Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب مناسك الحج
کتاب: حج کے احکام و مناسک
22. بَابُ : مِيقَاتِ أَهْلِ الْعِرَاقِ
باب: اہل عراق کی میقات کا بیان۔
حدیث نمبر: 2657
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمَّارٍ الْمَوْصِلِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو هَاشِمٍ مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ الْمُعَافَى، عَنْ أَفْلَحَ بْنِ حُمَيْدٍ، عَنْ الْقَاسِمِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" وَقَّتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ ذَا الْحُلَيْفَةِ، وَلِأَهْلِ الشَّامِ وَمِصْرَ الْجُحْفَةَ، وَلِأَهْلِ الْعِرَاقِ ذَاتَ عِرْقٍ، وَلِأَهْلِ نَجْدٍ قَرْنًا، وَلِأَهْلِ الْيَمَنِ يَلَمْلَمَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ والوں کے لیے ذوالحلیفہ کو میقات مقرر کیا، اور شام و مصر والوں کے لیے حجفہ کو، اور عراق والوں کے لیے ذات عرق کو، اور نجد والوں کے لیے قرن (المنازل) کو، اور یمن والوں کے لیے یلملم کو۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2654 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

سنن نسائی کی حدیث نمبر 2657 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2657  
اردو حاشہ:
عراق والوں یا ادھر سے آنے والوں کا میقات ذات عرق ہے اور یہ متفقہ بات ہے۔ یہ مکہ مکرمہ سے تقریباً 94 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ آج کل الضریبۃ (الخریبات) سے احرام باندھتے ہیں۔ بعض روایات میں عقیق کا ذکر بھی آیا ہے مگر اس روایت میں کچھ ضعف ہے۔ مندرجہ بالا روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ذات عرق کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عراق کا میقات قرار دیا ہے مگر بعض روایات میں اس تقرر کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔ ممکن ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مندرجہ بالا روایات نہ ملی ہوں اور انھوں نے اپنے اجتہاد سے ذات عرق کو میقات مقرر فرمایا ہو کیونکہ عراق کے مشہور شہر کوفہ، بصرہ انھی کے دور میں آباد ہوئے۔ ان کا یہ اجتہاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے موافق ہوگیا جس طرح ان کے دوسرے اجتہادات قرآن مجید کے موافق ہوئے۔ واللہ أعلم
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2657   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 591  
´(احرام کے) میقات کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل عراق کے لیے ذات عرق کو میقات مقرر کیا۔ اسے ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور اس کی اصل مسلم میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی روایت سے ہے، مگر اس کے راوی نے اس کے مرفوع ہونے میں شک کیا ہے۔ اور صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ذات عرق کو میقات کیا تھا۔ احمد، ابوداؤد اور ترمذی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے (مروی) ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق والوں کے لیے عقیق کو میقات مقرر فرمایا تھا۔ [بلوغ المرام/حدیث: 591]
591 لغوی تشریح:
«ذَاتَ عِرَقٍ» عرق کی عین کے نیچے کسرہ ہے۔ یہ مکہ مکرمہ سے شمال مشرق میں 94 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ایک جگہ کا نام ہے۔ اور یہ قرن منازل کے برابر اس کے شمال میں واقع ایک چھوٹا سا پہاڑ ہے۔
«وَفِي البخاري: اَنْ عُمَرَ هُوَ الَّذِيِ وَقَّتْ ذَاتَ عِرْقٍ» اور بخاری میں ہے کہ ذات عرق کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے میقات مقرر کیا تھا۔ بظاہر تو یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی مرفوع روایت کے خلاف ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مقرر کیا جبکہ بخاری کی روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مقرر کیا۔ اور ان دونوں میں جمع و تطبیق کی صورت یوں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مرفوع روایت نہ پہنچی ہو گی، چنانچہ انہوں نے اس بارے میں اجتہاد کیا تو ان کا اجتہاد درست سنت کے مطابق نکلا۔
«اَلْعَقيق» یہ ذات عرق سے کچھ پیچھے ایک جگہ کا نام ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ذات عرق کی حدود میں داخل ہے۔ ہر وہ وادی جسے سیلاب نے وسیع کر دیا ہو اسے «عقيق» کہتے ہیں جو «عق» سے ماخوذ ہے اور اس کے معنی ہیں پھاڑنا۔ اہل مشرق سے اہل عراق اور ان کے راستے سے گزرنے والے مراد ہیں۔ ان دونوں احادیث میں تطبیق یہ ہے کہ ذات عرق میقات واجب ہے اور عقیق میقات مستحب ہے کیونکہ وہ بھی ذات عرق ہی سے ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ یاد رہے کہ وادی مرالظھران جو آج کل وادی فاطمہ کے نام سے مشہور و معروف ہے، وہ طائف کے سامنے مکہ کی مشرقی جانب سے شروع ہوتی ہے اور مغرب میں جدہ کے قریب اس کی جنوبی سمت بحر احمر پر جا کر ختم ہوتی ہے۔ اس وادی کے مشرق میں دو کنارے ہیں۔ ایک جنوبی کنارہ جو طائف کے راستے میں بڑی وادی کے پاس نخلہ یمانیہ سے پہلے ہے اور اسی کو قرن المنازل کہتے ہیں، اہل طائف اور اہل نجد جب مکہ کا قصد کرتے ہیں تو یہیں سے گزرتے ہیں۔ اور دوسرا شمالی کنارہ ضربیہ کے قریب ہے جسے ذات عرق کہتے ہیں، جہاں سے اہل عراق اور اہل نجد شمالی گزرتے ہیں اور یہ دونوں کنارے ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں لیکن ان دونوں کے درمیان بہت مسافت ہے اور دونوں کی یہ مسافت مکہ مکرمہ سے ایک جیسی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ذات عرق کو میقات مقرر کرنے میں اجتہاد سے کام لیا جو علاقے والوں کی ضرورت اور شریعت میں آسانی کے عین مطابق تھا، جب وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقررہ میقات کے موافق ہوا تو گویا نور علی نور کا مصداق ہوا۔
➋ یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ جو شخص ایسے راستے پر چلے جہاں ان پانچوں میقات میں سے کوئی ایک بھی واقع نہ ہو تو اسے چاہیے کہ وہ جونسے میقات کے برابر سے گزرے وہاں سے احرام باندھ لے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی میقات کے محاذ اور برابری کی وجہ ہی سے ذات عرق کو اہل عراق کے لیے مقرر کیا تھا۔ اور تمام علماء اس اصول و ضابطے پر متفق ہیں۔ محاذات اور برابری کا مفہوم یہ ہے کہ میقات آدمی کے دائیں یا بائیں جانب واقع ہو رہا ہو اس حالت میں کہ وہ مکہ کی طرف جانے والا ہو۔ اس کی وضاحت یوں سمجھیے کہ جب ہم ان پانچوں میقات کو ایک خط کے ذریعے سے ملائیں تو مکہ مکرمہ کو ہر جانب سے وہ خط گھیرے میں لے لے، لہٰذا جب بھی کوئی شخص مکہ مکرمہ کی طرف ان میقات کے علاوہ کسی بھی جگہ سے آئے تو لازمی ہے کہ وہ اس خط پر سے گزرے گا جو دوسرے میقات سے ملارہا ہو گا۔ یہ خط ہی دراصل میقات کے محاذ اور برابر کا خط ہے، اس لیے حاجی جب اس خط سے باہر ہو گا وہ آفاق میں ہو گا، اس پر احرام واجب نہیں مگر جب اس خط کے پاس سے گزرے گا تو وہ میقات کے محاذ پر ہو گا، اس لیے اسے بغیر احرام کے آگے بڑھنا جائز نہیں ہو گا، پھر یہ تمام میقات خشکی پر ہیں اور انہیں ملانے والے خطوط بھی خشکی پر ہوں گے، لہٰذا جب تک کوئی شخص بحری جہاز کے ذریعے سے سمندر میں سفر کر رہا ہو گا وہ ان میقات کے برابر نہیں ہو گا۔ یہ صورت تو تبھی ہو گی جب وہ سمندری سفر سے فارغ ہو کر خشکی کے راستے پر پڑے گا۔ ہمارے تحقیق سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ پاکستان اور بھارت سے جو حجاج کرام بذریعہ بحری جہاز حج کرنے کے لیے جاتے ہیں، ان پر جدہ تک پہنچنے سے پہلے احرام باندھنا واجب نہیں کیونکہ وہ سمندری سفر میں نہ تو میقات سے گزرے ہیں اور نہ کسی میقات کے برابر ہی سے گزرے ہیں۔ ان کا جہاز بھی یلملم اور اس کے محاذات سے دور آفاق میں حدود میقات سے تقریباً ایک سو میل کی مسافت پر ہوتا ہے تو احرام باندھ لیتے ہیں، یہ لازمی نہیں ہے۔ ان کی مثال تو ابھی اس شخص کی سی ہے جو خرمہ سے طائف یا لیث سے طائف جا رہا ہے یا مدینہ طیبہ سے یا خیبر سے ینبع کی طرف ذوالحلیفہ کے راستے کے علاوہ کسی اور راستے سے جا رہا ہو تو بلاشبہ میقات اس کے دائیں یا بائیں جانب آئے گا لیکن ابھی وہ میقات کے برابر نہیں آیا کیونکہ ابھی وہ حدود میقات سے پیچھے ہے۔ اسی طرح بحری جہاز پر سفر کرنے والا جب تک سمندر میں رہے گا وہ حدود میقات سے پیچھے ہو گا، اس کے برابر قطعاً نہیں ہو گا تاآنکہ جدہ پہنچ کر اترے کیونکہ جو خط یلملم اور جحفہ کو ملاتا ہے، وہ سمندر کے قریب جدہ سے کچھ آگے مکہ مکرمہ کی جانب پڑتا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 591   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2654  
´مصر والوں کی میقات کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ کو۔ اہل شام و مصر کے لیے حجفہ کو، اہل عراق کے لیے ذات عرق کو، اور اہل یمن کے لیے یلملم کو میقات مقرر کی ہے۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2654]
اردو حاشہ:
مصر والے اگر خشکی کے راستے سے مکہ مکرمہ آئیں تو شام والے راستے سے گزرتے ہیں، لہٰذا ان کا میقات شام والوں کا میقات جحفہ ہی ہوگا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2654