صحيح البخاري
كِتَاب الْخُصُومَاتِ
کتاب: نالشوں اور جھگڑوں کے بیان میں
10. بَابُ التَّقَاضِي:
باب: تقاضا کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2425
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ، حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرِ بْنِ حَازِمٍ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ خَبَّابٍ، قَالَ:"كُنْتُ قَيْنًا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَكَانَ لِي عَلَى الْعَاصِ بْنِ وَائِلٍ دَرَاهِمُ، فَأَتَيْتُهُ أَتَقَاضَاهُ، فَقَالَ: لَا أَقْضِيكَ حَتَّى تَكْفُرَ بِمُحَمَّدٍ، فَقُلْتُ: لَا، وَاللَّهِ لَا أَكْفُرُ بِمُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يُمِيتَكَ اللَّهُ، ثُمَّ يَبْعَثَكَ، قَالَ: فَدَعْنِي حَتَّى أَمُوتَ، ثُمَّ أُبْعَثَ، فَأُوتَى مَالًا وَوَلَدًا، ثُمَّ أَقْضِيَكَ، فَنَزَلَتْ أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِآيَاتِنَا وَقَالَ لأُوتَيَنَّ مَالا وَوَلَدًا سورة مريم آية 77 الْآيَةَ".
ہم سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے وہب بن جریر بن حازم نے بیان کیا، انہیں شعبہ نے خبر دی، انہیں اعمش نے، انہیں ابوالضحیٰ نے، انہیں مسروق نے، اور ان سے خباب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں جاہلیت کے زمانہ میں لوہے کا کام کرتا تھا اور عاص بن وائل (کافر) پر میرے کچھ روپے قرض تھے۔ میں اس کے پاس تقاضا کرنے گیا تو اس نے مجھ سے کہا کہ جب تک تو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا انکار نہیں کرے گا میں تیرا قرض ادا نہیں کروں گا۔ میں نے کہا ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کبھی نہیں کر سکتا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہیں مارے اور پھر تم کو اٹھائے۔ وہ کہنے لگا کہ پھر مجھ سے بھی تقاضا نہ کر۔ میں جب مر کے دوبارہ زندہ ہوں گا تو مجھے (دوسری زندگی میں) مال اور اولاد دی جائے گی تو تمہارا قرض بھی ادا کر دوں گا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی «أفرأيت الذي كفر بآياتنا وقال لأوتين مالا وولدا» ”تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے ہماری آیتوں کا انکار کیا اور کہا کہ مجھے مال اور اولاد ضرور دی جائے گی۔“ آخر آیت تک۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2425 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2425
حدیث حاشیہ:
حضرت خباب ؓ، عاص بن وائل غیر مسلم کے ہاں اپنی مزدوری وصول کرنے کا تقاضا کرنے گئے۔
اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔
عاص نے جو جواب دیا وہ انتہائی نامعقول جواب تھا۔
جس پر قرآن مجید میں نوٹس لیا گیا۔
اس حدیث سے مجتہد مطلق امام بخاری ؒ نے کئی ایک مسائل کا استنباط فرمایا ہے۔
ا س لیے متعدد مقامات پر یہ حدیث نقل کی گئی ہے جو حضرت امام بخاری ؒ کے تفقہ و قوت اجتہاد کی بین دلیل ہے۔
ہزار افسوس ان اہل جبہ و دستار پر جو حضرت امام بخاری ؒ جیسے فقیہ امت کی شان میں تنقیص کرتے اورآپ کی فہم و درایت سے منکر ہو کر خود اپنی نافہمی کا ثبوت دیتے ہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ ان ابواب کے خاتمہ پر فرماتے ہیں:
اشْتَمَلَ كِتَابُ الِاسْتِقْرَاضِ وَمَا مَعَهُ مِنَ الْحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ وَمَا اتَّصَلَ بِهِ مِنَ الْإِشْخَاصِ وَالْمُلَازَمَةِ عَلَى خَمْسِينَ حَدِيثًا الْمُعَلَّقُ مِنْهَا سِتَّةٌ الْمُكَرَّرُ مِنْهَا فِيهِ وَفِيمَا مَضَى ثَمَانِيَةٌ وَثَلَاثُونَ حَدِيثًا وَالْبَقِيَّةُ خَالِصَةٌ وَافَقَهُ مُسْلِمٌ عَلَى جَمِيعِهَا سِوَى حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ مَنْ أَخَذَ أَمْوَالَ النَّاسِ يُرِيدُ إِتْلَافَهَا وَحَدِيثِ مَا أُحِبُّ أَنَّ لِي أُحُدًا ذَهَبا وَحَدِيث لي الْوَاجِد وَحَدِيث بن مَسْعُودٍ فِي الِاخْتِلَافِ فِي الْقِرَاءَةِ وَفِيهِ مِنَ الْآثَارِ عَنِ الصَّحَابَةِ وَمَنْ بَعْدَهُمْ اثْنَا عَشَرَ أثرا وَالله أعلم (فتح الباري)
یعنی یہ کتاب الاستقراض و الملازمہ پچاس احادیث پر مشتمل ہے۔
جن میں احادیث معلقہ صرف چھ ہیں۔
مکرر احادیث اڑتیس ہیں اور باقی خاصل ہیں۔
امام مسلم نے بجز چند احادیث کے جویہاں مذکور ہیں سب میں حضرت امام بخاری ؒ سے موافقت کی ہے اور ان ابواب میں صحابہ و تابعین کے بارہ آثار مذکور ہوئے ہیں۔
سند میں مذکورہ بزرگ حضرت مسروق ابن الاجداع ہیں۔
جو ہمدانی اور کوفی ہیں۔
آنحضرت ﷺ کی وفات سے قبل مشرف بہ اسلام ہوئے۔
صحابہ کے صدر اول جیسے ابوبکر، عمر، عثمان، علی ؓ کا زمانہ پایا۔
سرکردہ علماءاور فقہاءمیں سے تھے۔
مرہ بن شرحبیل نے فرمایا کہ کسی ہمدانی عورت نے مسروق جیسا نیک سپوت نہیں جنا۔
شعبی نے فرمایا اگر کسی گھرانے کے لوگ جنت کے لیے پیدا کئے گئے ہیں تو یہ ہیں اسود، علقمہ اور مسروق محمد بن منتشر نے فرمایا کہ خالد بن عبداللہ بصرہ کے عامل (گورنر)
تھے۔
انہوں نے بطور ہدیہ تیس ہزار روپوں کی رقم حضرت مسروق کی خدمت میں پیش کی۔
یہ ان کے فقر کا زمانہ تھا۔
پھر بھی انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
کہا جاتا ہے کہ بچپن میں ان کو چرا لیا گیا تھا، پھر مل گئے تو ان کانام مسروق ہو گیا۔
ان سے بہت سے لوگوں نے روایت کی ہے۔
62ھ میں بمقام کوفہ وفات پائی۔
رحمه اللہ رحمة واسعة شہر کوفہ کی بنیاد حضرت سعد بن ابی وقاص ؒ نے رکھی تھی۔
اس وقت آپ نے وہاں فرمایا تھا:
تکوفوا في هذا الموضع یہاں پر جمع ہوجاؤ۔
اسی روز اس شہر کا نام کوفہ پڑ گیا۔
بعض نے اس کا کا پرانا نام کوفان بتایا ہے۔
یہ شہر عرا ق میں واقع ہے۔
عرصہ تک علوم و فنون کا مرکز رہا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2425
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2425
حدیث حاشیہ:
اس سے پہلے امام بخاری ؒ نے قرض کے متعلق ایک عنوان ان الفاظ میں قائم کیا تھا:
(باب حسن التقاضي)
”نرمی سے تقاضا کرنا“ اور اس مقام پر قرض کا مطالبہ کرنے کا عنوان قائم کیا ہے۔
عام طور پر یہ محاورہ ہے:
(القرض مقراض المحبة)
قرض، محبت کی قینچی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ جس سے تعلقات خراب کرنا ہوں اسے قرض دے دیا جائے یا اس سے لے لیا جائے۔
شاید کوئی ان باتوں سے یہ تاثر لے کہ قرض دے کر واپسی کا مطالبہ کرنا اخلاق و مروت کے منافی ہے۔
امام بخاری ؒ نے ثابت کیا ہے کہ قرض خواہ کا حق ہے کہ قرض دار سے اس کی واپسی کا مطالبہ کرے، بلکہ اس کے پاس جا کر اسے احساس دلانے میں بھی کوئی حرج نہیں، چنانچہ حضرت خباب ؓ اپنی مزدوری کا مطالبہ کرنے کے لیے عاص بن وائل غیر مسلم کے ہاں تشریف لے گئے۔
یہ مزدوری گویا وائل کے ذمے قرض تھی۔
اس نے جو کردار ادا کیا وہ انتہائی نامعقول اور تکلیف دہ تھا، اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس کا نوٹس لیا۔
الغرض قرض کی واپسی کا مطالبہ کرنا جائز اور درست ہے اور یہ اخلاقی روا داری کے منافی نہیں۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2425