سنن نسائي
كتاب الصيام
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل و فضائل
72. بَابُ : النَّهْىِ عَنْ صِيَامِ الدَّهْرِ، وَذِكْرِ الاِخْتِلاَفِ، عَلَى مُطَرِّفِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ فِي الْخَبَرِ فِيهِ
باب: صیام الدھر (ہمیشہ روزہ رکھنے) کی ممانعت، اور اس سلسلہ کی حدیث میں مطرف بن عبداللہ پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 2383
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ مُطَرِّفَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الشِّخِّيرِ يُحَدِّثُ , عَنْ أَبِيهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي صَوْمِ الدَّهْرِ:" لَا صَامَ وَلَا أَفْطَرَ".
عبداللہ بن شخیر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صیام الدھر رکھنے والے کے بارے میں فرمایا: ”نہ اس نے روزہ رکھا، اور نہ ہی افطار کیا“۔
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 2383 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2383
اردو حاشہ:
”نہ رکھا اور نہ چھوڑا۔“ چھوڑا تو حقیقتاً نہیں، رکھا اس لیے نہیں کہ شریعت کی نافرمانی کی، ثواب نہ ملا گویا نہ رکھا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2383
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1705
´ہمیشہ روزے رکھنا کیسا ہے؟`
عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے ہمیشہ روزہ رکھا، اس نے نہ تو روزہ رکھا، اور نہ ہی افطار کیا۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1705]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عبادت میں شرعی حد سے تجا وز کرنا منع ہے
(2)
ہمیشہ روزہ رکھنا منع ہے۔
(3)
”نہ روزہ رکھا نہ افطار کیا“ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے روزہ رکھنے کا ثواب ملا نہ روزہ چھوڑنے کا آرام نصیب ہوا گو یا نہ آخروی نہ روحا نی فا ئدہ حاصل ہوا اور نہ دنیوی اور نہ جسمانی فائدہ حاصل ہوا بلکہ نبی اکرم ﷺ کے حکم کی خلاف ورزی کرنے سے وہ صورت بن سکتی ہے کہ نیکی برباد گنا لازم۔
(4)
بعض علماء نے فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص عیدین اور ایا م تشریق کے روزے نہ رکھے باقی گیارہ مہینے پچیس دن روزے رکھتا ہے تو یہ شخص ہمیشہ روزے رکھنے والا شمار ہو گا کیونکہ اس نے سال میں پا نچ دن روزے نہیں رکھے لیکن غور کیا جائے تو اس عمل سے اس ممانعت کا مقصد ہی فو ت ہو جاتا ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیشہ روزے رکھنے شروع کیے تو رسول اللہ ﷺ نے انھیں ان سے منع فرما دیا ان کی بار بار کی درخوا ست پر زیادہ سے زیادہ جو اجازت دی وہ داؤد علیہ السلام والے روزے کی تھی یعنی ایک دن روزہ رکھنا اور ایک دن نہ رکھنا جب حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا میں اس سے افضل عمل کی طا قت رکھتا ہوں یعنی اس سے زیا دہ روزے رکھ سکتا ہوں تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا تھا (لَااَفْضَل مِنْ ذٰلِكَ)
”اس سے کوئی افضل نہیں۔ (صحیح البخاري، الصوم، باب صوم الدھر، حدیث: 1967)
اس سے معلوم ہو تا ہے کہ سال میں گیارہ مہینے پچیس دن روزے رکھنے والے کو بھی اتنا ثواب نہیں مل سکتا جتنا صوم داؤد رحمۃ اللہ علیہ رکھنے والے کو ملتا ہے لہٰذا اگر عیدین اور ایا م تشریق کو چھوڑ کر سارا سال روزے رکھنے جا ئز بھی مان لیا جائے تو کم محنت کے سا تھ زیادہ ثوا ب حا صل کرنا بہتر ہے نہ کہ زیا دہ محنت کر کے کم ثواب حا صل کرنا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1705