سنن نسائي
كتاب الصيام
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل و فضائل
75. بَابُ : صَوْمِ ثُلُثَىِ الدَّهْرِ وَذِكْرِ اخْتِلاَفِ النَّاقِلِينَ لِلْخَبَرِ فِي ذَلِكَ
باب: دو دن روزہ رکھنے اور ایک دن نہ رکھنے کا بیان اور اس سلسلہ میں ناقلین حدیث کے اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 2387
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي عَمَّارٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُرَحْبِيلَ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: رَجُلٌ يَصُومُ الدَّهْرَ , قَالَ:" وَدِدْتُ أَنَّهُ لَمْ يَطْعَمِ الدَّهْرَ"، قَالُوا: فَثُلُثَيْهِ، قَالَ:" أَكْثَرَ"، قَالُوا: فَنِصْفَهُ، قَالَ:" أَكْثَرَ"، ثُمَّ قَالَ:" أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِمَا يُذْهِبُ وَحَرَ الصَّدْرِ صَوْمُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ".
عمرو بن شرجبیل ایک صحابی رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا: ایک آدمی ہے جو ہمیشہ روزے رکھتا ہے؟ آپ نے فرمایا: ”میری خواہش ہے کہ وہ کبھی کھاتا ہی نہیں“ ۱؎، لوگوں نے عرض کیا: دو تہائی ایام رکھے تو؟ ۲؎ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ بھی زیادہ ہے“، لوگوں نے عرض کیا: اور آدھا رکھے تو؟ ۳؎ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ بھی زیادہ ہے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں اتنے روزوں نہ بتاؤں جو سینے کی سوزش کو ختم کر دیں، یہ ہر مہینے کے تین دن کے روزے ہیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 15652) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی نہ دن میں نہ رات میں یہاں تک کہ بھوک سے مر جائے، اس سے مقصود اس کے اس عمل پر اپنی ناگواری کا اظہار ہے اور یہ بتانا ہے کہ یہ ایک ایسا مذموم عمل ہے کہ اس کے لیے بھوک سے مر جانے کی تمنا کی جائے۔ ۲؎: یعنی دو دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے تو کیا حکم ہے؟ ۳؎: یعنی ایک دن روزہ رکھے اور ایک دن افطار کرے تو کیا حکم ہے؟
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 2387 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2387
اردو حاشہ:
(1) ”کاش وہ کبھی نہ کھاتا۔“ یہ اظہار ناراضی ہے کہ اس نے ایسا کیوں کیا؟ یہ تو مرنے والی بات ہے۔ اس سے تو بہتر تھا کہ کبھی بھی کھانا نہ کھاتا اور جلدی مر جاتا۔ ظاہر الفاظ مقصود نہیں صرف ڈانٹنا مقصد ہے کہ ہمیشہ روزہ رکھنا منع ہے۔
(2) ”بہت زیادہ ہیں۔“ گویا ہر مہینے دو تہائی (یعنی بیس) دنوں کے روزے رکھنا بھی اولیٰ نہیں کہ یہ بھی صیام داؤد علیہ السلام سے زیادتی ہے۔ اگرچہ یہ جائز ہیں مگر افضل پھر بھی نہیں۔
(3) ”یہ بھی زیادہ ہیں۔“ کیونکہ یہ نفل روزوں کا آخری درجہ ہے، البتہ منع نہیں۔ لیکن چونکہ وہ شخص پہلے ہی زیادہ روزے رکھتا تھا، لہٰذا آپ نے اس کے لیے یہ بھی مناسب نہ سمجھے تاکہ اس کا تشدد ختم ہو۔
(4) مہینے میں تین روزے بہترین ہیں کیونکہ ان سے روزے کا مقصد بھی بخوبی پورا ہوتا ہے، یعنی دل کی اصلاح ہو جاتی ہے اور حقوق العباد کی ادائیگی میں خلل بھی واقع نہیں ہوتا اور انسان جسمانی کمزوری سے بھی محفوظ رہتا ہے، نیز تین کا ثواب تیس، یعنی پورے مہینے کے برابر ہے، لہٰذا اسی پر عمل افضل ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2387