Note: Copy Text and Paste to word file

سنن نسائي
كتاب مناسك الحج
کتاب: حج کے احکام و مناسک
5. بَابُ : فَضْلِ الْعُمْرَةِ
باب: عمرہ کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 2630
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ سُمَيٍّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْعُمْرَةُ إِلَى الْعُمْرَةِ كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُمَا، وَالْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الْجَنَّةُ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک عمرہ دوسرے عمرے کے درمیان کے گناہوں کا کفارہ ہے ۱؎، اور حج مبرور کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/العمرة 1 (1773)، صحیح مسلم/الحج 79 (1349)، سنن ابن ماجہ/الحج 3 (2888)، (تحفة الأشراف: 12573)، موطا امام مالک/الحج 21 (65) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس سے مراد صغیرہ گناہوں کا کفارہ ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 2630 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2630  
اردو حاشہ:
فوائد کے لیے دیکھیے، حدیث: 2663۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2630   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 292  
´حج مبرور کی فضیلت`
«. . . 432- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: العمرة إلى العمرة كفارة لما بينهما والحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک عمرہ دوسرے عمرے تک (صغیرہ گناہوں کا) کفارہ ہوتا ہے اور حج مبرور کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 292]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 1773، ومسلم 1349، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ حج مبرور اس مقبول حج کو کہتے ہیں جس میں کتاب وسنت کی کوئی مخالفت نہ ہوئی ہو اور نہ کسی مخلوق کو تکلیف دی گئی ہو، اس میں ریاکاری اور دکھاوا نہیں ہوتا اور صرف حلال مال خرچ کیا جاتا ہے۔
➋ حج کے بعد عمرے کا درجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے سے آدمی کے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔
➌ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اپنے حج اور عمرے کے درمیان جدائی ڈالا کرو کیونکہ اس طرح سے تمہارا حج زیادہ مکمل ہو گا۔ عمرے کی تکمیل اس میں ہے کہ اسے حج کے مہینوں کے علاوہ کیا جائے۔ [المؤطا 347/1 ح 785 وسنده صحيح]
● یہ قول استحباب پر محمول ہے۔
➍ بعض لوگ حج کے دنوں میں اور دوسرے ایام میں تنعیم (مسجد عائشہ) سے عمرے کرتے رہتے ہیں، ان کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 432   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 579  
´حج کی فضیلت و فرضیت کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمرہ دوسرے عمرے تک دونوں کے مابین گناہوں کا کفارہ ہے اور حج مبرور کا بدلہ جنت کے علاوہ اور کوئی نہیں۔‏‏‏‏ (مسلم و بخاری) [بلوغ المرام/حدیث: 579]
579 لغوی تشریح:
«كِتَابُ الْحَجْ» حا پر فتحہ اور کسرہ دونوں منقول ہیں، جس کے لغوی معنی ہیں: قصد کرنا۔ لغت کے امام خلیل نے کہا ہے کہ اس کے معنی محترم مقام کی طرف کثرت سے قصد کرنا ہے۔ اور اصطلاح شریعت میں مسجدالحرام کی طرف مخصوص اعمال سے قصد کرنا ہے۔ حج بالاتفاق اسلام کا پانچواں رکن ہے۔ جمہور علماء کے نزدیک اس کی فرضیت سن چھ ہجری میں ہوئی جبکہ بعض نے نو یا دس ہجری کہا ہے۔ زاد المعاد میں حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔
«اَلْعُمرَةُ» لغت میں عمرہ کے معنی زیارت کے ہیں اور اور بعض نے اس کے معنی قصد و ارادہ کے کیے ہیں۔ اور اصطلاح شریعت میں اسے مراد احرام، طواف، سعی صفا و مروہ، سر منڈوانا یا بال کٹوانا ہے۔ اسے عمرہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ انہیں مذکورہ اعمال کو ملحوظ رکھتے ہوئے بیت اللہ کا قصد کیا جاتا ہے۔ [سبل السلام]
«اَلَجْ الْمَبْرُورُ» اس سے مراد وہ حج ہے جس میں کسی گناہ کا ارتکاب نہ ہو۔ بعض نے کہا ہے کہ حج مبرور وہ ہے جس کے بعد حج کرنے والے کی دینی و اخلاقی حیثیت پہلے سے بہتر ہو جائے۔ اور بعض نے اس کے معنی حج مقبول کے کیے ہیں اور یہ سب اقوال باہم قریب قریب ہیں، ان میں کوئی بڑا فرق نہیں۔ ٭
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 579   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2623  
´مقبول حج کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مبرور و مقبول حج کا بدلہ جنت کے سوا اور کچھ نہیں اور ایک عمرہ دوسرے عمرہ کے درمیان تک کے گناہوں کا کفارہ ہے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2623]
اردو حاشہ:
(1) حج مبرور سے مراد وہ حج ہے جس میں شہوانی باتیں، فسق اور لڑائی جھگڑا نہ ہو جیسا کہ قرآن مجید میں اس کی طرف اشارہ ہے۔ بعض نے حج مبرور کے معنیٰ مقبول حج کے کیے ہیں مگر مقبول مبرور کا معنیٰ نہیں بلکہ لازم ہے، یعنی جو حج ان مفاسد سے پاک ہوگا، وہ لازماً قبول ہوگا۔ حج مبرور کی نشانی یہ بھی ہے کہ حج کرنے والا حج کے بعد پہلے سے بہترین جائے اور کبائر کا مرتکب نہ ہو۔ بعض نے حج مبرور سے مراد وہ حج لیا ہے جس میں ریا کاری نہ ہو۔
(2) جنت یعنی وہ اولین طور پر جنت میں جائے گا۔ گویا حج سے اس کے تمام پہلے گناہ معاف ہو جائیں گے۔
(3) کفارہ یعنی صغائر معاف ہو جائیں گے بشرطیکہ کبائر سے اجتناب کرے۔ بعض نے صغائر وکبائر دونوں مراد لیے ہیں کیونکہ صرف صغائر تو کبائر کے اجتناب سے بھی معاف ہو جاتے ہیں اور وضو سے بھی، نماز سے بھی، پھر حج کی کیا خصوصیت ہے؟
(4) حج کی فضیلت عمرے سے زیادہ ہے۔
(5) ایک سال میں کئی عمرے کیے جا سکتے ہیں لیکن حج سال میں ایک ہی دفعہ کیا جا سکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2623   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2888  
´حج اور عمرہ کی فضیلت۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک عمرے سے دوسرے عمرے تک جتنے گناہ ہوں ان سب کا کفارہ یہ عمرہ ہوتا ہے، اور حج مبرور (مقبول) کا بدلہ سوائے جنت کے کچھ اور نہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2888]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  حج مبرور سے مراد وہ حج ہے جس میں ہر قسم کی لڑائی جھگڑے اور گناہوں سے پر ہیز کی پوری کوشش کی جائے اس لیے اس لفظ کا ترجمہ مقبول حج بھی کیا جاتا ہے۔

(2)
عمرے سے گزشتہ گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔

(3)
احادیث میں بہت سی نیکیوں کے بارے میں مذکور ہے کہ ان سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔
لیکن اس کا دارومدار نیکیوں کو سنت کے مطابق ادا کرنے اور خلوص قلب پر ہے۔
علاوہ ازیں بعض اوقات نیکی میں ایسی کمی رہ جاتی ہے جس کی وجہ سے اس کے ثواب میں بہت کمی ہوجاتی ہے۔
ایسی نیکی اتنے گناہوں کی معافی کا باعث نہیں بن سکتی جتنے گناہ صحیح نیکی سے معاف ہوتے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2888   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 933  
´عمرہ کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک عمرے کے بعد دوسرا عمرہ درمیان کے تمام گناہ مٹا دیتا ہے ۱؎ اور حج مقبول ۲؎ کا بدلہ جنت ہی ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 933]
اردو حاشہ: 1؎:
مرادصغائر(چھوٹے گناہ) ہیں نہ کہ کبائر(بڑے گناہ)کیونکہ کبائربغیرتوبہ کے معاف نہیں ہوتے۔ 2؎:
حج مقبول وہ حج ہے جس میں کسی گناہ کی ملاوٹ نہ ہو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 933   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1032  
1032- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: مبرور حج، کا بدلہ صرف جنت ہے اور ایک عمرہ دوسرے عمرے تک کے درمیان گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے۔‏‏‏‏ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1032]
فائدہ:
اس حدیث میں دو مسئلے بیان ہوۓ ہیں:
حج مبرور:۔ حج مبرور سے مراد وہ حج ہے جس میں کوئی گناہ وغیرہ سرزد نہ ہو، اور ممکن ارکان وشروط کے ساتھ قرآن و حدیث کے مطابق ادا کیا گیا ہو۔ نیز عمرے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، کہ عمرہ بھی گناہوں کا کفارہ ہے۔
بطور تنبیہ عرض ہے کہ بعض لوگ حج کی استطاعت رکھتے ہیں لیکن وہ حج کی بجائے عمرے کرتے رہتے ہیں، یہ واضح غلطی ہے، جس پر حج کرنا فرض ہو وہ حج کرے اور جس پر عمرہ کرنا فرض ہو وہ عمرہ کر لے، زندگی میں حج ایک بار فرض ہوتا ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1031   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3289  
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک عمرہ کے بعد دوسرا عمرہ ان کے درمیان گناہوں کا کفارہ ہے، اور حج مبرور کی جزا جنت سے کم نہیں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3289]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
سال کے ہرحصہ میں عمرہ کے جواز پر جمہور کا اتفاق ہے،
البتہ امام ابویوسف قربانی اور ایام تشریق میں،
اور اما ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ عرفہ قربانی کے دن ایام تشریق میں عمرہ کرنے کو صحیح نہیں سمجھتے،
جمہور کے نزدیک جو شخص حج نہیں کررہا،
وہ ان دنوں میں عمرہ کرسکتا ہے۔
لیکن حج کرنے والا نہیں کرسکتا۔
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ۔
امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
اور ابوثور کے نزدیک عمرہ سنت ہے۔
اورحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سال میں ایک ہی مرتبہ عمرہ فرمایا ہے،
جمہور کے نزدیک سال میں عمرہ بار بار کیا جا سکتا ہے،
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے،
اگر ہوسکے تو ہرماہ عمرہ کرو،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ایک سے زائد عمروں کو مکروہ قرار دیا ہے۔
(زاد المعاد ج2ص 93 طبع جدید مکتبہ(مؤسۃالرسالہ)
حج مبرور:
۔
وہ حج جس میں کسی گناہ کا ارتکاب نہ کیا گیا ہو یا وہ حج جو ریاء اور سمع کے لیے نہ کیا گیا ہو محض اللہ کی رضا مندی اور خوشنودی کے لیے ہو،
یا وہ حج جس سے حاجی متاثر ہو اور حج کے بعد گناہوں سے احتراز کرے۔
اور بقول بعض جو حج مقبول ہو ظاہر ہے وہ حج مقبول ہو گا جو اخلاص نیت سے حج کے پورے آداب اور احکام کو ادا کرتے ہوئے گناہوں سے بچتے ہوئے کیا جائے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3289   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1773  
1773. حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک عمرہ دوسرے عمرے تک ان گناہوں کا کفارہ ہے جو ان کےدرمیان کیے گئے ہوں اور حج مبرور کی جزا تو جنت ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1773]
حدیث حاشیہ:
اللہ پاک نے قرآن مجید میں اور رسول کریم ﷺ نے اپنے کلام بلاغت نظام میں حج کے ساتھ عمرہ کا ذکر فرمایا ہے، جس سے عمرہ کا وجوب ثابت ہوا، یہی امام بخاری ؒ بتلانا چاہتے ہیں آپ نے عمرہ کا وجوب آیت اور حدیث ہر دو سے ثابت فرمایا۔
حج مبرور وہ حج ہے جس میں از ابتداءتا انتہاءنیکیاں ہی ہوں اور آداب حج کو پورے طور پرنبھایا جائے ایسا حج یقینا دخول جنت کا موجب ہے۔
اللهم ارزقناہ (آمین)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1773   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1773  
1773. حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک عمرہ دوسرے عمرے تک ان گناہوں کا کفارہ ہے جو ان کےدرمیان کیے گئے ہوں اور حج مبرور کی جزا تو جنت ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1773]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کا عنوان دو حصوں پر مشتمل تھا:
٭ عمرے کا وجوب۔
٭ عمرے کی فضیلت۔
پہلے دو آثار سے اس کا وجوب ثابت کیا اور اس مرفوع حدیث سے اس کی فضیلت بیان کی ہے، چنانچہ امام ترمذی ؒ نے اس حدیث پر عمرے کی فضیلت کا عنوان قائم کیا ہے۔
(2)
جمعہ کے متعلق ارشاد نبوی ہے کہ ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک ان گناہوں کا کفارہ ہے جو ان کے درمیان کیے گئے ہوں۔
(عمدةالقاري: 402/7)
اس کی فضیلت کے متعلق متعدد احادیث وارد ہیں جن میں سے ایک یہ ہے:
حج اور عمرہ مسلسل کیا کرو کیونکہ اس سے تنگ دستی اور گناہ اس طرح ختم ہو جاتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے، سونے اور چاندی کی میل کچیل کو ختم کر دیتی ہے۔
(سنن النسائي، مناسك الحج، حدیث: 2632)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1773