Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب الزكاة
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
70. بَابُ : رَدِّ السَّائِلِ
باب: مانگنے والے کو (کچھ دے کر) لوٹانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2566
أَخْبَرَنِي هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَالِكٌ. ح وَأَنْبَأَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنِ ابْنِ بُجَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ جَدِّتِهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" رُدُّوا السَّائِلَ وَلَوْ بِظِلْفٍ" , فِي حَدِيثِ هَارُونَ مُحْرَقٍ.
ابن بجید انصاری اپنی دادی سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مانگنے والے کو کچھ دے کر لوٹایا کرو اگرچہ کھر ہی سہی۔ ہارون کی روایت میں «محرق» (جلی ہوئی) کا اضافہ ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الزکاة33 (1667)، سنن الترمذی/الزکاة29 (1665)، (تحفة الأشراف: 18305)، موطا امام مالک/صفة النبی5 (8)، مسند احمد 4/70، 5/381، 6/382، 383، 435) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

سنن نسائی کی حدیث نمبر 2566 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2566  
اردو حاشہ:
مقصد مبالغہ ہے، نیز یہ حکم تب ہے جب سائل حق دار ہو اور مسئول کے پاس گنجائش ہو، ورنہ پیشہ ور گداگروں کو (بشرطیکہ معلوم ہو) دینا تو گناہ ہی کے زمرے میں آسکتا ہے کیونکہ اس طرح گداگری کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے جبکہ اسلام نے اس کی سختی کے ساتھ ممانعت فرمائی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2566   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1667  
´سائل کے حق کا بیان۔`
ام بجید رضی اللہ عنہا یہ ان لوگوں میں سے تھیں جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی، وہ کہتی ہیں میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے دروازے پر مسکین کھڑا ہوتا ہے لیکن میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہوتی جو میں اسے دوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اگر تمہیں کوئی ایسی چیز نہ ملے جو تم اسے دے سکو سوائے ایک جلے ہوئے کھر کے تو وہی اس کے ہاتھ میں دے دو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1667]
1667. اردو حاشیہ: مطلب یہ ہے کہ سائل کو کچھ نہ کچھ ضرور دو خالی ہاتھ نہ لوٹائو مگر پیشہ ور عادی سائل کا یہ حکم نہیں۔پیشہ ور گداگروں کو دینا پیشہ گداگری کی حوصلہ افزائی ہے۔جو جرم ہے تاہم جس کا پیشہ ور ہونا یقینی نہ ہو تو اس کی حسب استطاعت امداد کرنی چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1667   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2575  
´مسکین کی تفسیر۔`
ام بجید رضی الله عنہا (جو ان عورتوں میں سے ہیں جن ہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی) کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: (کبھی ایسا ہوتا ہے) کہ مسکین میرے دروازے پر آ کھڑا ہوتا ہے، اور میں اسے دینے کے لیے کوئی چیز موجود نہیں پاتی؟ آپ نے فرمایا: اگر تم اسے دینے کے لیے صرف جلی ہوئی کھر ہی پاؤ تو اسے وہی دے دو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2575]
اردو حاشہ:
سائل دروازے سے محروم نہیں جانا چاہیے۔ استحقاق اور عدم استحقاق کو تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے الا یہ کہ اس کا پیشہ ور ہونا معلوم ہو اور وہ حقیقتاً محتاج نہ ہو۔ (نیز دیکھیے، حدیث: 2566)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2575   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 665  
´مانگنے والے کے حق کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن بجید کی دادی ام بجید حواء رضی الله عنہا (جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کرنے والیوں میں سے ہیں) سے روایت ہے کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مسکین میرے دروازے پر کھڑا ہوتا ہے اور اسے دینے کے لیے میرے پاس کوئی چیز نہیں ہوتی۔ (تو میں کیا کروں؟) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: اگر اسے دینے کے لیے تمہیں کوئی جلی ہوئی کھر ہی ملے تو وہی اس کے ہاتھ میں دے دو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 665]
اردو حاشہ:
1؎:
اس میں مبالغہ ہے،
مطلب یہ ہے کہ سائل کو یوں ہی مت لوٹاؤ جو بھی میسر ہو اسے دیدو۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 665