْجَب:
کپڑےرکھنےکا سٹول۔
(5)
اِسْتَثْفِرِيْ:
لنگوٹی باندھ لے (6)
اَهَلَّ بِالتَّوْحِيْدِ:
تلبیہ کہنا شروع کیا (7)
اِسْتَلَمَ الرُّكْنَ:
حجراسود کو بوسہ دیا،
اسے چوما۔
اَلرُّكْنُ کا لفظ جب بلا قید آئے تو اس سے مراد حجراسود ہوتا ہے۔
(8)
اِنْصَبَّتْ قَدَمَاه:
آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کےقدم نشیب میں اترے،
آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نشیبی حصہ میں پہنچے۔
(9)
مُحَرِّشاً:
بھڑکانا،
کسی کے خلاف اشتعال دلوانا،
اسم فاعل،
بھڑکانے والا۔
(10)
نَمِرَة:
عرفات سےمتصل وادی ہےجوعرفات کا حصہ نہیں ہے۔
(11)
اَلْمَشْعَرِ الْحَرَامِ:
مزدلفہ کی ایک پہاڑی ہے جس کو قزح بھی کہتے ہیں،
قریش دور جاہلیت میں یہیں رک جاتے تھے،
آگے عرفات تک نہیں جاتے تھے،
کیونکہ وہ حدود حرم سے باہر ہے اور ان کا تصور تھا،
اہل حرم کو حرم سے نہیں نکلنا چاہیے۔
(12)
بَطْنُ الْوَادِيْ:
اس سے مراد وادی عرفہ ہے جو امام مالک کے سوا،
باقی ائمہ کے نزدیک عرفات میں داخل نہیں ہے۔
(13)
كَحُرْمَةِ يَوِْمِكُمْ هٰذَا:
جس طرح اس دن کی حرمت وتعظیم انتہائی شدیداور مؤکد ہے،
اس طرح ایک دوسرے کا خون بہانا یا مال لوٹنا انتہائی قبیح جرم اوربہت بڑا گناہ ہے۔
(14)
كَلِمَةُ اللهِ:
اس سے مراد عقد نکاح،
ایجاب وقبول کےکلمات ہیں۔
(15)
ضَرْباًغَيْرَمُبَرَّحٍ:
وہ مارجوسخت اور شدید نہ ہو،
کیونکہ بَرَح کا معنی مشقت ہے۔
(16)
لَايُوْطِئْنَ فُرَشَكم اَحداً تَكْرَهُوْنَه:
کسی ایسے مرد یا عورت کو اپنا ہو یا غیر گھر میں داخل ہونے اور بیٹھنے کی اجازت نہ دیں،
جس کو خاوند پسند نہ کرتا ہو۔
(17)
كِتَابَ الله:
اللہ تعالیٰ کا قانون اور ضابطہ،
قرآن میں ہو یا سنت میں،
جس طرح کہ (فاغذ يا انيس)
والی حدیث میں ہے،
اور قرآن مجید مراد لینا بھی صحیح ہے کیونکہ اصل ضابطئہ الٰہی تو وہ ہے،
سنت تو اس کی شارع اور مفسرومبین ہے۔
(18)
يَنْكِتُهَا الي الناس:
لوگوں کی طرف جھکاتے تھے،
جس طرح زمین کھودنے کے لیے(اس)
کو نیچے کیا جاتا ہے،
اس طرح اپنی انگلی سے لوگوں کی طرف اشارہ فرماتے تھے،
(19)
صَخَرَات:
جبل رحمت کے دامن میں پھیلے ہوئے پتھر،
جبل رحمت،
عرفات کے درمیان میں ہے،
جس کے پاس کھڑے ہو کر عرفات میں وقوف کرنا مستحب ہے۔
(20)
حَبْل المُشاة:
پیدل چلنے والوں کی جمع ہونے کہ جگہ،
اگر جَبَل المُشاة ہوتو مراد ہوگا،
پیدل چلنے والوں کا راستہ۔
(21)
شَنَقَ:
اس کو اپنی طرف کھینچا،
تنگ کیا۔
(22)
مورك رَحلِه:
پالان کا اگلا حصہ۔
(23)
اَرْخيٰ:
ڈھیلا چھوڑ دیا۔
(24)
وَسِيْم:
خوبصورت،
حسین وجمیل۔
(25)
وادي مُحَسَّر:
جس وادی میں آ کر اصحاب الفیل کے ہاتھی تھک ہار گئے تھے،
یا بے بس اور عاجز ہو گئے تھے۔
(26)
جَمْرَةُ الْكُبْرٰيٰ:
جمرہ عقبہ جو اس وقت شجرہ کے پاس تھا،
دس(10)
ذوالحجہ کوصرف بڑے جمرہ پر کنکر مارے جاتے ہیں۔
(27)
حصي الخَذْف:
وہ چھوٹے چھوٹے سنگریزے جو دو انگلیوں کے درمیان رکھ کر پھینکے جا سکتے ہیں۔
(28)
اِنِزعُوْا:
ڈول کھینچ کر پانی پلاؤ۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2950
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1785
1785. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نےحج کا احرام باندھا۔ نبی کریم ﷺ اورحضرت طلحہ ؓ کے علاوہ کسی کے ساتھ قربانی کاجانور نہیں تھا۔ حضرت علی ؓ یمن سے تشریف لائے اور ان کے ساتھ ہدی تھی۔ انھوں نے کہا کہ میں نے اسی شرط کے ساتھ احرام باندھا جس سے رسول اللہ ﷺ نے احرام باندھا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ا پنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ وہ اس احرام حج کو عمرہ میں بدل لیں۔ بیت اللہ کا طواف کریں اور بال کٹوا کر حلال ہوجائیں ہاں!جس کے ساتھ قربانی کا جانور ہے وہ احرام نہ کھولے۔ لوگوں میں سے کچھ نے کہا کہ ہم جب منیٰ جائیں گے تو ہمارے ذکر سے منی ٹپک رہی ہوگی۔ نبی کریم ﷺ کویہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا: ”اگر مجھے اپنے معاملے کا پہلے علم ہوجاتا جو بعد میں ہوا ہے تو میں اپنے ساتھ قربانی کا جانور نہ لاتا اور اگر میرے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1785]
حدیث حاشیہ:
یزید کی روایت میں یوں ہے کہ کیا یہ حکم خاص ہمارے لیے ہے، امام مسلم کی روایت میں یوں ہے سراقہ کھڑا ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ کیا یہ حکم خاص اسی سال کے لیے ہے۔
آپ نے انگلیوں کو انگلیوں میں ڈالا اور دوبارہ فرمایا عمرہ حج میں ہمیشہ کے لیے شریک ہو گیا۔
نووی نے کہا اس کا مطلب یہ ہے کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا درست ہوا۔
اور جاہلیت کا قاعدہ ٹوٹ گیا کہ حج کے مہینوں میں عمرہ کرنا مکروہ ہے۔
بعض نے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ قران یعنی حج اور عمرے کو جمع کرنا درست ہوا اس باب کے لانے سے امام بخاری کی غرض یہ ہے کہ تمتع، جس میں قربانی ہے وہ یہ ہے کہ حج سے پہلے عمرہ کرے اور جو لوگ حج کے مہینوں میں سارے ذی الحجہ کو شامل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ذی الحجہ میں حج کے بعد بھی عمرہ کرے تو وہ بھی تمتع ہے اور اس میں قربانی یا روزے واجب نہیں، وہ اس حدیث کا جواب یہ دیتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے قربانی کی تھی۔
جیسے ایک روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی بیویوں کی طرف سے ایک گائے قربان کی اور مسلم کی روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت عائشہ ؓ کی طرف سے قربانی دی اور شاید حضرت عائشہ ؓ کو اس کی خبر نہ ہو۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1785
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1785
1785. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نےحج کا احرام باندھا۔ نبی کریم ﷺ اورحضرت طلحہ ؓ کے علاوہ کسی کے ساتھ قربانی کاجانور نہیں تھا۔ حضرت علی ؓ یمن سے تشریف لائے اور ان کے ساتھ ہدی تھی۔ انھوں نے کہا کہ میں نے اسی شرط کے ساتھ احرام باندھا جس سے رسول اللہ ﷺ نے احرام باندھا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ا پنے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو حکم دیا کہ وہ اس احرام حج کو عمرہ میں بدل لیں۔ بیت اللہ کا طواف کریں اور بال کٹوا کر حلال ہوجائیں ہاں!جس کے ساتھ قربانی کا جانور ہے وہ احرام نہ کھولے۔ لوگوں میں سے کچھ نے کہا کہ ہم جب منیٰ جائیں گے تو ہمارے ذکر سے منی ٹپک رہی ہوگی۔ نبی کریم ﷺ کویہ خبر پہنچی تو آپ نے فرمایا: ”اگر مجھے اپنے معاملے کا پہلے علم ہوجاتا جو بعد میں ہوا ہے تو میں اپنے ساتھ قربانی کا جانور نہ لاتا اور اگر میرے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1785]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں بھی حضرت عائشہ ؓ کے مقام تنعیم سے احرام باندھ کر عمرہ کرنے کا ذکر ہے۔
امام بخاری ؒ نے عنوان ثابت کرنے کے لیے یہ حدیث پیش کی ہے۔
(2)
دور جاہلیت میں أشهر الحج (حج کے مہینوں)
کے دوران میں عمرہ کرنا بہت بڑا گناہ خیال کیا جاتا تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے خود بھی اور حضرت عائشہ ؓ کو ماہ ذوالحجہ میں عمرہ کرایا تاکہ اس رسم جاہلیت کا خاتمہ ہو۔
حضرت سراقہ ؓ نے بھی اس کے متعلق سوال کیا تھا کہ ایسا کرنا صرف آپ کے ساتھ خاص ہے یا ہمیشہ کے لیے ایسا کیا جا سکتا ہے؟ تو آپ نے جواب دیا:
آئندہ بھی ایسا کیا جا سکتا ہے۔
(3)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور مالدار حضرات ؓ کے ساتھ قربانی کے جانور تھے، جبکہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کا جانور صرف رسول الله ﷺ اور حضرت طلحہ ؓ کے ساتھ تھا۔
ان روایات میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ ہر ایک نے اپنا مشاہدہ بیان کیا ہے، جس چیز کو اس نے دیکھا اسے ذکر کر دیا۔
(فتح الباري: 767/3)
واضح رہے کہ حضرت عائشہ ؓ کو تین ذوالحجہ ہفتے کے دن حیض شروع ہوا اور 10 ذوالحجہ ہفتے کے دن ختم ہوا، جب عرفات سے واپسی پر منیٰ میں پڑاؤ کیا تو انہوں نے غسل حیض کیا۔
(فتح الباري: 767/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1785