أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَامَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَاذَا تَأْمُرُنَا أَنْ نَلْبَسَ مِنَ الثِّيَابِ فِي الْإِحْرَامِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَلْبَسُوا الْقَمِيصَ، وَلَا السَّرَاوِيلَاتِ، وَلَا الْعَمَائِمَ، وَلَا الْبَرَانِسَ، وَلَا الْخِفَافَ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ أَحَدٌ لَيْسَتْ لَهُ نَعْلَانِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ مَا أَسْفَلَ مِنَ الْكَعْبَيْنِ، وَلَا تَلْبَسُوا شَيْئًا مِنَ الثِّيَابِ مَسَّهُ الزَّعْفَرَانُ، وَلَا الْوَرْسُ، وَلَا تَنْتَقِبُ الْمَرْأَةُ الْحَرَامُ، وَلَا تَلْبَسُ الْقُفَّازَيْنِ".
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 134
´استاد کو مسائل کی تفصیل میں فیاضی سے کام لینا چاہئیے`
«. . . عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَجُلًا سَأَلَهُ مَا يَلْبَسُ الْمُحْرِمُ؟ فَقَالَ: لَا يَلْبَسُ الْقَمِيصَ وَلَا الْعِمَامَةَ وَلَا السَّرَاوِيلَ وَلَا الْبُرْنُسَ وَلَا ثَوْبًا مَسَّهُ الْوَرْسُ أَوِ الزَّعْفَرَانُ، فَإِنْ لَمْ يَجِدِ النَّعْلَيْنِ فَلْيَلْبَسْ الْخُفَّيْنِ وَلْيَقْطَعْهُمَا حَتَّى يَكُونَا تَحْتَ الْكَعْبَيْنِ . . .»
”. . . ابن عمر رضی اللہ عنہما سے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ احرام باندھنے والے کو کیا پہننا چاہیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہ قمیص پہنے نہ صافہ باندھے اور نہ پاجامہ اور نہ کوئی سرپوش اوڑھے اور نہ کوئی زعفران اور ورس سے رنگا ہوا کپڑا پہنے اور اگر جوتے نہ ملیں تو موزے پہن لے اور انہیں (اس طرح) کاٹ دے کہ ٹخنوں سے نیچے ہو جائیں . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ مَنْ أَجَابَ السَّائِلَ بِأَكْثَرَ مِمَّا سَأَلَهُ:: 134]
� تشریح:
ورس ایک قسم کی خوشبودار گھاس ہوتی ہے۔ حج کا احرام باندھنے کے بعد اس کا استعمال جائز نہیں۔ سائل نے سوال تو مختصر سا کیا تھا، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تفصیل کے ساتھ اس کو جواب دیا، تاکہ جواب نامکمل نہ رہ جائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ استاد کو مسائل کی تفصیل میں فیاضی سے کام لینا چاہئیے تاکہ طلباءکے لیے کوئی گوشہ تشنہ تکمیل نہ رہ جائے۔
الحمدللہ کہ آج عشرہ اول ربیع الثانی 1387ھ میں کتاب العلم کے ترجمہ و حواشی سے فراغت حاصل ہوئی، اس سلسلہ میں بوجہ کم علمی کے خادم سے جو لغزش ہو گئی ہو اللہ تعالیٰ اسے معاف فر مائے۔ «ربنا لا علم لنا الا ماعلمتنا انك انت العليم الحكيم . رب اشرح لي صدري ويسرلي امري آمين ياارحم الراحمين»
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 134
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1542
1542. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!محرم کون سے کپڑے پہنے؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”محرم قمیص، پگڑی، شلوار، ٹوپی، اور موزے نہ پہنے۔ ہاں اگر جوتا نہ ملے تو موزے پہن لے لیکن انھیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ لے اور ایسا کپڑا بھی نہ پہنو جسے زعفران یا ورس لگی ہوئی ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1542]
حدیث حاشیہ:
ورس ایک زرد گھاس ہوتی ہے خوشبودار اوراس پرسب کا اتفاق ہے کہ محرم کو یہ کپڑے پہننے ناجائزہیں۔
ہر سلا ہوا کپڑا پہننا مرد کو احرام میں ناجائز ہے لیکن عورتوں کو درست ہے۔
خلاصہ یہ کہ ایک لنگی اور ایک چادر، مرد کا یہی احرام ہے۔
یہ ایک فقیری لباس ہے، اب یہ حاجی اللہ کا فقیربن گیا، اس کو اس لباس فقر کا تا زندگی لحاظ رکھنا ضروری ہے۔
ا س موقع پر کوئی کتنا ہی بڑا بادشاہ مالدار کیوں نہ ہو سب کو یہی لباس زیب تن کر کے مساوات انسانی کا ایک بہترین نمونہ پیش کرنا ہے اور ہر امیر وغریب کو ایک ہی سطح پر آجانا ہے تاکہ وحدت انسانی کا ظاہراً اور باطناً بہتر مظاہرہ ہوسکے اور امراء کے دماغوں سے نخوت امیری نکل سکے اور غرباء کو تسلی واطمینان ہوسکے۔
الغرض لباس احرام کے اندر بہت سے روحانی ومادی وسماجی فوائد مضمر ہیں مگر ان کا مطالعہ کرنے کے لئے دیدہ بصیرت کی ضرورت ہے اور یہ چیز ہر کسی کو نہیں ملتی۔
﴿إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ﴾
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1542
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1842
1842. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: محرم آدمی کون سے کپڑےپہنے؟ تو آپ نے فرمایا: ”وہ قمیص، عمامہ، شلوار اور ٹوپی نہ پہنے اور نہ وہ کپڑاہی پہنے جسے زعفران اور ورس لگی ہوئی ہو۔ اگرجوتا نہ پائے تو موزے پہن لے لیکن انھیں کاٹ کر ٹخنوں سے نیچے کرے۔“۷ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1842]
حدیث حاشیہ:
ان جملہ لباس کو چھوڑ کر صرف سیدھی سادھی دو سفید چادریں ہونی ضروری ہیں جن میں سے ایک تہبند ہو اور ایک کرتے کی جگہ ہو کیوں کہ حج میں اللہ پاک کو یہی فقیرانہ ادا پسند ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1842
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1838
1838. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک مرد نے کھڑے ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!حالت احرام میں آپ کون سا کپڑا پہننے کا حکم دیتے ہیں؟نبی ﷺ نے فرمایا: ”تم قمیص، شلوار، پگڑی اور ٹوپی والا لمبا کوٹ نہیں پہن سکتے (اورنہ پاؤں میں موزے پہنو) ہاں!اگر کسی کے پاس پہننے کے لیے چپل جوتا نہ ہوتو وہ مجبوراًپاؤں کی حفاظت کے لیے موزے پہن لے لیکن انھیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ کر جوتا سابنالے، نیز حالت احرام میں ایسا کوئی کپڑا نہ پہنو جسےزعفران یا ورس لگی ہو۔ اور محرم عورت نقاب اور دستانے بھی نہ پہنے۔“ نقاب اور دستانوں کے متعلق نافع سے روایت کرنے میں لیث کی، موسی بن عقبہ، اسماعیل بن ابراہیم، جویریہ اور ابن اسحاق نے متابعت کی ہے۔ اور عبیداللہ نے لاورس کے الفاظ بیان کیے ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ عورت بحالت احرام نقاب اور دستانے نہ پہنے۔ امام مالک نے بواسطہ نافع حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کی کہ محرم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1838]
حدیث حاشیہ:
باب میں خوشبو لگانے کی ممانعت کا ذکر تھا مگر حدیث میں اور بھی بہت سے مسائل کا ذکر موجود ہے، احرام کی حالت میں سلا ہوا لباس منع ہے اور عورتوں کے لیے منہ پر نقاب ڈالنا بھی منع ہے، ان کو چاہئے کہ اس حالت میں اور بھی زیادہ اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں حیا و شرم و خوف خدا و آداب حج کا پورا پورا خیال رکھیں۔
مردوں کے لیے بھی یہی سب امور ضروری ہیں۔
حیا شرم ملحوظ نہ رہے تو حج الٹا وبال جان بن سکتا ہے۔
آج کل کچھ لوگ عورتوں کے منہ پر پنکھوں کی شکل میں نقاب ڈالتے ہیں، یہ تکلیف بالکل غیر شرعی ہے، احکام شرع پر بلاچون و چرا عمل ضروری ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1838
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2668
´احرام میں ورس اور زعفران میں رنگے ہوئے کپڑے پہننے کی ممانعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ محرم کون سے کپڑے پہنے؟ آپ نے فرمایا: ”محرم قمیص (کرتا) ٹوپی، پائجامہ، عمامہ (پگڑی) اور ورس اور زعفران لگا کپڑا نہ پہنے ۱؎، اور موزے نہ پہنے اور اگر جوتے میسر نہ ہوں تو چاہیئے کہ دونوں موزوں کو کاٹ ڈالے یہاں تک کہ انہیں ٹخنوں سے نیچے کر لے“ ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2668]
اردو حاشہ:
(1) محرم کے لیے ضابطہ یہ ہے کہ سر نہ ڈھانپے اور سلا ہوا کپڑا نہ پہنے، خوشبو والا کپڑا بھی نہ پہنے۔ باقی کپڑے پہن سکتا ہے۔
(2) ”برانڈی“ وہ کوٹ یا کرتا جس کے ساتھ ٹوپی بھی ہوتی ہے۔
(3) ”موزے“ یعنی چمڑے کے موزے۔ صحیح قول کے مطابق موزوں کا پہننا جائز ہے، خواہ وہ کٹے ہوئے نہ بھی ہوں۔ دراصل احرام کی حالت میں موزے پہننے کی بابت دو قسم کی روایات آتی ہیں: ایک یہ کہ انھیں کاٹ کر پہنا جائے اور دوسری یہ کہ موزوں کو ان کی اصل حالت میں پہنا جائے، البتہ جس حدیث میں موزے کاٹنے کا حکم ہے وہ ابتدائے احرام کا ہے جبکہ دوسرا حکم عرفے کے دن کا ہے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ کاٹنے کا حکم منسوخ ہے۔ واللہ أعلم! دیکھیے: (صحیح البخاري، جزاء الصید، حدیث: 1841، وصحیح مسلم، الحجد، حدیث: 1178)
(4) سوال تھا کیا پہنے؟ جواب ملا، فلاں فلاں چیز نہ پہنے۔ کیونکہ یہ پہنی جانے والی چیزیں قلیل ہیں اور پہنی جانے والی کثیر، لہٰذا اختصار کی خاطر ایسے جواب دیا۔ یہ بھی بلاغت کی ایک بہترین صورت ہے کہ جواب کے ساتھ ساتھ سوال کی تصحیح کر دی جائے۔
(5) حدیث میں مذکور لباس کی ممانعت اور دو سادہ ان سلے کپڑے پہننے میں حکمت یہ ہے کہ آدمی خشوع وتذلل کی صفت سے متصف اور رفاہیت سے دور رہے تاکہ اسے یاد دہانی رہے کہ وہ محرم ہے، اس لیے وہ کثرت اذکار اور عبادت کی طرف متوجہ رہے اور ممنوعات کے ارتکاب سے باز رہے، نیز اس سے مساوات اور اتحاد کا درس ملے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2668
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2670
´محرم کو قمیص پہننے کی ممانعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: محرم کون سے کپڑے پہنے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نہ قمیص پہنو نہ عمامے نہ پائجامے، نہ ٹوپیاں اور نہ موزے البتہ اگر کسی کو جوتے نہ مل پائیں تو موزے پہن لے، اور انہیں کاٹ کر ٹخنوں سے نیچے سے کر لے، اور نہ کوئی ایسا کپڑا پہنو جس میں زعفران یا ورس لگی ہو۔“ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2670]
اردو حاشہ:
جمہور اہل علم کے نزدیک محرم کے لیے قد اور اعضاء کے مطابق پیمائش کر کے سلے ہوئے کپڑے پہننا منع ہے۔ یاد رہے کہ مذکورہ کپڑے منع ہیں، خواہ سلے ہوئے ہوں یا ان سلے۔ اور ان کے علاوہ چادریں جائز ہیں، خواہ سلی ہوئی ہوں یا ان سلی۔ موزے کاٹنے والا حکم منسوخ ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث: 2667، 2668)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2670
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2676
´احرام میں ٹوپی پہننے کی ممانعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: جب ہم احرام باندھیں تو کون سے کپڑے پہنیں؟ آپ نے فرمایا: نہ قمیص پہنو، نہ پائجامے، نہ عمامے، نہ ٹوپیاں، نہ موزے، البتہ کسی کے پاس جوتے نہ ہوں تو وہ ایسے موزے پہنے جو ٹخنوں سے نیچے ہو، اور نہ کوئی ایسا کپڑا پہنو جس میں ورس زعفران لگے ہوں۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2676]
اردو حاشہ:
تفصیل کےلیے دیکھیے حدیث نمبر 2668۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2676
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2678
´احرام میں عمامہ (پگڑی) پہننے کی ممانعت۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دی اور اس نے پوچھا: جب ہم محرم ہوں تو کیا پہنیں؟ تو آپ نے فرمایا: ”نہ قمیص پہنو، نہ عمامے (پگڑیاں)، نہ ٹوپیاں، نہ پائجامے، نہ موزے البتہ اگر جوتے نہ ہوں تو ایسے موزے پہنو جو ٹخنوں سے نیچے ہوں، اور نہ ورس اور زعفران لگے ہوئے کپڑے پہنو۔“ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2678]
اردو حاشہ:
یہ پابندی صرف مرد کے لیے ہے کیونکہ دوران احرام مرد کے لیے سر ننگا رکھنا ضروری ہے۔ پگڑی کے تحت ٹوپی، ہیٹ اور رومال وغیرہ بھی آجائیں گے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2678
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2679
´احرام میں موزے پہننے کی ممانعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”احرام میں نہ قمیص پہنو، نہ پائجامے، نہ عمامے (پگڑیاں) نہ ٹوپیاں، نہ موزے۔“ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2679]
اردو حاشہ:
یہ پابندی بھی صرف مردوں کے لیے ہے، نیز موزوں کے تحت جرابیں وغیرہ بھی داخل ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2679
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2682
´محرم عورت کو دستانے پہننے کی ممانعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! احرام میں آپ ہمیں کون سے کپڑے پہننے کا حکم دیتے ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہ قمیص پہنو، نہ پائجامے، نہ موزے، البتہ اگر کسی کے پاس جوتے نہ ہوں تو وہ ایسے موزے پہن لے جو ٹخنوں سے نیچے سے ہوں اور کوئی ایسا کپڑا نہ پہنے جس میں زعفران یا ورس لگا ہو، اور محرمہ عورت نہ نقاب پہنے، اور نہ دستانے۔“ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2682]
اردو حاشہ:
احناف نے دستانے نہ پہننے کو مستحب کہا ہے مگر اس کی تائید دلائل سے نہیں ہوتی۔ نقلاً، نہ عقلاً۔ واللہ أعلم (تفصیل کے لیے دیکھیے فوائد حدیث: 2674)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2682
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:134
134. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ہی سے روایت ہے، نبی ﷺ سے ایک شخص نے پوچھا: جو شخص احرام باندھے وہ کیا پہنے؟ آپ نے فرمایا:”نہ کُرتا، نہ پگڑی، نہ پاجامہ، نہ ٹوپی اور نہ وہ کپڑا جس میں ورس یا زعفران لگی ہو۔ اور اگر جوتی نہ ہو تو موزے پہن لے اور انہیں اوپر سے کاٹ لے تاکہ وہ ٹخنوں سے نیچے ہو جائیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:134]
حدیث حاشیہ:
1۔
حافظ ابن حجر، ابن المنیر کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے جو عنوان قائم کیا ہے اس سے مقصود یہ ہے کہ جواب کا سوال کے حرف بحرف مطابق ہونا ضروری نہیں بلکہ اگر سوال میں کسی خاص سبب کا ذکر ہے تو جواب میں بیان کیے گئے حکم کا عام ہونا جائز ہے۔
اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اگر کوئی سائل مفتی سے کسی مخصوص واقعے کے متعلق سوال کرے اور مفتی کو اندیشہ ہو کہ سائل اس جواب سے کوئی غلط فائدہ اٹھا سکتا ہے تو جواب میں اختصار کا طریقہ اختیار نہ کرے بلکہ ایسی تفصیل پیش کرے جس میں دوسرے معنی کا سدباب ہو جائے جیسا کہ حدیث میں جوتا نہ ملنے کی صورت میں موزے پہننے کا حکم ہے۔
سائل نے آپ سے اختیاری حالت کا سوال کیا تھا آپ نے اضطراری حالت کا حکم بھی بتادیا۔
حالت سفر کے لحاظ سے یہ اضطراری حکم کوئی اجنبی چیز نہیں کیونکہ سفر کی حالت میں ایسی مشکلات پیش آسکتی ہیں نیز ارباب اصول اس بات کی صراحت کرتے ہیں کہ جواب کا سوال کے مطابق ہونا ضروری ہے۔
اس مطابقت سے یہ مراد نہیں کہ جواب کے ساتھ کسی مفید امر کا اضافہ نہ ہو۔
بلکہ مقصد یہ ہے کہ جواب میں سوال کا پورا پورا حل ہو نا چاہیے۔
(فتح الباري: 304/1)
2۔
سوال یہ تھا کہ محرم کے لیے مباح ملبوسات کیا ہیں؟ لیکن جواب میں ان ملبوسات کا ذکر ہے جو محرم کے لیے ناجائز ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ ممنوع ملبوسات محدود ہیں جبکہ مباح ملبوسات کی فہرست بہت طویل ہے۔
اگر انھیں بیان کیا جاتا تو جواب بھی طویل ہو جاتا، اس کے ساتھ یہ شبہ بھی پیدا ہوسکتا تھا کہ شاید یہ ملبوسات صرف محرم پہن سکتا ہے غیر محرم کے لیے ان ملبوسات کا استعمال ناجائز ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں وہ طریقہ اختیار فرمایا جو آسان تھا اور اس میں کسی قسم کے اشتباہ کا اندیشہ نہیں تھا۔
(فتح الباري: 304/1)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ سوال سے زیادہ جواب دیا جا سکتا ہے جبکہ اس کی ضرورت ہو۔
سائل نے اپنے سوال میں اختیاری حالت کا ذکر کیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جواب میں اختیاری حالت کے ساتھ ساتھ اضطراری حالت کا بھی ذکر کر دیا کہ دوران سفر میں جوتے نہ مل سکیں تو ننگے پاؤں چلنے کے بجائے موزے پہن لیے جائیں۔
اس میں سائل کو تنبیہ بھی ہے کہ تمھیں ان پابندیوں کے متعلق سوال کرنا چاہیے تھا جو احرام کی وجہ سے محرم پر عائد ہوتی ہیں۔
آپ کے جواب کا خلاصہ یہ ہے۔
1۔
سلا ہوا کپڑا استعمال نہ کیا جائے۔
2۔
اپنے سرکوکھلا رکھا جائے۔
3۔
خوشبو استعمال نہ کی جائے۔
اس حکم میں مرد عورتیں تمام شامل ہیں۔
4۔
پاؤں میں کھلا جوتا پہنا جائے۔
دیگر مسائل و احکام کتاب الحج میں بیان کیے جائیں گے۔
3۔
حدیث میں مطلق طور پر رنگین کپڑوں کی ممانعت نہیں ہے جیسا کہ”امام تدبر“ نے سمجھا ہے بلکہ صرف ورس اور زعفران سے رنگے ہوئے کپڑوں کی ممانعت ہے کیونکہ یہ دونوں چیزیں خوشبودار ہیں۔
اگرانھیں اچھی طرح دھو کر خوشبو کے اثرات زائل کر دیے جائیں تو ان کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔
آخر میں ”امام تدبر“ نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر اعتراض جڑ دیا ہے کہ ”امام صاحب کی رائے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواب سائل کے سوال کی ضرورت سے زائد دیا ہےحالانکہ یہ بات درست نہیں۔
“(تدبر حدیث: 234/1)
یہ اعتراض بھی اصلاحی صاحب کا خود ان کی اپنی نافہمی یا پندار علم کا نتیجہ ہے ورنہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی زیر نظر حدیث پر تبویب روز روشن کی طرح واضح ہے ع،دیدہ کو رکو کیاآئے نظر، کیا دیکھے؟
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 134
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:366
366. حضرت ابن عمر ؓ روایت کرتے ہیں، انھوں نے فرمایا: ایک آدمی نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ محرم کیا پہنے؟ آپ نے فرمایا: ”محرم قمیص، پاجامہ اور بارانی کا استعمال نہ کرے اور نہ وہ کپڑے پہنے و زعفران یا ورس سے رنگے گئے ہوں۔ اور جس کے ہاس جوتے نہ ہوں وہ موزے پہن لے اور انھیں اوپر سے کاٹ دے تاکہ وہ ٹخنوں سے نیچے ہو جائیں۔“ حضرت نافع ؒ نے بواسطہ ابن عمر ؓ نبی ﷺ سے اس کے مثل روایت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:366]
حدیث حاشیہ: 1۔
عنوان سے اس حدیث کی مناسبت اس طرح ہے کہ محرم کو قمیص، پاجامہ اوربارانی استعمال کرنے کی اجازت نہیں، بلکہ وہ ان سلے کپڑے استعمال کرے اور انھی بغیر سلے احرام والی چادروں میں نماز پڑھے۔
اس سے معلوم ہواکہ نماز کے لیے کپڑے کا سلا ہوا ہوناضروری نہیں، بلکہ اَن سلے کپڑوں میں بھی نماز ہوجاتی ہے، جیسا کہ احرام کی حالت سے ظاہرہے۔
ثابت ہوا کہ کسی خاص کپڑے کی پابندی صحت نمازکے لیے ضروری نہیں حتی کہ اس کا سلا ہواہونا بھی ضروری نہیں، کیونکہ احرام کی حالت میں مردوں کے لیے سلاہوا کپڑاممنوع ہے۔
باب سے مطابقت بایں طور پر بھی ہے کہ اس حدیث کے مطابق قمیص یاپاجامے کی ممانعت صرف محرم کے لیے ہے، خارج از احرام ممانعت نہیں۔
اس سے معلوم ہواکہ غیر محرم ان کپڑوں، یعنی قمیص اورپاجامے میں نماز پڑھ سکتا ہے۔
واللہ أعلم۔
2۔
واضح رہے کہ ابن ابی ذئب نے یہ حدیث دوطریق سے حاصل کی ہے:
۔
عن الزهري ؓ، عن سالم عن عبداللہ بن عمر ؓ
۔
عن الزهري، عن نافع، عن عبداللہ بن عمرؓ، قبل ازیں کتاب العلم
(حدیث نمبر: 134) میں طریق نافع بیان کرکے طریق سالم کا اس پر عطف ڈالاتھا اور یہاں اس کے برعکس کیاہے، یعنی طریق سالم بیان کرکے طریق نافع کا اس پرعطف ڈالاہے۔
مقصد یہ ہے کہ اس روایت کے دونوں طریق ایک دوسرے کے موئید ہیں۔
(فتح الباري: 617/1) هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 366
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1542
1542. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!محرم کون سے کپڑے پہنے؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”محرم قمیص، پگڑی، شلوار، ٹوپی، اور موزے نہ پہنے۔ ہاں اگر جوتا نہ ملے تو موزے پہن لے لیکن انھیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ لے اور ایسا کپڑا بھی نہ پہنو جسے زعفران یا ورس لگی ہوئی ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1542]
حدیث حاشیہ:
(1)
ورس ایک زرد رنگ کی خوشبودار گھاس ہے جس میں کپڑوں کو رنگا جاتا تھا۔
چونکہ اس میں رنگے ہوئے کپڑوں میں خوشبو اور زینت ہے، اس لیے محرم کے لیے ان کا استعمال درست نہیں۔
اسی طرح زعفران میں رنگے ہوئے کپڑے بھی محرم کے لیے ناجائز ہیں۔
گویا احرام ایک سادہ اور فقیرانہ لباس ہے، اسے زیب تن کر کے انسان کو اللہ تعالیٰ کا فقیر بننا چاہیے۔
اس موقع پر جتنا بڑا بادشاہ یا امیر ہو اسے یہی احرام کی دو چادریں پہننا ہوتی ہیں تاکہ وحدتِ انسانی کا مظاہرہ ہو سکے۔
(2)
قمیص اور شلوار سے مراد ہر وہ کپڑا ہے جو بدن کی قد وقامت کے مطابق سلا ہوا ہو، نیز ٹوپی اور پگڑی سے مراد ہر وہ کپڑا ہے جس سے سر ڈھانپا جائے اور موزوں سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے پاؤں چھپائے جائیں۔
(3)
احرام کے متعلق مذکورہ شرائط صرف مردوں کے لیے ہیں، البتہ عورتیں صرف زعفرانی اور ورس زدہ کپڑوں سے اجتناب کریں، اس کے علاوہ نقاب باندھنے پر پابندی ہے لیکن جب غیر محرم سامنے آئے تو پردہ کرنا ضروری ہے۔
(فتح الباري: 507/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1542
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1838
1838. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ سے ایک مرد نے کھڑے ہو کر عرض کیا: اللہ کے رسول اللہ ﷺ!حالت احرام میں آپ کون سا کپڑا پہننے کا حکم دیتے ہیں؟نبی ﷺ نے فرمایا: ”تم قمیص، شلوار، پگڑی اور ٹوپی والا لمبا کوٹ نہیں پہن سکتے (اورنہ پاؤں میں موزے پہنو) ہاں!اگر کسی کے پاس پہننے کے لیے چپل جوتا نہ ہوتو وہ مجبوراًپاؤں کی حفاظت کے لیے موزے پہن لے لیکن انھیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ کر جوتا سابنالے، نیز حالت احرام میں ایسا کوئی کپڑا نہ پہنو جسےزعفران یا ورس لگی ہو۔ اور محرم عورت نقاب اور دستانے بھی نہ پہنے۔“ نقاب اور دستانوں کے متعلق نافع سے روایت کرنے میں لیث کی، موسی بن عقبہ، اسماعیل بن ابراہیم، جویریہ اور ابن اسحاق نے متابعت کی ہے۔ اور عبیداللہ نے لاورس کے الفاظ بیان کیے ہیں۔ وہ کہتے تھے کہ عورت بحالت احرام نقاب اور دستانے نہ پہنے۔ امام مالک نے بواسطہ نافع حضرت ابن عمر ؓ سے روایت کی کہ محرم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1838]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ ثابت کیا ہے کہ محرم مرد یا عورت کسی قسم کی خوشبو کسی صورت میں استعمال نہ کرے کیونکہ اس کا تعلق زینت سے ہے جبکہ حج میں مطلوب اللہ کے حضور نیاز مندی، عجز و انکسار اور ترک زینت کے جذبات پیش کرنا ہے، نیز خوشبو کا استعمال جنسی جذبات کو ابھارتا ہے جو حج و عمرہ جیسی عبادت کے منافی ہے۔
اس بات میں کسی کو اختلاف نہیں کہ احرام کی حالت میں مرد و عورت کے لیے خوشبو کا استعمال منع ہے۔
امام احمد نے ایک حدیث بایں الفاظ بیان کی ہے:
”رسول اللہ ﷺ منع فرمایا کرتے تھے کہ عورت احرام کی حالت میں دستانے پہنے یا چہرے پر نقاب ڈالے یا ایسے کپڑے استعمال کرے جنہیں زعفران یا ورس لگی ہو، ان کے علاوہ جو رنگین کپڑے چاہے پہن سکتی ہے۔
“ (مسندأحمد: 2/22، و فتح الباري: 69/4) (2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قمیص، شلوار وغیرہ کی ممانعت صرف مردوں کے لیے ہے عورتوں کو پردے کی وجہ سے ان سب کپڑوں کے استعمال کی اجازت ہے، البتہ دستانے پہننے اور منہ پر نقاب باندھنے کی ممانعت ہے لیکن جب اجنبی مرد (غیر محرم)
سامنے آئے تو اپنی چادر یا کسی اور چیز سے انہیں پردہ کر لینا چاہیے۔
(3)
حدیث کے آخر میں چند متابعات کا ذکر ہے جنہیں حافظ ابن حجر ؒ نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 70/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1838
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1842
1842. حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا: محرم آدمی کون سے کپڑےپہنے؟ تو آپ نے فرمایا: ”وہ قمیص، عمامہ، شلوار اور ٹوپی نہ پہنے اور نہ وہ کپڑاہی پہنے جسے زعفران اور ورس لگی ہوئی ہو۔ اگرجوتا نہ پائے تو موزے پہن لے لیکن انھیں کاٹ کر ٹخنوں سے نیچے کرے۔“۷ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1842]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ موزے پہننے کی اس وقت اجازت ہے جب اسے جوتا نہ ملے۔
عدم وجدان سے مراد یہ ہے کہ ان کے حاصل کرنے پر قدرت نہ ہو۔
اس کی تین صورتیں ہیں:
ان کا نہ ملنا، قیمت کا نہ ہونا اور قیمت کا گراں ہونا۔
ایسے حالات میں موزے پہنے جا سکتے ہیں لیکن یہ اجازت مشروط ہے کہ انہیں کاٹ کر ٹخنوں سے نیچے کر لیا جائے۔
پہلی حدیث میں انہیں کاٹنے کا ذکر نہیں ہے۔
اس اطلاق کو دوسری حدیث سے مقید کیا جائے گا جبکہ بعض ائمہ انہیں کاٹنا ضروری خیال نہیں کرتے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1842
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5794
5794. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ایک آدمی نے عرض کی: اللہ کے رسول! ”محرم آدمی کون سے کپڑے پہن سکتا ہے؟ نبی ﷺ نے فرمایا محرم آدمی قمیض، شلوار، ٹوپی اور موزے نہ پہنے۔ اگر اسے جوتا نہ ملے تو موزوں کو ٹخنوں تک کاٹ کر پہن لے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5794]
حدیث حاشیہ:
(1)
عربوں کے ہاں قمیص پہننے کا بھی رواج تھا، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم کے متعلق فرمایا کہ وہ قمیص نہ پہنے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چادر سے قمیص زیادہ پسند تھی، چنانچہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قمیص سے بڑھ کر اور کوئی کپڑا زیادہ پسند نہ تھا۔
(سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4026)
حضرت اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آستین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کلائی تک ہوا کرتی تھی۔
(جامع الترمذي، اللباس، حدیث: 1765) (2)
قمیص کے زیادہ پسند ہونے کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس میں پردہ زیادہ ہوتا ہے اور چادر کی طرح اسے لپیٹنے اور سنبھالنے کا اہتمام بھی نہیں کرنا پڑتا۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5794
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5803
5803. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے عرض کی: اللہ کے رسول! محرم آدمی کون کون سے کپڑے پہن سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”(احرام میں) قمیض، پگڑی، شلوار۔ لمبی ٹوپی (اوور کوٹ) اور موزے نہ پہنو لیکن! اگر کوئی جوتا نہ پائے تو موزے پہن لے لیکن انہیں ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ لے اور نہ وہ کپڑے پہنو جنہیں زعفران اور ورس سے رنگا گیا ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5803]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ محرم آدمی اوورکوٹ نہیں پہن سکتا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسروں کو اوورکوٹ پہننے کی اجازت ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5803
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5805
5805. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک آدمی نے کھڑے ہو کر عرض کی: اللہ کے رسول! جب ہم احرام باندھیں تو کون سا لباس پہننے کا آپ کا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”قمیض، شلوار، پگڑی، لمبی ٹوپیاں اور موزے نہ پہنو، ہاں اگر کسی شخص کو جوتی میسر نہ ہوتو وہ موزے پہنے جو ٹخنوں سے نیچے ہوں، نیز کوئی ایسا کپڑا نہ پہنو جسے زعفران یا ورس لگی ہوئی ہو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5805]
حدیث حاشیہ:
(1)
حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن میدان محشر میں سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو لباس پہنایا جائے گا۔
(صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6526)
کہتے ہیں کہ سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے شلوار پہنی تھی۔
چونکہ لباس کی اس قسم میں جو آپ نے زیب تن کیا تھا شرمگاہ کی بہت حفاظت ہوتی ہے، اس لیے انہیں قیامت کے دن یہ انعام دیا جائے گا کہ انہیں سب سے پہلے لباس پہنایا جائے گا۔
(عمدة القاري: 15/21) (2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے مذکورہ حدیث سے شلوار پہننے کا جواز ثابت کیا ہے۔
اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شلوار پہننا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں لیکن یہ لباس پردے والا ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5805
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5806
5806. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: محرم آدمی قمیض، پگڑی، شلوار، لمبی ٹوپی نہ پہنے اور نہ کپڑے پہنے جنہیں زعفران اور ورس لگا ہو، وہ موزے بھی نہ پہنے مگر جسے جوتا میسر نہ ہو تو موزوں کو ٹخنوں کے نیچے سے کاٹ ڈالے (تاکہ وہ جوتا بن جائے) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5806]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں ہے کہ محرم آدمی پگڑی نہیں پہن سکتا، اس کا مطلب یہ ہے کہ عام آدمی کو اس کے پہننے کی اجازت ہے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے کوئی صریح حدیث پگڑی کے متعلق پیش نہیں کی۔
شاید انہیں ان کی قائم کردہ شرائط کے مطابق کوئی حدیث دستیاب نہیں ہو سکی۔
حضرت عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا:
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر خطبہ ارشاد فرماتے دیکھا جبکہ آپ نے سیاہ عمامہ باندھ رکھا تھا۔
(سنن ابن ماجة، اللباس، حدیث: 3584)
ایک روایت میں ہے کہ آپ نے عمامے، یعنی پگڑی کے دونوں سرے اپنے کندھوں کے درمیان لٹکا رکھے تھے۔
(سنن ابن ماجة، اللباس، حدیث: 3587)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے وقت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ نے سیاہ رنگ کا عمامہ پہن رکھا تھا۔
(سنن أبي داود، اللباس، حدیث: 4076) (3)
زمانۂ قدیم سے شریف لوگ پگڑی باندھتے آئے ہیں اور اس کے باندھنے کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں کسی خاص انداز سے پگڑی باندھنا ضروری نہیں ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5806