سنن نسائي
كتاب الزكاة
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
56. بَابُ : صَدَقَةِ الْعَبْدِ
باب: غلام کے صدقہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 2539
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، قَال: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي بُرْدَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ صَدَقَةٌ"، قِيلَ: أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ يَجِدْهَا , قَالَ:" يَعْتَمِلُ بِيَدِهِ فَيَنْفَعُ نَفْسَهُ، وَيَتَصَدَّقُ" , قِيلَ: أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ يَفْعَلْ , قَالَ:" يُعِينُ ذَا الْحَاجَةِ الْمَلْهُوفَ" , قِيلَ: فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ , قَالَ:" يَأْمُرُ بِالْخَيْرِ" , قِيلَ: أَرَأَيْتَ إِنْ لَمْ يَفْعَلْ , قَالَ:" يُمْسِكُ عَنِ الشَّرِّ فَإِنَّهَا صَدَقَةٌ".
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر مسلمان پر صدقہ ہے“، عرض کیا گیا: اگر کسی کو ایسی چیز نہ ہو جسے صدقہ کر سکے؟ آپ نے فرمایا: ”اپنے ہاتھوں سے کام کرے اور اپنی ذات کو فائدہ پہنچائے، اور صدقہ کرے“، کہا گیا: اگر ایسا بھی نہ کر سکے؟ آپ نے فرمایا: ”محتاج و پریشان حال کی مدد کرے“، کہا گیا: اگر ایسا بھی نہ کر سکے؟ آپ نے فرمایا: ”بھلائی اور نیک باتوں کا حکم کرے“، کہا گیا: اگر یہ بھی نہ کر سکے؟ آپ نے فرمایا: ”برائیوں سے باز رہے“، یہ بھی ایک صدقہ ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الزکاة30 (1445)، الأدب33 (6022)، صحیح مسلم/الزکاة16 (1008)، (تحفة الأشراف: 9087)، مسند احمد (4/395، 411)، سنن الدارمی/الرقاق 34 (2750) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
سنن نسائی کی حدیث نمبر 2539 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2539
اردو حاشہ:
صدقے سے مراد کار خیر، یعنی ثواب کا کام ہے کیونکہ ملی صدقے سے مقصود بھی تو ثواب ہی ہے، لہٰذا ہر مسلمان اپنی حیثیت کے مطابق کوئی نہ کوئی نیکی کرتا رہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2539
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1445
1445. حضرت ابو موسیٰ ؑ سے روایت ہے،وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:”ہرمسلمان کے لیے خیرات کرناضروری ہے۔“ لوگوں نے عرض کیا:اللہ کے نبی کریم ﷺ! اگر کسی کو میسر نہ ہو(تو کیاکرے؟)آپ نے فرمایا:”وہ اپنے ہاتھ سے محنت کرکے خود بھی فائدہ اٹھائے اور خیرات بھی کرے۔“ لوگوں نے پھرعرض کیا:اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو(توکیاکرے؟)آپ نے فرمایا:”وہ کسی ضرورت مند اور ستم زدہ کی فریاد رسی کرے۔“ لوگوں نے پھر عرض کیا:اگراس کی بھی طاقت نہ ہو(تو کیاکرے؟) آپ ﷺ نے فرمایا:”اچھی بات پر عمل کرے اور بُری بات سے باز رہے تو اس کے لیے یہی صدقہ ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1445]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری نے ادب میں جو روایت نکالی ہے اس میں یوں ہے کہ اچھی یا نیک بات کا حکم کرے۔
ابوداؤد طیالسی نے اتنا اور زیادہ کیا اور بری بات سے منع کرے۔
معلوم ہوا جو شخص نادار ہو اس کے لیے وعظ ونصیحت میں صدقہ کا ثواب ملتا ہے۔
(وحیدی)
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
وَقَالَ الشَّيْخُ أَبُو مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي جَمْرَةَ نَفَعَ اللَّهُ بِهِ تَرْتِيبُ هَذَا الْحَدِيثِ أَنَّهُ نَدَبَ إِلَى الصَّدَقَةِ وَعِنْدَ الْعَجْزِ عَنْهَا نَدَبَ إِلَى مَا يَقْرُبُ مِنْهَا أَوْ يَقُومُ مَقَامَهَا وَهُوَ الْعَمَلُ وَالِانْتِفَاعُ وَعِنْدَ الْعَجْزِ عَنْ ذَلِكَ نَدَبَ إِلَى مَا يَقُومُ مَقَامَهُ وَهُوَ الْإِغَاثَةُ وَعِنْدَ عدم ذَلِك نَدَبَ إِلَى فِعْلِ الْمَعْرُوفِ أَيْ مِنْ سِوَى مَا تَقَدَّمَ كَإِمَاطَةِ الْأَذَى وَعِنْدَ عَدَمِ ذَلِكَ نَدَبَ إِلَى الصَّلَاةِ فَإِنْ لَمْ يُطِقْ فَتَرْكُ الشَّرِّ وَذَلِكَ آخِرُ الْمَرَاتِبِ قَالَ وَمَعْنَى الشَّرِّ هُنَا مَا مَنَعَهُ الشَّرْعُ فَفِيهِ تَسْلِيَةٌ لِلْعَاجِزِ عَنْ فِعْلِ الْمَنْدُوبَاتِ إِذَا كَانَ عَجْزُهُ عَنْ ذَلِك عَن غَيْرِ اخْتِيَارٍ (فتح الباري)
مختصر یہ کہ امام بخاری نے اس حدیث کو لاکر یہاں درجہ بدرجہ صدقہ کرنے کی ترغیب دلائی ہے۔
جب مالی صدقہ کی توفیق نہ ہوتو جو بھی کام اس کے قائم مقام ہوسکے وہی صدقہ ہے۔
مثلاً اچھے کام کرنا اور دوسروں کو اپنی ذات سے نفع پہنچانا‘ جب اس کی بھی توفیق نہ ہوتو کسی مصیبت زدہ کی فریاد رسی کردینا اور یہ بھی نہ ہوسکے تو کوئی اور نیک کام کردینا مثلاً یہ کہ راستہ میں سے تکلیف دینے والی چیزوں کو دور کردیا جائے۔
پھر نماز کی طرف رغبت دلائی کہ یہ بھی بہترین کام ہے۔
آخری مرتبہ یہ کہ برائی کو ترک کردینا جسے شریعت نے منع کیا ہے۔
یہ بھی ثواب کے کام ہیں اور اس میں اس شخص کے لیے تسلی دلانا ہے جو افعال خیر سے بالکل عاجز ہو۔
ارشاد باری ہے:
﴿وَمَا یَفعَلُوا مِن خَیرٍ فَلَن یُّکفُرُوہُ﴾ (آل عمران: 115)
لوگ جو کچھ بھی نیک کام کرتے ہیں وہ ضائع نہیں جاتا۔
بلکہ اس کا بدلہ کسی نہ کسی شکل میں ضرور ضرور ملتا ہے۔
قدرت کا یہی قانون ہے۔
﴿فَمَن یَّعمَل مِثقَالَ ذَرَّۃٍ خَیرًا یَّرَہ وَمَن یَّعمَل مِثقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّایَّرَہ﴾ (الزلزال: 8,7)
جو ایک ذرہ برابر خیر کرے گا وہ اسے بھی دیکھ لے گا اور جو ذرہ برابر شرکرے گا وہ اسے بھی دیکھ لے گا۔
از مکافات غافل مشو گندم از گندم بروید جو زجو
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1445
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1445
1445. حضرت ابو موسیٰ ؑ سے روایت ہے،وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:”ہرمسلمان کے لیے خیرات کرناضروری ہے۔“ لوگوں نے عرض کیا:اللہ کے نبی کریم ﷺ! اگر کسی کو میسر نہ ہو(تو کیاکرے؟)آپ نے فرمایا:”وہ اپنے ہاتھ سے محنت کرکے خود بھی فائدہ اٹھائے اور خیرات بھی کرے۔“ لوگوں نے پھرعرض کیا:اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو(توکیاکرے؟)آپ نے فرمایا:”وہ کسی ضرورت مند اور ستم زدہ کی فریاد رسی کرے۔“ لوگوں نے پھر عرض کیا:اگراس کی بھی طاقت نہ ہو(تو کیاکرے؟) آپ ﷺ نے فرمایا:”اچھی بات پر عمل کرے اور بُری بات سے باز رہے تو اس کے لیے یہی صدقہ ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1445]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اچھی بات پر عمل کرنا اور بری بات سے باز رہنا ایک ہی درجہ ہے، لیکن ایک دوسری روایت سے پتہ چلتا ہے کہ بری بات یا برے کام سے رک جانا آخری درجہ ہے، کیونکہ اس روایت میں ہے کہ لوگوں نے عرض کیا:
اللہ کے رسول! اگر کوئی اچھی بات پر عمل نہ کر سکے تو کیا کرے؟ آپ نے فرمایا کہ بری بات یا برے کام سے باز رہے۔
(صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6022)
مقصد یہ ہے کہ اللہ کی مخلوق پر شفقت و مہربانی کرنی چاہیے، خواہ وہ مال خرچ کرنے سے ہو یا غیر مال سے ہو۔
وہ کسی کام کے کرنے سے ہو گی جیسا کہ ضرورت مند کی اعانت کرنا ہے یا ترک فعل سے ہو گی جیسا کہ کسی کو تکلیف دینے سے باز رہنا ہے۔
یہ آخری درجہ بھی اللہ کی مخلوق پر شفقت و مہربانی کرنے کی ایک قسم ہے۔
(2)
امام بخاری ؒ نے اس حدیث کے ذریعے سے درجہ بدرجہ صدقہ کرنے کے متعلق ترغیب دلائی ہے۔
پہلے یہ کہ مالی تعاون کیا جائے۔
اگر ایسا نہ کر سکے تو اپنی ذات سے دوسروں کو نفع پہنچائے۔
اگر اس کی بھی توفیق نہ ہو تو راستے سے تکلیف دہ چیز کو دور کر دیا جائے۔
آخری درجہ یہ ہے کہ برائی کو ترک کر دیا جائے۔
الغرض انسان جو بھی اچھا کام کرے گا وہ ضائع نہیں ہو گا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَمَا يَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَلَن يُكْفَرُوهُ﴾ (آل عمران115: 3)
”لوگ جو کچھ بھی نیک کام کرتے ہیں وہ ضائع نہیں جاتا۔
“ (3)
ایک حدیث میں ہے کہ انسان کے تین سو ساٹھ جوڑ ہیں اور ہر صبح ہر جوڑ کے بدلے صدقہ کرنا چاہیے۔
رسول اللہ ﷺ نے آخر میں فرمایا کہ اگر کوئی انسان ہر جوڑ کی طرف سے صدقہ و خیرات نہیں کر سکتا تو چاشت کی دو رکعت پڑھ لینا ہی اس کے لیے کافی ہے۔
(صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث: 1671(720)
، و سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 5242، و فتح الباري: 389/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1445
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6022
6022. حضرت ابو موسٰی اشعری ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ صدقہ کرے۔“ صحابہ کرام نے عرض کی: اگروہ صدقہ کرنے کے لیے کوئی چیز نہ پائے تو؟ آپ نے فرمایا: ”وہ اپنے ہاتھ سے کام کرے، اس سے خود بھی فائدہ اٹھائے اور صدقہ بھی کرے۔“ صحابہ کرام نے عرض کی: اگر اس کی طاقت نہ ہو یا نہ کر سکے تو؟ آپ نے فرمایا: ”پھر کسی پریشان حال ضرورت مند کی مدد کرے۔“ انہوں نے عرض کی: اگر یہ بھی نہ کر سکے؟ آپ نے فرمایا: ”پھر وہ بھلائی کی طرف لوگوں کو راغب کرے یا اچھے کاموں کی تلقین کرے۔“ کسی نے کہا: اگر یہ بھی نہ کر سکے تو؟ آپ نے فرمایا: ”پھر لوگوں کو اپنے شر سے بچا کر رکھے یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6022]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں مختلف اچھے کاموں کو صدقے سے تعبیر کیا گیا ہے۔
کچھ احادیث میں ہے کہ اپنے اہل وعیال پر خرچ کرنا بھی صدقہ ہے۔
بیوی کہ منہ میں خوش طبعی کے طور پر لقمہ ڈالنا بھی صدقہ ہے، جس حیلے یا کام کے ذریعے سے اپنی عزت وناموس کا دفاع کرے وہ بھی صدقہ ہے۔
(فتح الباري: 550/10) (2)
ایک حدیث میں اس کی مزید تفصیل ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”انسان کے ہر جوڑ کے بدلے ہر روز اس کا صدقہ کرنا واجب ہے۔
دو آدمیوں کے درمیان عدل کرنا صدقہ ہے، آدمی کسی کو اپنی سواری پر بٹھائے یا اس کا سامان سواری پر رکھ لے یہ بھی صدقہ ہے، اچھی بات کرنا صدقہ ہے، نماز کی طرف ہر قدم اٹھانا صدقہ ہے، راستے سے تکلیف دہ چیز دور کرنا بھی صدقہ ہے۔
“ (صحیح البخاري، الجھاد والسیر،حدیث: 2989)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”سبحان اللہ، اللہ أکبر، الحمد للہ، اور لا إله إلااللہ کہنا صدقہ ہے۔
اچھے کام کی رغبت دلانا صدقہ ہے۔
برے کام سے منع کرنا صدقہ ہے۔
تمہارا اپنی اہلیہ سے مباشرت کرنا صدقہ ہے۔
“ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی:
اللہ کے رسول! کیا ہم میں سے کوئی اپنی شہوت پوری کرتا ہے تو اس پراسے اجر ملے گا؟ آپ نے فرمایا:
”مجھے بتاؤ، اگر وہ حرام طریقے سے شہوت پوری کرتا تو کیا اس پر گناہ ہوتا ہے؟ اسی طرح اگر وہ حلال طریقے سے پوری کرے گا تو اسے اجر ملے گا۔
“ (صحیح مسلم، الزکاة، حدیث: 2329(1006)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”جب کوئی مسلمان شجر کاری یا کاشتکاری کرتا ہے، پھر کوئی انسان، حیوان یا کوئی پرندہ اس میں سے کھا لیتا ہے تو یہ اس کے لیے صدقہ ہے۔
“ (صحیح البخاري، الحرث والمزارعة، حدیث: 2320)
ایک روایت میں ہے:
”اگر اس میں سے چوری ہو جائے تو وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہے۔
“ (صحیح مسلم، المساقاة، حدیث: 3968(1552)
الغرض دین اسلام میں "المعروف" کا باب بہت وسیع ہے، اللہ تعالیٰ اسے اختیار کرنے کی ہمیں ہمت دے۔
آمین!
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6022