Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب الزكاة
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
90. بَابُ : إِذَا لَمْ يَكُنْ لَهُ دَرَاهِمُ وَكَانَ لَهُ عِدْلُهَا
باب: جس شخص کے پاس درہم نہ ہو اس کے برابر سامان ہو۔
حدیث نمبر: 2597
قَالَ: الْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ، عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: أَنْبَأَنَا مَالِكٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي أَسَدٍ، قَالَ: نَزَلْتُ أَنَا وَأَهْلِي بِبَقْيعِ الغَرْقَدِ، فَقَالَتْ لِي أَهْلِي: اذْهَبْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَلْهُ لَنَا شَيْئًا نَأْكُلُهُ، فَذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدْتُ عِنْدَهُ رَجُلًا يَسْأَلُهُ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَا أَجِدُ مَا أُعْطِيكَ"، فَوَلَّى الرَّجُلُ عَنْهُ، وَهُوَ مُغْضَبٌ، وَهُوَ يَقُولُ لَعَمْرِي إِنَّكَ لَتُعْطِي مَنْ شِئْتَ , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُ لَيَغْضَبُ عَلَيَّ أَنْ لَا أَجِدَ مَا أُعْطِيهِ، مَنْ سَأَلَ مِنْكُمْ وَلَهُ أُوقِيَّةٌ أَوْ عِدْلُهَا، فَقَدْ سَأَلَ إِلْحَافًا" , قَالَ الْأَسَدِيُّ: فَقُلْتُ: لَلَقْحَةٌ لَنَا خَيْرٌ مِنْ أُوقِيَّةٍ وَالْأُوقِيَّةُ أَرْبَعُونَ دِرْهَمًا، فَرَجَعْتُ وَلَمْ أَسْأَلْهُ، فَقَدِمَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ شَعِيرٌ وَزَبِيبٌ، فَقَسَّمَ لَنَا مِنْهُ حَتَّى أَغْنَانَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ.
قبیلہ بنی اسد کے ایک شخص کہتے ہیں کہ میں اور میری بیوی دونوں بقیع الغرقد میں اترے، میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر ہمارے لیے کھانے کی کوئی چیز مانگ کر لائیے، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا۔ مجھے آپ کے پاس ایک شخص ملا جو آپ سے مانگ رہا تھا، اور آپ اس سے فرما رہے تھے: میرے پاس (اس وقت) تمہیں دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ وہ شخص آپ کے پاس سے پیٹھ پھیر کر غصے کی حالت میں یہ کہتا ہوا چلا: قسم ہے میری زندگی کی! آپ تو اسی کو دیتے ہیں جسے چاہتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (خواہ مخواہ) مجھ پر اس بات پر غصہ ہو رہا ہے کہ میرے پاس اسے دینے کے لیے کچھ نہیں ہے، (ہوتا تو اسے دیتا ویسے تم لوگ جان لو کہ) تم میں سے جس کے پاس چالیس درہم ہو یا چالیس درہم کی قیمت کے برابر کا مال ہو، اور اس نے مانگا تو اس نے چمٹ کر مانگا، اسدی (جو اس حدیث کے راوی ہیں) کہتے ہیں: میں نے (دل میں) کہا: ہماری دو دھاری اونٹنی ایک اوقیہ سے تو بہتر ہی ہے، اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے، چنانچہ میں آپ سے بغیر کچھ مانگے لوٹ آیا۔ پھر آپ کے پاس جَو اور کشمش آئے، تو آپ نے ہم کو بھی اس میں سے حصہ دیا، یہاں تک کہ اللہ عزوجل نے ہم کو مالدار کر دیا۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الزکاة23 (1627)، (تحفة الأشراف: 15640)، مسند احمد (4/36 و5/430) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

سنن نسائی کی حدیث نمبر 2597 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2597  
اردو حاشہ:
(1) جس کو آپ کی مرضی ہو۔ یعنی آپ استحقاق کی بنا پر نہیں، اپنی ذاتی پسند کی بنا پر دیتے ہیں۔ ممکن ہے وہ شخص منافق ہو یا شاید جذبات کی رو میں بہہ کر کہہ بیٹھا ہو۔
(2) بقیع الغرقد مدینہ منورہ سے متصل وسیع خالی میدان ہے جہاں قبرستان بھی ہے۔ بیرونی قافلے وہاں اترتے تھے۔ اس حدیث کے راوی اسدی بھی باہر ہی سے آئے تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2597   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1627  
´زکاۃ کسے دی جائے؟ اور غنی (مالداری) کسے کہتے ہیں؟`
بنی اسد کے ایک صاحب کہتے ہیں کہ میں اور میری بیوی بقیع غرقد میں جا کر اترے، میری بیوی نے مجھ سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ اور ہمارے لیے کچھ مانگ کر لاؤ جو ہم کھائیں، پھر وہ لوگ اپنی محتاجی کا ذکر کرنے لگے، چنانچہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو مجھے آپ کے پاس ایک شخص ملا، وہ آپ سے مانگ رہا تھا اور آپ اس سے کہہ رہے تھے: میرے پاس کچھ نہیں ہے جو میں تجھے دوں، آخر وہ ناراض ہو کر یہ کہتے ہوئے چلا گیا کہ میری عمر کی قسم، تم جسے چاہتے ہو دیتے ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ میرے اوپر اس لیے غصہ ہو رہا ہے کیونکہ اسے دینے کے لیے میرے پاس کچھ نہیں ہے، تم میں سے جو سوال کرے اور اس کے پاس ایک اوقیہ (چالیس درہم) یا اس کے برابر مالیت ہو تو وہ الحاح کے ساتھ سوال کرنے کا مرتکب ہوتا ہے ۱؎، اسدی کہتے ہیں: میں نے (اپنے جی میں) کہا: ہماری اونٹنی تو اوقیہ سے بہتر ہے، اوقیہ تو چالیس ہی درہم کا ہوتا ہے، وہ کہتے ہیں: چنانچہ میں لوٹ آیا اور آپ سے کچھ بھی نہیں مانگا، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو اور منقی آیا، آپ نے اس میں سے ہمیں بھی حصہ دیا، «أو كما قال» یہاں تک کہ اللہ نے ہمیں غنی کر دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ثوری نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے جیسے مالک نے کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1627]
1627. اردو حاشیہ: امام ابو عبید قاسم بن سلام اس حدیث کی روشنی میں غنی اور فقیر میں فرق کرتے ہیں۔کے جس کے پاس چالیس درہم یا اس کے مساوی مال موجود ہو وہ فقیر نہیں ہے اور اسے صدقہ دیناجائز نہیں بلاشبہ تقوے کا اعلیٰ معیار یہی ہے۔اگر احوال وظروف کے پیش نظر اس مقدار میں کمی بیشی ہوسکتی ہے۔مثلا ً قرآن کریم نے قصہ موسیٰ ؑ وخضرؑ میں کشتی والوں کو مساکین سے تعبیر فرمایا ہے۔(سورہ کہف) لہذا جس آدمی کی آمدنی اس کے ضروری اخراجات کا ساتھ نہ دے رہی ہو۔ اسے اللہ سے ڈرتے ہوئے خود ہی سوچنا چاہیے۔ کہ واقعی وہ مانگنے کا حق رکھتاہے یا نہیں۔
➋ یہ واقعہ دلیل ہے کہ بنو اسد کا یہ شخص فطری سلامتی کے ساتھ ساتھ برکات ایمان سے بہرہ ور تھا۔اورصحبت رسول ﷺنے اس کا مزید تزکیہ کردیا تھا۔کہ باوجود سخت حاجت مند ہونے کے نبی کریمﷺ کے چند جملے سن کر محتاط ہوگیا اور سوال نہ کیا۔بلاشبہ انہی فضائل کی بناء پر یہ حضرات صحبت رسول ﷺ کے لائق تھے۔اور ہمارے سلف صالح کہلاتے ہیں۔جن کی قرآن مجید نے جا بجا مدح کی ہے۔
➌ عمر اور زندگی کی قسم کھانا جائز نہیں مذکورہ بالاشخص جس نے یہ قسم کھائی تھی نیا نیا مسلمان ہوا تھااور تعلیمات اسلام سے اچھی طرح واقف نہ تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1627