أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ ابْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَائِشَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِذَا تَصَدَّقَتِ الْمَرْأَةُ مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا كَانَ لَهَا أَجْرٌ، وَلِلزَّوْجِ مِثْلُ ذَلِكَ، وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذَلِكَ، وَلَا يَنْقُصُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِنْ أَجْرِ صَاحِبِهِ شَيْئًا، لِلزَّوْجِ بِمَا كَسَبَ وَلَهَا بِمَا أَنْفَقَتْ".
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2540
اردو حاشہ:
(1) ”کمی نہیں کرتا۔“ کیونکہ ہر کسی کو اپنے حصے کا ثواب ملتا ہے، اس لیے ضروری نہیں کہ سب کا ثواب برابر ہو۔ ثواب تو خلوص، محنت ومشقت اور حسن نیت کی بنیاد پر ملتا ہے اور اس میں لوگ مختلف ہوتے ہیں۔
(2) عورت اپنے خاوند کے گھر سے صدقہ کر سکتی ہے بشرطیکہ خاوند کی طرف سے صراحتاً یا عرفاً اجازت ہو۔ عرفاً اجازت سے مراد رضا مندی ہے۔ اس کے لیے علم ہونا کوئی ضروری نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2540
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 514
´نفلی صدقے کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب عورت اپنے گھر کے مال سے فضول خرچی کئے بغیر خرچ کرے تو اسے خرچ کرنے کے بدلے میں اجر و ثواب ملے گا اور اس کے شوہر کیلئے کمانے کا ثواب اور اسی طرح خزانچی کیلئے بھی اجر ہے ہر ایک کا ثواب دوسرے کے ثواب میں سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا۔“ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 514]
لغوی تشریح 514:
غَیرَ مُفسِدَۃٍ یعنی فضول خرچی، اسراف وتبذیر کے بغیر، نیز یہ خرچ کرنا خاوند اور اس کے زیرِ کفالت افراد کے اخراجات پر اثر انداز نہ ہو۔ بیوی کو خاوند کے مال سے خرچ کرنے کی اجازت کو اس پر محمول کیا جائے گا کہ شوہر اپنی بیوی کو صریح طور پر اجازت دے دے یا اشارتًا جیسا کہ معاشرے میں یہ چیز معروف و معلوم ہے کہ خاوند کی اجازت کے بغیر معمولی چیزوں کو خیرات میں دے دینا قابلِ مؤاخذہ تصور نہیں کیا جاتا۔ ایسا سمجھاجاتا ہے کہ گویا اس کی بیوی کو اجازت دے دی گئی ہے۔
فوائد و مسائل 514:
➊ عورت کو خاوند کی اجازت کے بغیر اتنا صدقہ و خیرات نہیں کرنا چاہیے کہ خاوند کے گھر کا معاشی نظام متأثر ہو کر برباد ہو جائے اور شوہر کے لیے معاشی مشکلات اور دشواریاں کھڑی ہو جائیں۔
➋ معمولی صدقہ، مثلًا: سائل کو روٹی دے دی یا تھوڑا بہت آٹا دے دیا یا پڑوسی کو تھوڑا بہت نمک مرچ دے دی وغیرہ، اس صدقے میں بیوی کے ساتھ ساتھ اس کا شوہر کما کر لانے کی وجہ سے، خزانچی اس کی حفاظت کرنے کی وجہ سے اور خادم خدمت گاری کی بنا پر اجر و ثواب کے مستحق ہیں۔ کسی کے اجر میں سے کمی نہیں کی جائے گی، ہر ایک کو اس کا پورا پورا اجر ملے گا۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 514
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1685
´عورت کا اپنے شوہر کے مال سے صدقہ دینے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب عورت اپنے شوہر کے گھر سے کسی فساد کی نیت کے بغیر خرچ کرے تو اسے اس کا ثواب ملے گا اور مال کمانے کا ثواب اس کے شوہر کو اور خازن کو بھی اسی کے مثل ثواب ملے گا اور ان میں سے کوئی کسی کے ثواب کو کم نہیں کرے گا۔“ [سنن ابي داود/كتاب الزكاة /حدیث: 1685]
1685. اردو حاشیہ: شوہر کی صریح اجازت نہ بھی ہوتو اس کے مزاج زوق عادت اور عرف سے سمجھی جاسکتی ہے۔ اور اس کے برعکس جہاں شوہر دینا چاہتا ہو مگر بیوی بخیل ہو۔۔۔اس کا حال خود سمجھا جاسکتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1685
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2294
´شوہر کے مال میں عورت کے حق کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب عورت اپنے شوہر کے گھر میں سے خرچ کرے (کی روایت میں ”خرچ کرے“ کے بجائے ”جب عورت کھلائے“ ہے) اور اس کی نیت مال برباد کرنے کی نہ ہو تو اس کے لیے اجر ہو گا، اور شوہر کو بھی اس کی کمائی کی وجہ سے اتنا ہی اجر ملے گا، اور عورت کو خرچ کرنے کی وجہ سے، اور خازن کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا بغیر اس کے کہ ان کے اجر میں کچھ کمی ہو“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2294]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
گھر میں کما کر لانا مرد کا فرض ہے۔
(2)
اگرچہ کمائی مرد کی ہوتی ہے تاہم عورت کو خرچ کرنے کا پورا اختیار حاصل ہے۔
(3)
عورت کو خرچ کرتے وقت یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ مال فضول ضائع نہ کیا جائے اور ناجائز کاموں میں خرچ نہ کیا جائے، اور وہاں خرچ نہ کیا جائے۔
جہاں خاوند پسند نہ کرتا ہو کیونکہ اس سے گھر کے مالی حالات میں بھی بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور آپس کے تعلقات بھی خراب ہو جاتے ہیں۔
(4)
خزانچی سے مراد وہ شخص ہے جو مالک کی اجازت سے گھر کی ضروریات کے لیے خرچ کرتا ہے، خواہ وہ ملازم ہو یا گھر کا کوئی فرد، مثلاً:
چھوٹا بھائی یا بیٹا وغیرہ۔
(5)
خازن کو یہ ثواب اس وقت ملے گا جب وہ خوشی سے خرچ کرے، اگر وہ صرف حکم کی تعمیل کے طور پر کسی مستحق کو دیتا ہے لیکن دل میں ناراضی محسوس کرتا ہے کہ میرا مالک یہاں کیوں خرچ کرتا ہے تو اسے ثواب نہیں ملے گا کیونکہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2294
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:278
فائدہ:
اس حدیث سے انفاق فی سبیل اللہ کی فضیات ثابت ہوتی ہے۔ اپنے خاوند کی ملکیت سے جب کوئی عورت اس کی اجازت کے بغیر صدقہ دیتی ہے، تو تین شخصوں کو برابر ثواب ملتا ہے: خاوند جس نے پیے کمائے، بیوی جس نے خرچ کیے اور خزانچی جس نے رقم جمع کی اور اس کی حفاظت کی۔ نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ بیوی اپنے خاوند کے گھر سے مناسب مقدار میں چیز صدقہ کر سکتی ہے۔ بیوی کو اپنے خاوند کی طبیعت کا علم ہوتا ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ کثرت صدقہ کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان جھگڑا ہو جائے، اس کو حدیث میں ”غیر مفسدة“ (بغیر فساد کے) تعبیر کیا گیا ہے۔ لیکن اگر بیوی اپنی الگ جائداد کی مالک ہوتو اس سے جتنا مرضی خرچ کر سکتی ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 278
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1437
1437. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”جب بیوی اپنے خاوند کی اشیائے خوردونوش سےصدقہ کرے بشرط یہ کہ گھر تباہ کرنے کی نیت نہ ہوتو اسے صدقہ کرنے کاثواب اوراس کے شوہر کو کمائی کرنے کا اجر ملے گا اور خازن کو بھی اس طرح ثواب ملے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1437]
حدیث حاشیہ:
یعنی بیوی کی خاوند کے مال کو بیکار تباہ کرنے کی نیت نہ ہوتو اس کو بھی ثواب ملے گا۔
خادم کے لیے بھی یہی حکم ہے۔
مگر بیوی اور خدمتگار میں فرق ہے۔
بیوی بغیر خاوند کی اجازت کے اس کے مال میں سے خیرات کرسکتی ہے، لیکن خدمت گار ایسا نہیں کرسکتا۔
اکثر علماء کے نزدیک بیوی کو بھی اس وقت تک خاوند کے مال سے خیرات درست نہیں جب تک اجمالاً یا تفصیلاً اس نے اجازت نہ دی ہو اور امام بخاری کے نزدیک بھی یہی مختار ہے۔
بعضوں نے کہا یہ عرف اور دستور پر موقوف ہے، یعنی بیوی پکا ہوا کھانا وغیرہ ایسی تھوڑی چیزیں جن کے دینے سے کوئی ناراض نہیں ہوتا‘ خیرات کرسکتی ہے گو خاوند کی اجازت نہ ملے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1437
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1440
1440. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”جب عورت اپنے شوہر کے گھر سے کھانا کھلائے جبکہ وہ گھر کی تباہی کا ارادہ نہ رکھتی ہو تو اسے اجر ملے گا، اس کے شوہر کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا اور خازن کو بھی ثواب ملے گا، مرد کی کمائی کرنے کا اور عورت کو خرچ کرنے کی وجہ سے اجر دیاجائے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1440]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری نے اس حدیث کو تین طریقوں سے بیان کیا اور یہ تکرار نہیں ہے، کیونکہ ہر ایک باب کے الفاظ جدا ہیں۔
کسی میں إذا تصدقت المرأة ہے کہ کسی میں إذا أطعمت المرأة ہے کسی میں من بیت زوجها ہے کسی میں من طعام بیتها ہے اور ظاہر حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ تینوں کو برابر ابرابر ثواب ملے گا۔
دوسری روایت میں ہے کہ عورت کو مرد کا آدھا ثواب ملے گا۔
قسطلانی نے کہا داروغہ کو بھی ثواب ملے گا۔
مگر مالک کی طرح اس کو دوگنا ثواب نہ ہوگا۔
(وحیدی)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1440
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1441
1441. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا:”جب عورت اپنے گھر کی اشیائے خوردونوش سے خرچ کرے جبکہ وہ گھر کی تباہی کا ارادہ نہ رکھتی ہوتو اسے اجر ملے گا، اس کے شوہر کو کمائی کرنے کا اجر دیا جائے گا اور خزانچی کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1441]
حدیث حاشیہ:
عورت کا خرچ کرنا اس شرط کے ساتھ ہے کہ اس کی نیت گھر برباد کرنے کی نہ ہو۔
بعض دفعہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ خاوند کی اجازت حاصل کرے۔
مگر معمولی کھانے پینے کی چیزوں میں ہر وقت اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔
ہاں خازن یا خادم کے لیے بغیر اجازت کوئی پیسہ اس طرح خرچ کردینا جائز نہیں ہے۔
جب بیوی اور خادم بایں طور خرچ کریں گے تو اصل مالک یعنی خاوند کے ساتھ وہ بھی ثواب میں شریک ہوں گے۔
اگرچہ ان کے ثواب کی حیثیت الگ الگ ہوگی۔
حدیث کامقصد بھی سب کے ثواب کو برابر قرار دینا نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1441
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1425
1425. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”جب کوئی عورت اپنے گھر کی اشیائے خور و نوش سے خیرات کرے اور اس کی نیت گھر کواجاڑنے کی نہ ہوتو اس کو خیرات کرنے کا ثواب ہوگا، اسکے شوہر کو کمائی کرنے کااجر ملے گا اورخزانچی کا بھی یہی حکم ہے۔ ان میں سے کوئی بھی دوسرے کے ثواب میں کمی کا باعث نہیں ہوگا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1425]
حدیث حاشیہ:
مطلب ظاہر ہے کہ مالک کے مال کی حفاظت کرنے والے اور اس کے حکم کے مطابق اسی میں سے صدقہ خیرات نکالنے والے ملازم، خادم، خزانچی سب ہی اپنی اپنی حیثیت کے مطابق ثواب کے مستحق ہوں گے۔
حتیٰ کہ بیوی بھی جو شوہر کی اجازت سے اس کے مال سے صدقہ خیرات کرے، وہ بھی ثواب کی مستحق ہوگی۔
اس میں ایک طرح سے خرچ کرنے کی ترغیب ہے اور دیانت وامانت کی تعلیم وتلقین ہے۔
آیت شریفہ:
لَن تَنَالُوا البِرَّ کا ایک مفہوم یہ بھی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1425
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1425
1425. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:نبی کریم ﷺ نے فرمایا:”جب کوئی عورت اپنے گھر کی اشیائے خور و نوش سے خیرات کرے اور اس کی نیت گھر کواجاڑنے کی نہ ہوتو اس کو خیرات کرنے کا ثواب ہوگا، اسکے شوہر کو کمائی کرنے کااجر ملے گا اورخزانچی کا بھی یہی حکم ہے۔ ان میں سے کوئی بھی دوسرے کے ثواب میں کمی کا باعث نہیں ہوگا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1425]
حدیث حاشیہ:
(1)
اشیائے خورد و نوش سے ایسی چیزیں مراد ہیں جو دیر تک رکھنے سے خراب ہونے کا اندیشہ ہو یا ان کے علاوہ ایسی خیرات جو خاوند کو ناگوار نہ گزرے اور نہ اسے زیادہ نقصان ہی پہنچنے کا خطرہ ہو، کیونکہ حدیث میں غیر مفسدہ کی شرط ہے، یعنی اصلاح کی نیت ہو، گھر کو بے آباد کرنا اور اجاڑنا مقصود نہ ہو، نیز گھر کی اصلاح بیوی اور میاں کے باہمی تعاون ہی سے ہو سکتی ہے۔
خازن کا بھی یہی حکم ہے، کیونکہ مال اسی کے قبضے میں ہوتا ہے۔
افساد اور اسراف سے دونوں کو اجتناب کرنا چاہیے۔
(2)
حدیث میں خادم کا لفظ نہیں ہے اور عنوان میں خدمت گزار کا ذکر ہے۔
اس کی تطبیق یوں ہے کہ امام بخاری ؒ نے خازن اور بیوی پر خدمت گزار کو قیاس کیا ہے، کیونکہ خدمت گزاری ان سب میں علت مشترکہ ہے۔
الغرض مالک مال، خزانچی اس کی حفاظت اور بیوی صحیح مصرف میں خرچ کرنے اور صدقہ و خیرات نکالنے کی وجہ سے اللہ کے ہاں اجروثواب کے حقدار ہوں گے۔
اسی طرح خرچ کرنے کی ترغیب اور امانت و دیانت کی تعلیم و تلقین بھی ہے۔
(3)
ابن رشید نے کہا ہے کہ امام بخاری نے اس عنوان کے ذریعے سے تنبیہ کی ہے کہ خازن، خادم اور بیوی، حقیقی مالک کے امین ہیں۔
انہیں مالک کی اجازت ہی سے اس کے مال میں تصرف کرنا چاہیے، وہ اجازت عرفا ہو یا اجمالا یا تفصیلا۔
(فتح الباري: 371/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1425
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1437
1437. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”جب بیوی اپنے خاوند کی اشیائے خوردونوش سےصدقہ کرے بشرط یہ کہ گھر تباہ کرنے کی نیت نہ ہوتو اسے صدقہ کرنے کاثواب اوراس کے شوہر کو کمائی کرنے کا اجر ملے گا اور خازن کو بھی اس طرح ثواب ملے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1437]
حدیث حاشیہ:
(1)
بیوی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر مال میں تصرف کرے۔
عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ بیوی گھر کی اشیاء میں شوہر کی اجازت سے تصرف کرتی ہے جس سے اس کا شوہر خوش ہوتا ہے۔
(2)
فساد کی دو صورتیں ہیں:
٭ شوہر کی اجازت کے بغیر تصرف کرے۔
٭ اشیاء میں تصرف سے شوہر خوش نہ ہو۔
پھر بیوی اور خادم میں فرق یہ ہے کہ بیوی کا شوہر کے مال میں کچھ نہ کچھ حق ہوتا ہے، کیونکہ وہ گھر کے مال و متاع کی نگران ہے، اس لیے جائز ہے کہ وہ اسراف اور بگاڑ کے بغیر صدقہ کرے، لیکن نوکر اپنے مالک کے سامان میں تصرف کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتا، اس لیے اسے صدقہ کرنے کے لیے اجازت لینا ضروری ہے۔
امام بخاری ؒ نے اسی لیے بحکم آقا کے الفاظ ذکر کیے ہیں۔
(فتح الباري: 382/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1437
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1441
1441. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے فرمایا:”جب عورت اپنے گھر کی اشیائے خوردونوش سے خرچ کرے جبکہ وہ گھر کی تباہی کا ارادہ نہ رکھتی ہوتو اسے اجر ملے گا، اس کے شوہر کو کمائی کرنے کا اجر دیا جائے گا اور خزانچی کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1441]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں خاوند کی اجازت کا ذکر نہیں کیا، جیسا کہ عنوان سابق میں خادم کے متعلق حکمِ آقا کا ذکر کیا تھا۔
غالبا اس کی وجہ یہ ہے کہ بیوی اور خادم میں کچھ فرق ہے، یعنی بیوی اپنے شوہر کے مال میں براہ راست تصرف کا حق رکھتی ہے۔
عام طور پر گھر سے تھوڑی بہت اشیاء دینے سے خاوند ناراض نہیں ہوتا، لیکن خادم وغیرہ کا معاملہ ایسا نہیں ہوتا، تاہم بیوی کا شوہر سے عمومی اجازت لینا بہتر ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ بیوی اگر خاوند کی اجازت کے بغیر خرچ کرتی ہے تو اسے نصف اجر ملتا ہے۔
(صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2065)
دوسری روایت میں ہے کہ ایسے حالات میں دوسرا نصف خاوند کو ملے گا۔
(صحیح البخاري، النفقات، حدیث: 5360) (2)
امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں حضرت عائشہ ؓ سے مروی حدیث کے تین طرق بیان کیے ہیں، حدیث شعبہ جو پہلے ذکر کی ہے، اس کا متن مکمل بیان نہیں کیا جسے علامہ اسماعیلی نے بایں الفاظ ذکر کیا ہے:
جب عورت اپنے خاوند کے گھر سے خرچ کرتی ہے تو اللہ اس کا اجر لکھ دیتا ہے۔
خاوند اور خازن کو بھی اس کے مثل اجر دیا جاتا ہے۔
ان میں سے کوئی بھی دوسرے کے اجر کو کم نہیں کرے گا۔
خاوند کو کمائی اور عورت کو خرچ کرنے کا اجر دیا جائے گا بشرطیکہ وہ گھر اجاڑنے کا ارادہ نہ کرے۔
(فتح الباري: 383/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1441