Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب مناسك الحج
کتاب: حج کے احکام و مناسک
21. بَابُ : مِيقَاتِ أَهْلِ نَجْدٍ
باب: نجد والوں کی میقات کا بیان۔
حدیث نمبر: 2656
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" يُهِلُّ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ، وَأَهْلُ الشَّامِ مِنْ الْجُحْفَةِ، وَأَهْلُ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ"، وَذُكِرَ لِي وَلَمْ أَسْمَعْ أَنَّهُ قَالَ:" وَيُهِلُّ أَهْلُ الْيَمَنِ مِنْ يَلَمْلَمَ".
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مدینہ والے ذوالحلیفہ سے تلبیہ پکاریں گے، شام والے حجفہ سے، اور نجد والے قرن (المنازل) سے، اور میں نے تو نہیں سنا ہے لیکن مجھ سے ذکر کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور یمن والے یلملم سے تلبیہ پکاریں گے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 9 (1527)، صحیح مسلم/الحج 2 (1182)، (تحفة الأشراف: 68224)، مسند احمد (2/9) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

سنن نسائی کی حدیث نمبر 2656 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2656  
اردو حاشہ:
(1) اہل نجد اور نجد کے راستے سے آنے والوں کا میقات قرن منازل ہے، اسے قرن الثعالب بھی کہا جاتا ہے۔ مندرجہ بالا احادیث میں صرف لفظ قرن آیا ہے۔ بالاتفاق اس سے قرن المنازل مراد ہے۔ قرن المنازل مکہ مکرمہ سے مشرق کی طرف طائف کے قریب تقریباً 94 کلو میٹر کے فاصلے پر ایک بستی یا وادی ہے۔ پہاڑ بھی کہا گیا ہے۔ کوئی اختلاف نہیں، تینوں اسی نام سے مشہور ہیں۔ آج کل اسے السَّیْل کہا جاتا ہے۔
(2) نجد ہر اونچے علاقے کو کہتے ہیں۔ عرب میں تقریباً دس نجد ہیں۔ یہاں مراد وہ علاقہ ہے جو مکہ مکرمہ سے مشرقی جانب یمن اور تہامہ سے لے کر عراق اور شام تک پھیلا ہوا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2656   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 133  
´مسجد میں علمی مذاکرہ کرنا اور فتوی دینا`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَجُلًا قَامَ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مِنْ أَيْنَ تَأْمُرُنَا أَنْ نُهِلَّ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُهِلُّ أَهْلُ الْمَدِينَةِ مِنْ ذِي الْحُلَيْفَةِ، وَيُهِلُّ أَهْلُ الشَّأْمِ مِنْ الْجُحْفَةِ، وَيُهِلُّ أَهْلُ نَجْدٍ مِنْ قَرْنٍ "، وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ: وَيَزْعُمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: وَيُهِلُّ أَهْلُ الْيَمَنِ مِنْ يَلَمْلَمَ، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ، يَقُولُ: لَمْ أَفْقَهْ هَذِهِ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . . . .»
. . . عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا کہ (ایک مرتبہ) ایک آدمی نے مسجد میں کھڑے ہو کر عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ ہمیں کس جگہ سے احرام باندھنے کا حکم دیتے ہیں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مدینہ والے ذوالحلیفہ سے احرام باندھیں، اور اہل شام جحفہ سے اور نجد والے قرن المنازل سے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا، کہ لوگوں کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یمن والے یلملم سے احرام باندھیں۔ اور ابن عمر رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے کہ مجھے یہ (آخری جملہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد نہیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ ذِكْرِ الْعِلْمِ وَالْفُتْيَا فِي الْمَسْجِدِ:: 133]
تشریح:
مسجد میں سوال کیا گیا اور مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ مساجد کو دارلحدیث کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 133   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1522  
1522. زید بن جبیر کہتے ہیں کہ وہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے پاس آئے۔ وہاں ان کی قیام گاہ پر خیمے اور قناتیں لگی ہوئیں تھیں، میں نے دریافت کیا: میں کہاں سے عمرے کے لیے احرام باندھوں؟انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل نجد کے لیے قرن منازل اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ اور اہل شام کے لیےحجفہ مقرر فرمایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1522]
حدیث حاشیہ:
میقات اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں سے حج یا عمرہ کے لئے احرام باندھ لینا چاہئے اور وہاں سے بغیر احرام باندھے آگے بڑھنا ناجائز ہے اور ادھر ہندوستان کی طرف سے جانے والوں کے لیے یلملم پہاڑ کے محاذ سے احرام باندھ لینا چاہئے۔
جب جہاز پہاڑوں سے گزرتا ہے تو کپتان خود سارے حاجیوں کو اطلاع کرادیتا ہے یہ جگہ عدن کے قریب پڑتی ہے۔
قرن منازل مکہ سے دومنزل پر طائف کے قریب ہے اور ذوالحلیفہ مدینہ سے چھ میل پر ہے اور جحفہ مکہ سے پانچ چھ منزل پر ہے۔
قسطلانی نے کہا اب لوگ جحفہ کے بدل رابغ سے احرام باندھ لیتے ہیں۔
جو جحفہ کے برابر ہے اور اب جحفہ ویران ہے وہاں کی آب وہوا خراب ہے نہ وہاں کوئی جاتا ہے نہ اترتا ہے (وحیدی)
واختصت الجحفة بالحمیٰ فلاینزلها أحد إلاحم۔
(فتح)
یعنی حجفہ بخار کے لئے مشہور ہے۔
یہ وہ جگہ ہے جہاں عمالقہ نے قیام کیا تھا جب کہ ان کو یثرب سے بنو عبیل نے نکال دیا تھا مگر یہاں ایسا سیلاب آیا کہ اس نے اس کوبرباد کر کے رکھ دیا۔
اسی لئے اس کا جحفہ نام ہوا۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ عمرہ کے میقات بھی وہی ہیں جو حج کے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1522   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1525  
1525. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اہل مدینہ ذوالحلیفہ سے تلبیہ کہیں اور اہل شام جحفہ سے، نیز اہل نجد قرن منازل سے احرام کی نیت کریں۔ حضرت ابن عمر ؓ نے کہا: مجھے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اہل یمن یلملم سے تلبیہ کہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1525]
حدیث حاشیہ:
تشریح:
شاید حضرت امام بخاری کا مذہب یہ ہے کہ میقات سے پہلے احرام باندھنا درست نہیں ہے، اسحاق اور داؤد کا بھی ہی قول ہے۔
جمہور کے نزدیک درست ہے۔
یہ میقات مکانی میں اختلاف ہے لیکن میقات زمانی یعنی حج کے مہینوں سے پہلے حج کا احرام باندھنا بالا تفاق درست نہیں ہے۔
نجد وہ ملک ہے جو عرب کا بالائی حصہ تہامہ سے عراق تک واقع ہے۔
بعضوں نے کہا جرش سے لے کر کوفہ کے نواح تک اس کی مغربی حد حجاز ہے۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1525   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1531  
1531. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب یہ دونوں شہر(کوفہ اور بصرہ) فتح ہوئے تو لوگ حضرت عمر فاروق ؓ کے پاس آئے اور کہا: امیر المومنین! رسول اللہ ﷺ نے اہل نجد کے لیے قرن کو بطور میقات مقرر کیا ہےاور وہ ہمارے راستہ سے ایک طرف رہ جاتا ہے۔ اگر ہم قرن جا کر احرام باندھیں تو ہمارے لیے بہت مشکل کا باعث ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: تم اپنے راستے میں اس کے مقابل کوئی جگہ دیکھو، پھر آپ نے ان کے لیے ذات عرق کو مقرر کردیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1531]
حدیث حاشیہ:
یہ مقام مکہ شریف سے بیالیس میل پر ہے۔
۔
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے یہ مقام اپنی رائے اور اجتہاد سے مقرر کیا مگر جابر ؓ کی روایت میں آنحضرت ﷺ سے عراق والوں کا میقات ذات عراق مروی ہے گو اس کے مرفوع ہونے میں شک ہے۔
اس روایت سے یہ بھی نکلا کہ اگر کوئی مکہ میں حج یا عمرے کی نیت سے اور کسی راستے سے آئے جس میں کوئی میقات راہ میں نہ پڑے تو جس میقات کے مقابل پہنچے وہاں سے احرام باندھ لے۔
بعضوں نے کہا کہ اگر کوئی میقات کی برابری معلوم نہ ہو سو سکے تو جو میقات سب سے دور ہے اتنی دور سے احرام باندھ لے۔
میں کہتا ہوں ابوداؤد اور نسائی نے باسناد صحیح حضرت عائشہ ؓ سے نکالا کہ آنحضرت ﷺ نے عراق والوں کے لئے ذات عرق مقرر کیا اور احمد اور دار قطنی نے عبداللہ بن عمرو بن عاص سے بھی ایسا ہی نکالا ہے۔
پس حضرت عمر ؓ کا اجتہاد حدیث کے مطابق پڑا (مولانا وحیدی الزماں)
اس بارے میں حافظ ابن حجر ؒ نے بڑی تفصیل سے لکھا ہے۔
آخر میں آپ فرماتے ہیں لکن لما سن عمر ذات عرق وتبعه علیه الصحابة واستمر علیه العمل کان أولی بالاتباع۔
یعنی حضرت عمر ؓ نے اسے مقرر فرمادیا اور صحابہ کرام نے اس پر عمل کیا تو اب اس کی اتباع ہی بہتر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1531   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7344  
7344. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اہل نجد کے لیے مقام قرن اہل شام کے لیے مقام حجفہ اور اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ کو میقات مقرر کیا۔ سیدنا ابن عمر ؓ فرماتے ہیں: یہ تو میں نے خود نبی ﷺ سے سنا ہے، البتہ مجھے یہ بات بھی پہنچی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اہل یمن کے لیے یلملم میقات ہے۔ ان کے سامنے عراق کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: اس وقت عراق نہیں تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7344]
حدیث حاشیہ:
یہ مقامات احرام حج کی میقات ہیں اس لحاظ سے قابل ذکر ہیں یہی باب سے مطابقت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7344   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 317  
´تلبیہ کہنے کا مقام`
«. . . 220- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: يهل أهل المدينة من ذي الحليفة، وأهل الشام من الجحفة، وأهل نجد من قرن. قال عبد الله: وبلغني أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ويهل أهل اليمن من يلملم. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل مدینہ ذوالحلیفہ سے احرام باندھیں (لبیک کہیں) اور اہل شام حجفہ سے اور اہل نجد قرن سے احرام باندھیں۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ مجھے یہ بات پہنچی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل یمن ے یلَملَم سے احرام باندھیں . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 317]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 1525، ومسلم 1182، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت حدیث میں انتہائی احتیاط سے کام لیتے تھے۔
➋ صحابۂ کرام کی مراسیل (مرسل روایات) حجت ہیں جیسا کہ اصولِ حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔ اس پر مزید یہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ [1530] اور امام مسلم [1181] نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ولأھل الیمن یلملم» اور یمن والوں کا میقات یلملم ہے۔ والحمدللہ
➌ ذوالحلیفہ کو آج کل ابیار علی کہتے ہیں۔ یہ علاقہ مدینہ طیبہ کے قریب ہے۔
➍ حج اور عمرے کی نیت کرنے والا میقات سے احرام باندھے بغیر نہیں گزر سکتا۔ اگر گزر جائے تو پھر اس پر دم واجب ہو جاتا ہے یعنی وہ ایک بکری ذبح کرکے اہلِ مکہ کے غریبوں، مسکینوں کو کھلائے گا۔
➎ یہ ضروری نہیں کہ سب سے بڑے عالم اور مجتہد کو ہر حدیث اور ہر مسئلہ معلوم ہو بلکہ بہت سے جلیل القدر صحابہ سے بعض احادیث کا مخفی رہ جانا اس کی دلیل ہے کہ باتیں مخفی رہ سکتی ہیں۔
➏ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ایلیاء (بیت المقدس) سے احرام باندھا تھا۔ [الام للشافعي 7/253 وسنده صحيح] آپ نے بیت المقدس سے احرام باندھا تھا۔ [مسند الشافعي ص364 ح1652، وسنده صحيح]
اسود بن یزید تابعی نے کوفے سے احرام باندھا تھا۔ [ابن ابي شيبه 3/122 ح12682، وسنده صحيح]
معلوم ہوا کہ جو شخص بذریعہ ہوائی جہاز حج یا عمرے کے لئے روانہ ہوتا ہے تو وہ ائیرپورٹ سے احرام باندھ سکتا ہے، بشرطیکہ دورانِ پرواز جہاز میں ہی میقات آجائے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 220   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2652  
´مدینہ والوں کی میقات کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مدینے والے ذوالحلیفہ سے تلبیہ پکاریں، اور اہل شام حجفہ سے اور نجد والے قرن المنازل سے۔‏‏‏‏ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھے یہ اطلاع بھی ملی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یمن والے یلملم سے تلبیہ پکاریں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2652]
اردو حاشہ:
(1) یہ بات پہنچی ہے۔ گویا یہ ٹکڑا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا۔ لیکن دیگر روایات میں یہ ٹکڑآ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بلا شک وشبہ صحیح وثابت ہے۔ دیکھیے: (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1524، وصحیح مسلم، الحج، حدیث: 1181)
(2) ذوالحلیفہ مدینے سے چھ میل اور مکہ مکرمہ سے تقریباً 450 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے، اسے وادی عقیق بھی کہتے ہیں۔ آج کل اسے بئر علی یا ابیار علی کہتے ہیں۔ یہ میقات تمام مواقیت میں سے مکہ سے زیادہ دور ہے۔
(3) حج کے ارادے سے جانے والوں کے لیے ان جگہوں سے بغیر احرام کے گزرنا جائز نہیں۔
(4) یہ حدیث اعلام نبوت میں سے ہے۔ آپ نے جو میقات مقرر کیے، وہ اور ان کے آس پاس کے علاقوں والے ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ لیکن آپ نے یہ میقات مقرر فرمائے کیونکہ آپ دیکھ رہے تھے کہ یہ علاقے مسلمان ہوں گے اور حج کے لیے بیت اللہ کی طرف رخت سفر باندھیں گے اور انھیں احرام باندھنے کی ضرورت پیش آئے گی۔ صلی اللہ علیہ وسلم
(5) چاروں طرف میقات مقرر کرنا امت کی سہولت کے لیے ہے۔ اگر ایک ہی میقات مقرر کیا جاتا تو یہ بہت زیادہ مشقت کا باعث ہوتا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2652   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2653  
´شام والوں کی میقات کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص مسجد (نبوی) میں کھڑا ہوا اور پوچھنے لگا: اللہ کے رسول! آپ ہمیں کہاں سے تلبیہ پکارنے کا حکم دیتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل مدینہ ذوالحلیفہ سے تلبیہ پکاریں گے، اور اہل شام حجفہ سے اور اہل نجد قرن سے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ لوگوں کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ بھی) فرمایا: اہل یمن یلملم سے تلبیہ پکاریں گے، ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2653]
اردو حاشہ:
جحفہ شام، مصر، ترکی، شمالی افریقہ، یورپ، امریکہ اور ادھر سے گزرنے والوں کا میقات ہے۔ یہ ایک ویران سی آبادی تھی۔ مکہ مکرمہ سے تقریباً 187 کلو میٹر کے فاصلے پر رابغ کے قریب ہے۔ اس کا اصل نام مَھْیَعَہ تھا۔ سیلاب کی تباہ کاری کی وجہ سے اسے جحفہ کہنے لگے۔ یہ بھی مدینے سے جانے والوں کی راہ میں پڑتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2653   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2914  
´مکہ سے باہر رہنے والوں کی میقات کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل مدینہ ذو الحلیفہ سے تلبیہ پکاریں اور احرام باندھیں، اہل شام جحفہ سے، اور اہل نجد قرن سے، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رہیں یہ تینوں (میقاتیں) تو انہیں میں نے (براہ راست) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، اور مجھے یہ اطلاع بھی ملی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اہل یمن یلملم سے تلبیہ پکاریں، (اور احرام باندھیں) ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2914]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
میقات سے مراد وہ حد ہے جہاں سے حج وعمرے کی نیت سے آنے والا شخص احرام باندھے بغیر آگے نہیں جاسکتا۔
مکہ آنے والے مختلف راستوں پران مقامات کا تعین کردیا گیا ہے۔

(2)
آفاقی سے مراد وہ لوگ ہیں جو میقات کی حدود سے باہر دنیا میں کسی بھی مقام پر رہتے ہیں۔
وہ میقات پر پہنچتے ہیں تو احرام باندھتے ہیں۔
ان حدود کے اندر رہنے والے اپنے اپنے گھر سے احرام باندھ کر روانہ ہوتے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2914   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 831  
´آفاقی لوگوں کے لیے احرام باندھنے کی میقاتوں کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم احرام کہاں سے باندھیں؟ آپ نے فرمایا: اہل مدینہ ذی الحلیفہ ۲؎ سے احرام باندھیں، اہل شام جحفہ ۳؎ سے اور اہل نجد قرن سے ۴؎۔ اور لوگوں کا کہنا ہے کہ اہل یمن یلملم سے ۵؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 831]
اردو حاشہ:
1؎:
مواقیت میقات کی جمع ہے،
میقات اس مقام کو کہتے ہیں جہاں سے حاجی یا معتمر احرام باندھ کر حج کی نیت کرتا ہے۔

2؎:
مدینہ کے قریب ایک مقام ہے۔
جس کی دوری مدینہ سے مکہ کی طرف دس کیلو میٹر ہے اور یہ مکہ سے سب سے دوری پر واقع میقات ہے۔

3؎:
مکہ کے قریب ایک بستی ہے جسے اب رابغ کہتے ہیں۔

4؎:
اسے قرن المنازل بھی کہتے ہیں،
یہ مکہ سے سب سے قریب ترین میقات ہے۔
مکہ سے اس کی دوری 95 کیلو میٹر ہے۔

5؎:
ایک معروف مقام کا نام ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 831   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:133  
133. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، ایک شخص مسجد میں کھڑا ہوا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ! آپ ہمیں کس مقام سے احرام باندھنے کا حکم دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اہل مدینہ ذوالحلیفہ سے، شام کے لوگ جحفه سے اور نجد کے باشندے قرن سے احرام باندھیں۔ حضرت ابن عمر ؓ نے کہا: لوگ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا: یمن والے یلملم سے احرام باندھیں۔ حضرت ابن عمر ؓ کہا کرتے تھے: میں رسول اللہ ﷺ سے یہ (آخری) بات اچھی طرح سمجھ نہیں سکا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:133]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی اہمیت و مقصدیت کو بایں الفاظ بیان کیا ہے:
مساجد بول و براز یا گندگی پھیلانے کے لیے نہیں بلکہ ان کی تعمیر کا ایک خاص مقصد ہے۔
بےشک وہ مقصد اللہ کا ذکر، نماز اور تلاوت قرآن ہے۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 505(661)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مساجد کے اغراض و مقاصد کو کلمہ حصر(إِنَّمَا)
سے بیان فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مساجد میں یہی کام ہو سکتے ہیں ان کے علاوہ دوسرے کسی شغل کی حیثیت مشتبہ ہو جاتی ہے خواہ وہ تعلیم وافتا ہی سے متعلق ہو۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان سے ثابت کیا ہے کہ مذکورہ حصر حقیقی نہیں بلکہ احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ مسجد میں علمی باتیں اور فتاوی وغیرہ کا شغل بھی درست ہے، بلکہ مقدمات کا فیصلہ کرنا اور دینی مباحثہ کرنا بھی جائز ہے ہاں مساجد میں دنیوی باتیں کرنا اور انھیں بازار کی حیثیت دینا کسی طرح بھی درست نہیں۔
یہ تھا امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد! ابامام تدبرکی بھی سنیے۔
جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی مخالفت کے لیے ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔
امام صاحب ہر چیز کو نکتہ بنانے کے عادی ہیں ورنہ کس کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ علم دین اور فتوی کے لیے مسجد موزوں مقام ہے یا نہیں؟ مسجد ہی تو مسلمانوں کے دین کا مرکز ہے۔
مناسک حج کے سلسلہ کی یہ ایک اہم روایت ہے لیکن امام صاحب نے اس سے بس یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ علمی سوال مسجد میں بھی ہو سکتا ہے۔
(تدبر حدیث:
232/1-
234)

امام تدبر تو اللہ کے حضور پہنچ چکے ہیں ہم ان کے تیار کردہ تلامذہ سے یہ گزارش کرتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے مسجد میں علمی سوال کا جواز ہی ثابت نہیں کیا بلکہ کتاب الحج میں اس پر مزید تین عنوان قائم کیے ہیں۔
(1)
۔
حج اور عمرہ کے لیے میقات کا تعین (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1522) (2)
۔
اہل مدینہ کا میقات (صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1525)
(3)
۔
اہل نجد کے لیے جائے احرام۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1528)
اس حدیث پر تفصیلی بحث کتاب الحج میں آئے گی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 133   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1522  
1522. زید بن جبیر کہتے ہیں کہ وہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے پاس آئے۔ وہاں ان کی قیام گاہ پر خیمے اور قناتیں لگی ہوئیں تھیں، میں نے دریافت کیا: میں کہاں سے عمرے کے لیے احرام باندھوں؟انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل نجد کے لیے قرن منازل اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ اور اہل شام کے لیےحجفہ مقرر فرمایا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1522]
حدیث حاشیہ:

مواقیت، میقات کی جمع ہے۔
اس سے مراد وہ مقام ہے جہاں سے حج یا عمرے کے لیے احرام باندھا جاتا ہے۔
ان مقامات سے گزرنے کے بعد احرام باندھنا درست نہیں۔
مواقیت اور اہل مواقیت کی تفصیل درج ذیل ہے:
ذو الحلیفہ اہل مدینہ جو شخص مقررہ مواقیت میں سے کسی ایک سے بھی نہ گزرے وہ جس میقات کے اندر رہتے ہوں وہ اپنی رہائش گاہ ہی سے احرام باندھ لیں حتی کہ اہل مکہ، مکہ ہی سے احرام باندھ لیں۔
حدود حرم میں عارضی طور پر مقیم حضرات عمرے کے وقت حدود حرم سے باہر نکل کر میقات سے احرام باندھیں۔
جحفہ اہل شام قرن المنازل اہل نجد یلملم اہل یمن ذات عرق اہل عراق 2۔
جو لوگ حج یا عمرے کا ارادہ نہ رکھتے ہوں وہ احرام باندھے بغیر بھی میقات سے گزر کر مکہ میں داخل ہو سکتے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1522   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1525  
1525. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اہل مدینہ ذوالحلیفہ سے تلبیہ کہیں اور اہل شام جحفہ سے، نیز اہل نجد قرن منازل سے احرام کی نیت کریں۔ حضرت ابن عمر ؓ نے کہا: مجھے معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اہل یمن یلملم سے تلبیہ کہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1525]
حدیث حاشیہ:
(1)
میقات اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں سے حج اور عمرے کا احرام باندھا جاتا ہے اور احرام کے بغیر وہاں سے گزرنا جائز نہیں۔
یہ پابندی صرف حج اور عمرہ کرنے والے کے لیے ہے۔
(2)
میقات کی دوقسمیں ہیں:
٭میقات زمانی:
اس سے مراد وہ ایام ہیں جن میں حج کا احرام باندھا جاتا ہے۔
عموما ماہ شوال ہی میں حج کی تیاری شروع ہوجاتی ہے، اس لیے شوال، ذوالقعدہ اورذوالحجہ کے پہلے دس دن میقات زمانی اور حج کے مہینے کہلاتے ہیں۔
٭میقات مکانی:
اس سے مراد وہ مقامات ہیں جہاں سے حج وعمرہ کرنے والوں کو احرام کے بغیر گزرنا منع ہے۔
ان مقامات کی تفصیل حدیث میں مذکور ہے۔
(3)
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ احرام کی نیت میقات سے پہلے نہیں کرنی چاہیے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ حج کا احرام حج کے مہینوں سے قبل نہیں باندھنا چاہیے۔
والله أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1525   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1528  
1528. حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "اہل مدینہ کا میقات ذوالحلیفہ، اہل شام کا مہیعہ، یعنی حجفہ اور نجد والوں کا قرن منازل ہے۔ " حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ میں نے خود نبی ﷺ سے نہیں سنا بلکہ لوگ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: "اہل یمن کے لیے احرام باندھنے کا مقام یلملم ہے۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:1528]
حدیث حاشیہ:
(1)
اہل یمن کے لیے یلملم کے تعیین کو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا بلکہ انہوں نے اسے لوگوں کے حوالے سے بیان کیا ہے، لیکن یہ تعیین حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت جابر بن عبداللہ، حضرت عائشہ، حضرت حارث بن عمرو سہمی رضی اللہ عنہم سے مروی احادیث سے ثابت ہے۔
ان سب کا مشترکہ بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن کے لیے مقام یلملم کو بطور میقات مقرر فرمایا تھا۔
(فتح الباری: 3/488) (2)
ان تمام مواقیت کی نسبت اہل مدینہ کے میقات ذوالحلیفہ کا فاصلہ مکہ سے بہت زیادہ ہے، یعنی وہ مکہ مکرمہ سے زیادہ دور پڑتا ہے۔
اس کی حکمت یہ بیان کی جا سکتی ہے کہ اہل مدینہ کے اجر کو زیادہ کرنا مقصود ہے، اس سے مدینہ میں رہائش رکھنے کی فضیلت بھی معلوم ہوتی ہے۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ دیگر اہل آفاق سے نرمی کرتے ہوئے ان کے احرام کے مقامات کو قریب رکھا گیا ہے کیونکہ وہ بہت دور دور سے آتے ہیں جبکہ مدینے والے دوسرے لوگوں کے مقابلے میں حرم مکی کے زیادہ قریب ہیں، اس لیے ان کے میقات کو دور رکھا گیا ہے۔
(فتح الباری: 3/486)
واللہ اعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1528   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1531  
1531. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب یہ دونوں شہر(کوفہ اور بصرہ) فتح ہوئے تو لوگ حضرت عمر فاروق ؓ کے پاس آئے اور کہا: امیر المومنین! رسول اللہ ﷺ نے اہل نجد کے لیے قرن کو بطور میقات مقرر کیا ہےاور وہ ہمارے راستہ سے ایک طرف رہ جاتا ہے۔ اگر ہم قرن جا کر احرام باندھیں تو ہمارے لیے بہت مشکل کا باعث ہے۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: تم اپنے راستے میں اس کے مقابل کوئی جگہ دیکھو، پھر آپ نے ان کے لیے ذات عرق کو مقرر کردیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1531]
حدیث حاشیہ:
اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اہل عراق کے لیے ذات عرق کو حضرت عمرؓ نے مقرر فرمایا تھا لیکن حقیقت حال اس کے خلاف ہے کیونکہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل عراق کے لیے ذات عرق کو مقرر فرمایا تھا۔
(سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 1739)
صحیح مسلم کی ایک روایت میں بھی اہل عراق کے لیے ذات عرق کے بطور میقات مقرر ہونے کا ذکر ہے۔
(صحیح مسلم، الحج، حدیث: 2810 (1183)
ممکن ہے کہ جو حضرات اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت عمر ؓ نے اس میقات کو مقرر کیا تھا، انہیں حضرت عائشہ ؓ سے مروی مرفوع حدیث نہ پہنچی ہو یا اگر پہنچی ہے تو انہوں نے اسے ضعیف خیال کیا ہو۔
بہرحال راجح بات یہی ہے کہ ذات عرق کو رسول اللہ ﷺ نے خود ہی میقات مقرر فرمایا تھا اگرچہ آپ کے عہد مبارک میں عراق وغیرہ فتح نہیں ہوا تھا لیکن آپ کو اس بات کا یقین تھا کہ دور دراز تک اسلامی حکومت ہو گی، اس لیے آپ نے پیش بندی کے طور پر اسی وقت ذاتِ عرق کو عراق کا میقات مقرر کر دیا۔
(فتح الباري: 491/3)
جس روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل مشرق کے لیے عقیق کو میقات مقرر فرمایا وہ روایت صحیح نہیں۔
(ضعیف سنن أبي داود، حدیث: 381)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1531   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7344  
7344. سیدنا ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے اہل نجد کے لیے مقام قرن اہل شام کے لیے مقام حجفہ اور اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ کو میقات مقرر کیا۔ سیدنا ابن عمر ؓ فرماتے ہیں: یہ تو میں نے خود نبی ﷺ سے سنا ہے، البتہ مجھے یہ بات بھی پہنچی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: اہل یمن کے لیے یلملم میقات ہے۔ ان کے سامنے عراق کا ذکر کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: اس وقت عراق نہیں تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7344]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دور میں عراق کسریٰ کے قبضے میں تھا۔
وہاں کے لوگ مسلمان نہیں تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل عراق کے لیے کوئی میقات مقرر نہیں کیا۔
اس وقت شام وغیرہ کے لوگ اسلام میں داخل ہوچکے تھے، اس لیے ان کے مقام جحفہ میقات مقرر کیا۔

حدیث میں ہے کہ جب کوفہ اور بصرہ فتح ہوئے تو وہاں کے باشندے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئے، انھوں نے عرض کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل نجد کے لیے قرن المنازل کو میقات مقرر کیا ہے جو ہمارے راستے سے بہت دور پڑتا ہے تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے بالمقابل مقام ذات عرق کو اہل عراق کے لیے میقات مقرر فرمایا۔
(صحیح البخاري، الحج، حدیث: 1531)
بہرحال اس حدیث میں ان میقات کی عظمت کا ذکر ہے، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے یہاں بیان کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7344