Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب الزكاة
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
48. بَابُ : الصَّدَقَةِ مِنْ غُلُولٍ
باب: چوری کے مال میں سے صدقہ دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2526
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ يَسَارٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا تَصَدَّقَ أَحَدٌ بِصَدَقَةٍ مِنْ طَيِّبٍ، وَلَا يَقْبَلُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا الطَّيِّبَ، إِلَّا أَخَذَهَا الرَّحْمَنُ عَزَّ وَجَلَّ بِيَمِينِهِ، وَإِنْ كَانَتْ تَمْرَةً، فَتَرْبُو فِي كَفِّ الرَّحْمَنِ حَتَّى تَكُونَ أَعْظَمَ مِنَ الْجَبَلِ، كَمَا يُرَبِّي أَحَدُكُمْ فَلُوَّهُ أَوْ فَصِيلَهُ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص بھی اپنے پاکیزہ مال سے صدقہ دیتا ہے (اور اللہ پاکیزہ مال ہی قبول کرتا ہے) تو رحمن عزوجل اسے اپنے داہنے ہاتھ میں لیتا ہے گو وہ ایک کھجور ہی کیوں نہ ہو، پھر وہ رحمن کے ہاتھ میں بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ بڑھتے بڑھتے پہاڑ سے بھی بڑا ہو جاتا ہے، جیسے کہ تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچھڑے یا اونٹنی کے چھوٹے بچے کو پالتا ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الزکاة 8 (1410)، التوحید 23 (7430) تعلیقا، صحیح مسلم/الزکاة 19 (1014)، سنن الترمذی/الزکاة 28 (661)، سنن ابن ماجہ/الزکاة 28 (1842)، (تحفة الأشراف: 13379)، موطا امام مالک/الصدقة1 (1) (مرسلاً)، مسند احمد 2/268، 331، 381، 418، 419، 431، 471، 538، 541، سنن الدارمی/الزکاة35 (1717) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

سنن نسائی کی حدیث نمبر 2526 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2526  
اردو حاشہ:
اللہ تعالیٰ کی صفات جس طرح قرآن وحدیث میں وارد ہیں ان پر اسی طرح ایمان لانا واجب ہے۔ ان میں تشبیہ و تمثیل اور تاویل و تعیطل سے کام لینا جائز نہیں سلف کا اس پر اجماع ہے۔ بعض نے ان صفات کی تاویلات کی ہیں جو کہ قابل التفات نہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2526   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1842  
´صدقہ و خیرات کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: جو شخص حلال مال سے صدقہ دے، اور اللہ تعالیٰ تو حلال ہی قبول کرتا ہے، اس کے صدقہ کو دائیں ہاتھ میں لیتا ہے، گرچہ وہ ایک کھجور ہی کیوں نہ ہو، پھر وہ صدقہ رحمن کی ہتھیلی میں بڑھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ پہاڑ سے بھی بڑا ہو جاتا ہے، اور اللہ تعالیٰ اس کو ایسے ہی پالتا ہے جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے یا اونٹ کے بچے کو پالتا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1842]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
صدقہ ایک عظیم نیکی ہے۔
صدقہ وہی قبول ہوتا ہے جو حلال کی کمائی سے کیا گیا ہو اور وہ اچھی چیز ہو جس سے صدقہ وصول کرنے والا بہتر فائدہ حاصل کر سکے۔
اللہ کی نظر میں مقدار سے زیادہ خلوص کی اہمیت ہے۔
خلوص سے دی گئی تھوڑی سی چیز بھی بہت زیادہ ثواب کا باعث ہو جاتی ہے قرآن مجید اور صحیح احادث میں اللہ تعالیٰ کے لیے ہاتھ، قدم اور چہرہ جیسے جو الفاظ وارد ہیں ان پر ایمان رکھنا چاہیے لیکن ان کو مخلوق کی صفات سے تشبیہ دینا درست نہیں، ان کی کیفیت سے اللہ تعالیٰ ہی با خبر ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1842   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 661  
´صدقہ کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے بھی کسی پاکیزہ چیز کا صدقہ کیا اور اللہ پاکیزہ چیز ہی قبول کرتا ہے ۱؎ تو رحمن اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لیتا ہے ۲؎ اگرچہ وہ ایک کھجور ہی ہو، یہ مال صدقہ رحمن کی ہتھیلی میں بڑھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ پہاڑ سے بڑا ہو جاتا ہے، جیسے کہ تم میں سے ایک اپنے گھوڑے کے بچے یا گائے کے بچے کو پالتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 661]
اردو حاشہ:
1؎:
اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حرام صدقہ اللہ قبول نہیں کرتا ہے کیونکہ صدقہ دینے والا حرام کا مالک ہی نہیں ہوتا اس لیے اسے اس میں تصرف کرنے کا حق حاصل نہیں ہوتا۔

2؎:
یمین کا ذکر تعظیم کے لیے ہے ورنہ رحمن کے دونوں ہاتھ یمین ہی ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 661   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 662  
´صدقہ کی فضیلت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ صدقہ قبول کرتا ہے اور اسے اپنے دائیں ہاتھ سے لیتا ہے اور اسے پالتا ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچھڑے کو پالتا ہے یہاں تک کہ لقمہ احد پہاڑ کے مثل ہو جاتا ہے۔ اس کی تصدیق اللہ کی کتاب (قرآن) سے ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے «ألم يعلموا أن الله هو يقبل التوبة عن عباده ويأخذ الصدقات» کیا انہیں نہیں معلوم کہ اللہ ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور صدقات لیتا ہے اور «‏ (يمحق الله الربا ويربي الصدقات‏» اللہ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الزكاة/حدیث: 662]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی ان پر ایمان لاؤ اور ان کی کیفیت کے بارے میں گفتگو نہ کرو۔
یہاں آج کل کے صوفیاء و مبتدعین کے عقائد کا بھی رد ہوا،
یہ لوگ سلف صالحین کے برعکس اللہ کی صفات کی تاویل اور کیفیت بیان کرتے ہیں۔

نوٹ:
(((وَتَصْدِیْقُ ذلِکَ)) کے لفظ سے منکر ہے،
عباد بن منصور اخیر عمر میں مختلط ہو گئے تھے اور دوسرے کی روایتوں میں اس اضافہ کا تذکرہ نہیں ہے،
یعنی اس اضافہ کے بغیر حدیث صحیح ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 662   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1188  
1188- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: اس ذات کی قسم! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، جو بھی شخص پاکیزہ کمائی میں سے صدقہ کرتا ہے ویسے اللہ تعالیٰ صرف پاکیزہ چیز کوہی قبول کرتا ہے، تو وہ چیز پاکیزہ ہونے کی حالت میں ہی آسمان کی طرف بلند ہوتی ہے اور وہ حق کی جگہ پر رکھی جاتی ہے اس کی حالت یہ ہوتی ہے کہ پروردگار اسے اپنے دائیں ہاتھ میں رکھ لیتا ہے پھر وہ اسے بڑھانا شروع کرتا ہے، جس طرح کوئی شخص اپنے جانور کے بچے کو پالتا پوستا ہے یہاں تک کہ ایک لقمہ یا ایک کھجور جب قیامت کے دن آئیں گے، تو وہ بڑے پہاڑ کی مانند ہوں گے نبی اکرم صلی ال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1188]
فائدہ:
اس حدیث سے پاک اور حلال چیز کی اہمیت ثابت ہوتی ہے، عبادات وغیرہ اس شخص کی قبول ہوتی ہیں جو بذات خود حلال چیزوں کو لازم پکڑے ہوئے ہو اور جو شخص حرام کھاتا ہے اس کی کوئی بھی عبادت اللہ تعالیٰ کے ہاں قبول نہیں ہوتی۔
نیز اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کا ثبوت ہے، اس پر ہمارا ایمان ہے لیکن ہم کیفیت و تشبیہ وغیرہ کے قائل نہیں ہیں، اور اس حدیث سے صدقہ و خیرات کی بہت زیادہ اہمیت ثابت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ ہر نیکی کو بہت زیادہ بڑھاتا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نیکیوں کو پسند فرماتے ہیں۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1186   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1410  
1410. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر بھی صدقہ دیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ حلال وپاکیزہ چیزوں ہی کو قبول کرتا ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ اس صدقے کو اپنے دائیں ہاتھ میں لیتا ہے، پھر اسے دینے والے کی خاطر بڑھاتا ہے، جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچے کو پال کر بڑھاتا ہے، حتی کہ وہ کھجور پہاڑ کے برابر ہو جاتی ہے۔ سلیمان نے عبد اللہ بن دینار سے روایت کرنے میں عبد الرحمٰن کی متابعت کی ہے ورقاء نے ابن دینار سے اس نے سعید بن یسار سے، اس نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے، وہ نبی ﷺ سے اس روایت کو بیان کرتے ہیں۔ مسلم بن ابی مریم، زید بن اسلم اور سہیل نے ابو صالح سے، انھوں نےحضرت ابوہریرہ ؓ سے اور انھوں نے نبی ﷺ سے اس روایت کو بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1410]
حدیث حاشیہ:
حدیث میں ہے کہ اللہ کے دونوں ہاتھ داہنے ہیں، یعنی ایسا نہیں کہ اس کا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ سے قوت میں کم ہو۔
جیسے مخلوقات میں ہوا کرتا ہے۔
اہلحدیث اس قسم کی آیتوں اور حدیثوں کی تاویل نہیں کرتے اور ان کو ان کے ظاہری معنی پر محمول رکھتے ہیں۔
سلیمان کی روایت مذکورہ کو خود مؤلف نے اور ابوعوانہ نے وصل کیا۔
اور ورقاء کی روایت کو امام بیہقی اور ابوبکر شافعی نے اپنے فوائد میں اور مسلم کی روایت کو قاضی یوسف بن یعقوب نے کتاب الزکوٰۃ میں اور زید بن اسلم اور سہیل کی روایتوں کو امام مسلم نے وصل کیا۔
(وحیدی)
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں۔
قال أهل العلم من أهل السنة والجماعة نؤمن بهذہ الأحادیث ولا نتوهم فیها تشبیها ولا نقول کیف۔
یعنی اہل سنت والجماعت کے جملہ اہل علم کا قول ہے کہ ہم بلاچوں وچراں احادیث پر ایمان لاتے ہیں اور اس میں تشبیہ کا وہم نہیں کرتے اور نہ ہم کیفیت کی بحث میں جاتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1410   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1410  
1410. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جو شخص حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر بھی صدقہ دیتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ حلال وپاکیزہ چیزوں ہی کو قبول کرتا ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ اس صدقے کو اپنے دائیں ہاتھ میں لیتا ہے، پھر اسے دینے والے کی خاطر بڑھاتا ہے، جس طرح تم میں سے کوئی اپنے گھوڑے کے بچے کو پال کر بڑھاتا ہے، حتی کہ وہ کھجور پہاڑ کے برابر ہو جاتی ہے۔ سلیمان نے عبد اللہ بن دینار سے روایت کرنے میں عبد الرحمٰن کی متابعت کی ہے ورقاء نے ابن دینار سے اس نے سعید بن یسار سے، اس نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے، وہ نبی ﷺ سے اس روایت کو بیان کرتے ہیں۔ مسلم بن ابی مریم، زید بن اسلم اور سہیل نے ابو صالح سے، انھوں نےحضرت ابوہریرہ ؓ سے اور انھوں نے نبی ﷺ سے اس روایت کو بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1410]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے صدقہ بڑھنے کو گھوڑے کے بچے کی مثال دے کر بیان کیا ہے، کیونکہ گھوڑے کا بچہ بہت جلد بڑھتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے سواری کے قابل ہو جاتا ہے۔
اسی طرح صدقہ بھی انسانی عمل کی پیداوار ہے اور ہر پیداوار کو نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے، جب اس پر توجہ دی جائے گی تو خوب پروان چڑھے گی۔
جب صدقہ حلال طیب کمائی سے کیا جائے گا تو وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ کرم میں رہتا ہے اور روز بروز بڑھتا رہتا ہے حتی کہ ایک کھجور اُحد پہاڑ جتنی ہو جاتی ہے۔
لیکن حرام مال سے صدقہ قبول نہیں کیا جاتا، کیونکہ صدقہ کرنے والا اس کا مالک نہیں ہوتا اور نہ وہ اس مال میں تصرف ہی کرنے کا حق دار ہے۔
اگر حرام مال سے صدقہ قبول کر لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ہی چیز بجا آوری اور حکم امتناعی کے درجے میں ہے جبکہ ایسا محال ہے۔
(فتح الباري: 353/3) (2)
بعض حضرات نے اس حدیث کی تاویل کی ہے اور کہا ہے کہ اس میں اللہ کی طرف دائیں ہاتھ کو منسوب کیا گیا ہے، اس سے مراد کوئی خاص عضو نہیں۔
لیکن اہل سنت کا یہ مسلک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی تاویل کی جائے، بلکہ سلف اسے ظاہری معنی ہی پر محمول کرتے ہیں۔
جملہ اہل علم صفات پر مشتمل احادیث پر بلا تاویل ایمان لاتے ہیں اور ان میں تشبیہ کا وہم نہیں کرتے اور نہ ان کی کیفیت ہی کے متعلق بحث کرتے ہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ نے امام ترمذی ؒ کے حوالے سے اس موقف کو بیان کیا ہے اور یہ برحق ہے۔
(فتح الباري: 354/3، وجامع الترمذي، الزکاة، حدیث: 662) (3)
سلیمان کی متابعت کو امام بخاری ؒ نے اپنی متصل سند سے بیان کیا ہے۔
اسی طرح ورقاء بن عمر کی روایت کو امام بخاری ؒ نے ذکر کیا ہے۔
(صحیح البخاري، التوحید، حدیث: 7430)
سلمہ بن ابو مریم کی روایت کو امام ابو یوسف نے اپنی تالیف کتاب الزکاۃ میں بیان کیا ہے۔
اور زید بن اسلم، نیز سہیل کی روایات کو امام مسلم نے اپنی صحیح میں متصل سند سے ذکر کیا ہے۔
(صحیح مسلم، الزکاة، حدیث: 2343(1014)
، وفتح الباري: 355/3)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1410