Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب الصيام
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل و فضائل
85. بَابُ : صَوْمِ يَوْمَيْنِ مِنَ الشَّهْرِ
باب: مہینہ میں دو دن روزہ رکھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2436
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ سَلَّامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، قَالَ: أَنْبَأَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ شَيْبَانَ، عَنْ أَبِي نَوْفَلِ بْنِ أَبِي عَقْرَبٍ , عَنْ أَبِيهِ، أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الصَّوْمِ , فَقَالَ:" صُمْ يَوْمًا مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَاسْتَزَادَهُ" , قَالَ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي أَجِدُنِي قَوِيًّا، فَزَادَهُ , قَالَ:" صُمْ يَوْمَيْنِ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ"، فَقَالَ: بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أَجِدُنِي قَوِيًّا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي أَجِدُنِي قَوِيًّا، إِنِّي أَجِدُنِي قَوِيًّا"، فَمَا كَادَ أَنْ يَزِيدَهُ فَلَمَّا أَلَحَّ عَلَيْهِ , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ".
ابوعقرب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روزے کے بارے پوچھا، تو آپ نے فرمایا: مہینہ میں ایک دن رکھ لیا کرو، انہوں نے مزید کی درخواست کی اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میں اپنے آپ کو طاقتور پاتا ہوں، تو آپ نے اس میں اضافہ فرما دیا، فرمایا: ہر مہینہ دو دن رکھ لیا کرو، تو انہوں نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میں اپنے آپ کو طاقتور پاتا ہوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (میری بات) میں اپنے کو طاقتور پاتا ہوں، میں اپنے کو طاقتور پاتا ہوں دہرائی، آپ اضافہ کرنے والے نہ تھے، مگر جب انہوں نے اصرار کیا تو آپ نے فرمایا: ہر مہینہ تین دن رکھ لیا کرو۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

سنن نسائی کی حدیث نمبر 2436 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2436  
اردو حاشہ:
گزشتہ تمام روایات سے معلوم ہوا نفل روزے کم سے کم رکھے جائیں تاکہ پابندی ہو سکے اور حقوق العباد اور معاش میں بھی خلل واقع نہ ہو۔ مہینے میں تین روزے کافی ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے پورے مہینے کے روزوں کا ثواب عطا فرما دے گا۔ اس سے زیادہ روزے رکھنا مستحسن نہیں، جائز ہیں۔ نفل روزوں میں اپنی سہولت کا خیال رکھے۔ تینوں روزے اکٹھے رکھنا ضروری نہیں۔ ہر دس دن میں ایک روزہ رکھ لے۔ یا سوموار اور جمعرات کے حساب سے پورے کرے۔ مشقت نہ ہو تو چاندنی راتوں والے دنوں کے تین روزے اکٹھے رکھنا افضل ہے۔ مسلسل روزے رکھنا منع ہے۔ شعبان کے آخری ایک دو دن، عیدین اور ایام تشریق کے روزے رکھنا بھی منع ہے۔ صرف جمعے کے دن روزہ رکھنے سے روکا گیا ہے۔ اسی طرح ہفتے کے دن روزہ رکھنے سے بھی روکا گیا ہے۔ آگے یا پیچھے کوئی اور روزہ بھی رکھا جائے۔ مخصوص روزے، مثلاً: شوال کے چھ روزے اکٹھے رکھے جا سکتے ہیں، ذوالحجہ کے نو روزے اکٹھے رکھے جائیں گے، اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ سارے سال میں ایک ہی دفعہ آتے ہیں۔ سفر میں مشقت نہ ہو تو رمضان المبارک کے روزے رکھ لینا بہتر ہے اور اگر مشقت ہو یا دوسروں کے لیے بوجھ بنے تو نہ رکھنا بہتر ہے۔ جہاد کے دوران میں بھی اگر لڑائی ہو رہی ہے، یا عنقریب ہونے والی ہے تو قوت کے حصول کے لیے رمضان المبارک کے روزے نہ رکھنا افضل ہے، بعد میں روزے پورے کر لے۔ اگر لڑائی دو رہے تو روزے رکھنا بہتر ہے۔ دوران سفر میں نفل روزے رکھنا یا نہ رکھنا مرضی پر موقوف ہے مگر دوسروں کے لیے بوجھ نہ بنے۔ مشقت محسوس ہونے پر یا مہمان کی آمد پر یا انتہائی پسندیدہ کھانا میسر آنے پر نفل روزہ ختم کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ بعد میں نفل روزے کی قضا ادا کی جا سکتی ہے، ضروری نہیں۔ نفل روزہ زوال سے پہلے دن کے وقت بھی رکھا جا سکتا ہے بشرطیکہ پہلے کچھ کھایا نہ ہو۔ معذور شخص رمضان المبارک کے دوران میں احتراماً سامنے کھانے پینے سے اجتناب کرے۔ واللہ أعلم
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2436