سنن نسائي
كتاب الزكاة
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
95. بَابُ : اسْتِعْمَالِ آلِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم عَلَى الصَّدَقَةِ
باب: آل رسول صلی الله علیہ وسلم کو صدقہ پر عامل بنانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2610
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادِ بْنِ الْأَسْوَدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ ابْنِ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ نَوْفَلٍ الْهَاشِمِيِّ، أَنَّ عَبْدَ الْمُطَّلِبِ بْنَ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أَبَاهُ رَبِيعَةَ بْنَ الْحَارِثِ، قَالَ: لِعَبْدِ الْمُطَّلِبِ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ الْحَارِثِ، وَالْفَضْلِ بْنِ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ: ائْتِيَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُولَا لَهُ اسْتَعْمِلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ عَلَى الصَّدَقَاتِ، فَأَتَى عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ وَنَحْنُ عَلَى تِلْكَ الْحَالِ، فَقَالَ لَهُمَا: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَسْتَعْمِلُ مِنْكُمْ أَحَدًا عَلَى الصَّدَقَةِ، قَالَ عَبْدُ الْمُطَّلِبِ: فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَالْفَضْلُ حَتَّى أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَنَا:" إِنَّ هَذِهِ الصَّدَقَةَ إِنَّمَا هِيَ أَوْسَاخُ النَّاسِ، وَإِنَّهَا لَا تَحِلُّ لِمُحَمَّدٍ وَلَا لِآلِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
عبدالمطلب بن ربیعہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ان کے والد ربیعہ بن حارث نے عبدالمطلب بن ربیعہ اور فضل بن عباس رضی اللہ عنہم سے کہا کہ تم دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ، اور آپ سے کہو کہ اللہ کے رسول! آپ ہمیں صدقہ پر عامل بنا دیں، ہم اسی حال میں تھے کہ علی رضی اللہ عنہ آ گئے تو انہوں نے ان دونوں سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم دونوں میں سے کسی کو بھی صدقہ پر عامل مقرر نہیں فرمائیں گے۔ عبدالمطلب کہتے ہیں: (ان کے ایسا کہنے کے باوجود بھی) میں اور فضل دونوں چلے یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، تو آپ نے ہم سے فرمایا: ”یہ صدقہ جو ہے یہ لوگوں کا میل ہے، یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے آل کے لیے جائز نہیں“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الزکاة51 (1072)، سنن ابی داود/الخراج والإمارة20 (2985)، (تحفة الأشراف: 9737)، مسند احمد 4/166 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
سنن نسائی کی حدیث نمبر 2610 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2610
اردو حاشہ:
(1) آل نبیﷺ صدقات جمع کرنے کی خدمت تو سر انجام دے سکتے ہیں مگر اس کام کی اجرت نہیں لے سکتے کیونکہ اجرت بھی تو زکاۃ و صدقات ہی کا حصہ ہے۔ حضرت عبدالمطلب اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ کا مقصد چونکہ اجرت ہی تھا، لہٰذا آپ نے انھیں مقرر نہ فرمایا۔
(2) صدقات جمع کرنے کی اجرت حقیقتاً صدقہ نہیں ہے، اس لیے اغنیاء بھی یہ خدمت سر انجام دے کر اجرت لے سکتے ہیں مگر آل محمدﷺ کی رفعت شان اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ ایسی چیز بھی نہ لیں جس میں صدقے کا شبہ بھی ہو اور اجرت صدقات میں صدقے کا شبہ تو ہے کیونکہ وہ صدقات کا حصہ ہے۔
(3) رفعت شان کے علاوہ آل محمدﷺ کے لیے صدقات کی حرمت کا سبب یہ بھی ہے کہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ دعوائے نبوت کا مقصد اپنے خاندان کے لیے مال جمع کرنا ہے۔ نعوذ باللہ
(4) زکاۃ و صدقات چونکہ مال کو پاک کرتے ہیں، جس طرح پانی جسم کو پاک کرتا ہے، لہذا زکاۃ وصدقات کی حیثیت اس پانی کی سی ہے جس کے ساتھ کسی چیز کو دھو کر صاف کیا گیا ہو، اس لیے اسے ”لوگوں کا میل کچیل“ کہا گیا۔ اختیاری حالت میں ماء مستعمل کو لینا کوئی پسند نہیں کرتا، اس لیے زکاۃ وصدقات بھی مجبور ومضطر لوگوں ہی کے لیے جائز ہیں۔
(5) فرض صدقات تو نبیﷺ پر اور آپ کی آل پر قطعاً حرام ہیں، البتہ نفل صدقات کے بارے میں جمہور اہل علم کا خیال ہے کہ وہ آل محمد کے لیے جائز ہیں، البتہ رسول اللہﷺ کی مقدس ہستی کے لیے نفل صدقات بھی حرام ہیں کہ آپ کی شان انتہائی بلند ہے۔
(6) آل نبیﷺ سے مراد امام ابوحنیفہ اور امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک صرف بنو ہاشم ہیں اور امام شافعی وغیرہ نے بنو ہاشم اور بنو مطلب دونوں خاندان مراد لیے ہیں۔ بنو ہاشم سے مراد حضرت علی، عقیل، جعفر، عباس اور حارث رضی اللہ عنہم کی نسل ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2610