صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالْحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ
کتاب: قرض لینے ادا کرنے حجر اور مفلسی منظور کرنے کے بیان میں
19. بَابُ مَا يُنْهَى عَنْ إِضَاعَةِ الْمَالِ:
باب: مال کو تباہ کرنا یعنی بے جا اسراف منع ہے۔
حدیث نمبر: 2408
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ وَرَّادٍ مَوْلَى الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَيْكُمْ عُقُوقَ الْأُمَّهَاتِ، وَوَأْدَ الْبَنَاتِ، وَمَنَعَ وَهَاتِ، وَكَرِهَ لَكُمْ قِيلَ وَقَالَ، وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ، وَإِضَاعَةَ الْمَالِ".
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، ان سے جریر نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے شعبی نے، ان سے مغیرہ بن شعبہ کے غلام وراد نے اور ان سے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے تم پر ماں (اور باپ) کی نافرمانی لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا، (واجب حقوق کی) ادائیگی نہ کرنا اور (دوسروں کا مال ناجائز طریقہ پر) دبا لینا حرام قرار دیا ہے۔ اور فضول بکواس کرنے اور کثرت سے سوال کرنے اور مال ضائع کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2408 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2408
حدیث حاشیہ:
لفظ ''منع وهات'' کا ترجمہ بعض نے یوں کیا ہے اپنے اوپر جو حق واجب ہے جیسے زکوٰۃ، بال بچوں، ناتے والوں کی پرورش، وہ نہ دینا۔
اور جس کا لینا حرام ہے یعنی پرایا مال وہ لے لینا، قیل و قال کا مطلب خواہ مخواہ اپنا علم جتانے کے لیے لوگوں سے سوالات کرنا۔
یا بے ضرورت حالا ت پوچھنا۔
کیوں کہ یہ لوگوں کو برا معلوم ہوتا ہے۔
بعض بات وہ بیان کرنا نہیں چاہتے۔
اس کے پوچھنے سے ناخوش ہوتے ہیں۔
تشریح:
ترجمہ باب لفظ إضاعة المال سے نکلتا ہے یعنی مال ضائع کرنا مکروہ ہے۔
قسطلانی نے کہا مال برباد کرنا یہ ہے کہ کھانے پینے لباس وغیرہ میں بے ضرورت تکلف کرنا۔
باسن پر سونے چاندی کا ملمع کرانا۔
دیوار چھت وغیرہ سونے چاندی سے رنگنا، سعید بن جبیر نے کہا مال برباد کرنا یہ ہے کہ حرام کاموں میں خرچ کرے اور صحیح یہی ہے کہ خلاف شرع جو خرچ ہو، خواہ دینی یا دنیاوی کام میں، وہ برباد کرے میں داخل ہے۔
بہرحال جو کام شرعاً منع ہیں جیسے پتنگ بازی، مرغ بازی، آتش بازی، ناچ رنگ ان میں تو ایک پیسہ بھی خرچ کرنا حرام ہے۔
اور جو کام ثواب کے ہیں مثلاً محتاجوں، مسافروں، غریبوں، بیماروں کی خدمت، قومی کام جیسے مدرسے، پل، سرائے، مسجد، محتاج خانے، شفا خانے بنانا، ان میں جتنا خرچ کرے وہ ثواب ہی ثواب ہے۔
اس کو برباد کرنا نہیں کہہ سکتے۔
رہ گیا اپنے نفس کی لذت میں خرچ کرنا تو اپنی حیثیت اور حالت کے موافق اس میں خرچ کرنا اسراف نہیں ہے۔
اسی طرح اپنی عزت یا آبرو بچانے کے لیے یاکسی آفت کو روکنے کے لیے۔
اس کے سوا بے ضرورت نفسانی خواہشوں میں مال خرچ کرنا مثلاً بے فائدہ بہت سے کپڑے بنا لینا، یا بہت سے گھوڑے رکھنا، یا بہت سا سامان خریدنا یہ بھی اسراف میں داخل ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2408
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2408
حدیث حاشیہ:
(1)
خلاف شرع خرچ کرنا اپنا مال ضائع کرنے کے مترادف ہے، البتہ دینی کاموں میں دل کھول کر خرچ کرنا چاہیے۔
اپنی حیثیت کے مطابق اپنی ذات پر خرچ کرنا بھی اسراف نہیں، البتہ بلا ضرورت تکلفات کرنا شریعت کی منشا کے خلاف ہے۔
(2)
مال ضائع کرنے کی ممانعت اس لیے ہے کہ مال زندگی کا نظام قائم رکھنے کا ایک اہم ذریعہ ہے، اسے ضائع کر کے انسان اپنے لیے مصائب و آلام اور مشکلات کو دعوت دیتا ہے۔
مذکورہ حدیث اس کے علاوہ دیگر اہم مضامین پر مشتمل ہے جن کی ہم آئندہ وضاحت کریں گے۔
بإذن اللہ تعالیٰ
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2408
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1254
والدہ کی ایذا رسانی حرام ہے
«وعن المغيرة بن شعبة رضى الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: إن الله حرم عليكم عقوق الامهات وواد البنات ومنعا وهات وكره لكم قيل وقال وكثرة السؤال وإضاعة المال متفق عليه»
”مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے تم پر حرام کر دیا ہے ماؤں کو ستانا اور بیٹیوں کو زندہ دفن کر دینا اور (خود) کچھ نہ دینا اور (دوسروں سے کہنا) لا مجھے دے اور تمہارے لیے ناپسند کیا (یہ کہنا کہ) یہ کہا گیا اور فلاں نے کہا اور زیادہ سوال کرنا اور مال ضائع کرنا۔“ متفق عليه۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع/باب الأدب: 1254]
تخریج:
[بخاري 5975]،
[مسلم/الاقضية 12]
مفردات:
«عقوق» مصدر ہے جو کہ «بر» کی ضد ہے۔ «برالوالدين» والدین سے اچھا سلوک «عقوق الوالدين» ان کا دل دکھانا، بدسلوکی کرنا «عق» کا لفظی معنی قطع کرنا ہے۔
«الامهات» «امهة» کی جمع ہے۔ «ام» ماں «امة» اور «امهة» بھی کہتے ہیں۔ «ام» کی جمع «امات» ہے۔ جمع کے صیغے میں یہ فرق ہے کہ «امهات» صرف ذوی العقول کے لئے آتا ہے جبکہ «امات» غیر ذوی العقول کے لئے۔ کبھی کبھی اس کا الٹ بھی ہو جاتا ہے۔ [لسان العرب]
«منعا» اپنے ذمے جو چیزیں لازم ہیں ادا نہ کرنا۔ مثلاً مال، حسن سلوک وغیرہ
«هَاتِ» فعل امر بمعنی «آت» یعنی لا دے۔ بعض کہتے ہیں «آت» کے ہمزہ کو ہاء سے بدل دیا ہے۔ «آتي» «يوتي» ”دینا“ یعنی دوسروں کے حقوق ادا نہ کرنا اور اپنے لیے ہر چیز کا مطالبہ کرتے چلے جانا۔
فوائد:
➊ اس حدیث میں والدہ کے دل دکھانے کا ذکر خاص طور پر کیا ہے حالانکہ ماں باپ دونوں کے ساتھ ہی احسان کا حکم ہے اور والد کا دل دکھانا بھی حرام ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ماں کا حق باپ سے زیادہ ہے کیونکہ وہ اولاد کی مشقت زیادہ اٹھاتی ہے۔
«وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَى وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ» [31-لقمان:14]
”اور ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق وصیت کی، اس کی ماں نے کمزوری پر کمزوری کی حالت میں اسے اٹھایا اور اس کا دودھ چھڑانا دو سال میں ہے کہ میرا اور اپنے ماں باپ کا شکر ادا کر۔“
صحیحین کی ایک حدیث میں آپ نے تین دفعہ ماں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی چوتھی دفعہ باپ کا ذکر فرمایا۔ ماں کا ذکر خاص طور پر اس لیے بھی کیا کہ کمزور ہونے کی وجہ سے اولاد اسے زیادہ ستاتی ہے۔
➋ «عقوق» سے مراد اولاد کا ہر وہ قول یا فعل ہے جس سے ماں باپ کو تکلیف ہوتی ہو بشرطیکہ وہ بھی ضد میں نہ آئے ہوئے ہوں۔ اگر ایسا ہے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
«رَّبُّكُمْ أَعْلَمُ بِمَا فِي نُفُوسِكُمْ إِن تَكُونُوا صَالِحِينَ فَإِنَّهُ كَانَ لِلْأَوَّابِينَ غَفُورًا» [17-الإسراء:25]
”تمہارا رب اس چیز کو خوب جانتا ہے جو تمہارے دلوں میں ہے اگر تم صالح ہو گے تو وہ رجوع کرنے والوں کو بخشنے والا ہے۔“
اسی طرح شرک یا اللہ کی نافرمانی سے بچنے میں والدین کی ناراضگی کی پرواہ نہیں کی جائے گی۔ «لا طاعة لمخلوق فى معصية الخالق» ”خالق کی نافرمانی میں مخلوق کا حکم ماننا جائز نہیں“ [شرح السنة 44/10، حديث: 2455]
➌ «وواد البنات» اہل جاہلیہ عام طور پر بیٹیوں کو اس لیے زندہ درگور کر دیتے تھے کہ جنگ میں دشمن کے ہاتھ نہ آ جائیں اور اس لیے بھی کہ لڑکے تو کمائیں گے جنگ میں معاون بنیں گے لڑکیاں تو بوجھ ہی بوجھ ہیں۔ کئی لوگ فقر کے ڈر سے اولاد کو قتل کر دیتے تھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وَلا تَقْتُلُوا أَوْلادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلاقٍ» ”اپنی اولاد کو فقیری کے ڈر سے قتل مت کرو۔“ قدیم جاہلیت میں یہ کام انفرادی طور پر ہوتا تھا۔ جاہلیت جدیدہ میں حکومتیں منظم طریقے سے یہ کام کر رہی ہیں مثلاً چین کے دہریوں نے دو بچوں سے زائد بچے پیدا کرنے پر پابندی لگا رکھی ہے اگر کسی عورت کے ہاں تیسرا بچہ پیدا ہو جائے تو زچہ خانے میں ہی حکومت کی مقرر کردہ نرسیں اور ڈاکٹر اسے زہر کا ٹیکا لگا کر ہلاک کر دیتے ہیں۔ امریکہ اور دوسرے کافر ملک مسلمان ممالک میں بھی یہ قانون نافذ کروانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں کہ ابھی تک ترغیب و تحریص سے کام لیا جا رہا ہے اگلا قدم جبر کا ہو گا افسوس کہ مسلمان حکمران بھی اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنے اور اس کو رازق سمجھنے کی بجائے اپنے آپ کو رزق کے ٹھیکیدار سمجھ کر مسلمانوں کی نسل کشی کے درپے ہو چکے ہیں اللہ تعالی ہدایت عطا فرمائے۔
➍ «وَمَنْعا وهات» خود کسی کو کچھ نہ دینا اور دوسروں سے ہر چیز کا تقاضا ہی کرتے چلے جانا جس طرح پیروں کا لطیفہ مشہور ہے کہ تم آؤ گے تو کیا لاؤ گے اور ہم آئیں گے تو کیا کھلاؤ گے۔ یہ نہایت ہی خست بات ہے۔
➎ «قيل و قال» یہ کہا گیا اور فلاں نے کہا اس صورت میں یہ فعل ماضی مجہول اور معروف کے صیغے ہیں یہ دونوں لفظ اسم کے طور پر بھی استعمال ہوتے ہیں «قُلْتُ قَوْلاً وقيلا وقالا» میں نے بات کہی۔ بعض اوقات «قيل و قال» فعل کے لفظ سے استعمال ہوتا ہے مگر مراد اسم ہوتا ہے۔
➏ تمہارے لیے «قيل و قال» کو ناپسند کیا اس میں کئی چیزیں شامل ہیں۔
(الف) لوگوں کے متعلق سنی سنائی باتیں بلا تحقیق آگے پہنچانا یا تحقیق کر کے دوسروں کو سناتے رہنا پہلی صورت میں جھوٹ اور بہتان کا مرتکب ہو گا دوسری صورت میں غیبت اور چغلی کا ارتکاب کرے گا کیونکہ عموماً لوگ پسند نہیں کرتے کہ ان کے متعلق بات کی جائے۔
(ب) لوگوں کے عیوب اور کمزوریاں بیان کرتے چلے جانے سے انسان اپنی حالت سے بے پروا ہو جاتا ہے اس لیے قیل و قال کو ناپسند فرمایا صحیح مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «من قال هلك الناس فهو اهلكهم» ”جو کہے کہ لوگ برباد ہو گئے وہ ان سے زیادہ برباد ہے۔“ [مسم البر 139]
(ج) دین کے بارے میں لوگوں کے اختلاف کو بیان کرتے چلے جانا۔ فلاں امام نے یہ کہا فلاں نے یہ، بعض علماء یوں بیان فرماتے ہیں، ایک قول یہ بھی ہے وغیرہ وغیرہ اور پختہ اور اصل بات کا فیصلہ نہ کرنا۔
اس میں ایک خرابی یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے ساتھ دوسروں کے اقوال ذکر کرنا مسلمان کو زیب ہی نہیں دیتا خصوصاً جب وہ کتاب و سنت کے خلاف ہوں اس سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی سبکی ہوتی ہے۔
«دعوا كل قول عند قول محمد ... فما آمن فى دينه كمخاطر»
”محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کے سامنے ہر بات چھوڑ دو کیونکہ اپنے دین میں امن والا آدمی اس شخص کی طرح نہیں جو خطرے میں پڑا ہوا ہے۔“
ہاں اگر رد کے لیے ایسے اقوال ذکر کئے جائیں تو کوئی حرج نہیں مگر وہ قیل قال نہیں ہو گا۔ بلکہ قیل و قال کا رد ہو گا۔
دوسری خرابی یہ ہے کہ قیل و قال سننے والا پریشان ہو جاتا ہے کہ میں ان اقوال میں سے کون سا قول اختیار کروں اور آخر کار دین سے ہی منحرف ہو جاتا ہے۔
تیسری یہ کہ جب انسان زیادہ قیل و قال ذکر کرتا ہے تو بہت سی باتیں بغیر تحقیق کر جاتا ہے جس سے اس کا شمار جھوٹے لوگوں میں ہوتا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «كفي بالمرء كذبا ان يحدث بكل ما سمع» [مقدمه صحيح مسلم] ”آدمی کو جھوٹا ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ جو کچھ سنے آگے بیان کر دے۔“
چوتھی یہ کہ قیل و قال میں بہت سی باتیں ایسی کرے گا جن کا اسے نہ دین میں کوئی فائدہ ہے نہ دنیا میں اس لیے زیادہ باتیں کرنا ہے ہی نامناسب۔ فرمان الہی ہے:
«وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ» [23-المؤمنون:3]
”اور (ایمان والے وہ ہیں) جو بے فائدہ باتوں سے روگردان رہتے ہیں۔“
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«من حسن اسلام المرء تركه ما لا يعنيه»
”یہ بات آدمی کے اسلام کے حسن میں سے ہے کہ وہ بے مقصد چیزیں چھوڑ دے۔“
«وكثره السوال» اس میں بھی کئی چیزیں شامل ہیں۔
(الف) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سوال کرنا اس لیے منع تھا کہ ایسا نہ ہو کہ کسی سوال کرنے سے مسلمانوں کے لئے وہ چیزیں حرام ہو جائیں جو سکوت کی وجہ سے جائز تھیں۔
«لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ» [5-المائدة:101]
”ایسی چیزوں کے متعلق سوال نہ کرو کہ اگر تمہارے لئے ظاہر کر دی جائیں تو تمہیں بری لگیں۔“
(ب) بلا ضرورت لوگوں کے حالات کی جستجو کرنا ان کے ذاتی معاملات کے متعلق پوچھنا خواہ مخواہ کا تجسس ناپسندیدہ عمل ہے۔
(ج) ایسے سوال کرنا جن کا وجود ہی نہیں محض فرضی صورتیں صورتیں ہیں یا ابھی تک وجود میں نہیں آئیں سلف صالحین اسے سخت ناپسند فرماتے تھے۔ مثلاً بعض رائے پرستوں نے سوال پیدا کیا کہ اگر کتے نے بکری سے جفتی کی اور بچہ مشترک پیدا ہوا تو حلال ہے یا حرام؟ پھر خود ہی جواب دیا کہ دیکھنا چاہیے کہ گوشت اور گھاس سامنے رکھ کر اگر گاس کھاتا ہے تو حلال ہے اور گوشت کھاتا ہے تو حرام اگر دونوں کھائے تو اس کو مارا جائے گا اگر بھونکے تو کتے کے حکم میں ہے ورنہ بکری کے اگر دونوں آوازیں کرتا ہو تو ذبح کیا جائے اگر اوجھری نکلے تو کھایا جائے ورنہ نہیں . . .
ان لوگوں کو محض سوال پیدا کرنے اور ان کا جواب گھڑنے سے غرض تھی یہ نہیں کہ کہیں ایسا ہوا بھی ہے یا ہو سکتا بھی ہے۔ بتائیے کتے اور بکری کی جفتی سے پیدا ہونے والا جانور کہاں پایا جاتا ہے؟
(د) علماء کو پھنسانے اور نیچا دکھانے کے لیے سوال کرنا اکرام مسلم کے خلاف ہے اور اکرام علم کے بھی خلاف ہے۔
(ھ) لوگوں سے مال یا دوسری چیزیں مانگنا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ سے بیعت کی کہ تم لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کرو گے۔ ان میں سے کئی حضرات نے اس عہد کی اتنی پابندی کی کہ اگر گھوڑے سے ان کا کوڑا گر پڑتا تو کسی کو پکڑانے کے لیے نہ کہتے بلکہ خود اتر کر پکڑتے اور دوبارہ سوار ہو جاتے [مسلم حديث 1043]
➑ «واضاعة المال» مال ضائع کرنا، ناجائز جگہوں میں خرچ کرنا یا اپنی حیثیت یا موقع کی مناسبت سے بڑھ کر خرچ کرنا مال کو ضائع کرنا ہے۔
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 72
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4486
حضرت وراد سے روایت ہے کہ حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو لکھا، سلامت رہو، اس کے بعد واضح ہو کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے: ”اللہ تعالیٰ نے والدین کی نافرمانی، بچیوں کو زندہ دفن کرنا، دوسروں کا حق رد کرنا اور ان سے ناجائز مطالبہ کرنا حرام قرار دیا ہے اور تین چیزوں سے روکا ہے، فضول بحث و مباحثہ، بکثرت مانگنا اور مال ضائع کرنا۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4486]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
والدین کی نافرمانی بالاتفاق کبیرہ گناہ ہے،
لیکن بعض جگہ صرف ماؤں کا تذکرہ کیا گیا ہے اور بعض جگہ والد کا اور ماں باپ کی نافرمانی اس صورت میں گناہ کبیرہ ہے،
جب ان کی بات خلاف شریعت نہ ہو،
کیونکہ یہ اصول ہے لَا طَاعَةَ لِمَخلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الخَالق،
مخلوق کی خاطر،
خالق کی نافرمانی کرنا جائز نہیں ہے،
لیکن رویہ ہر صورت میں ان کے ساتھ نرمی اور ملائمت کا ہو گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4486
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1477
1477. حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کے کاتب وراد سے روایت ہے کہ حضرت معاویہ ؓ نے مغیرہ بن شعبہ ؓ کو خط لکھا کہ تم مجھے ایسی بات لکھ کرارسال کرو جو تم نے نبی کریم ﷺ سے سنی ہو، انھوں نے جواباً لکھا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:”اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین چیزیں ناپسند کرتاہے:ادھراُدھر کی فضول باتیں کرنا، مال کو ضائع کرنا اور باکثرت سوال کرنا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1477]
حدیث حاشیہ:
فضول کلامی بھی ایسی بیماری ہے جس سے انسان کا وقار خاک میں مل جاتا ہے۔
اس لیے کم بولنا اور سوچ سمجھ کر بولنا عقل مندوں کی علامت ہے۔
اسی طرح فضول خرچی کرنا بھی انسان کی بڑی بھاری حماقت ہے جس کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب دولت ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔
اسی لیے قرآنی تعلیم یہ ہے کہ نہ بخیل بنو اور نہ اتنے ہاتھ کشادہ کرو کہ پریشان حالی میں مبتلا ہوجاؤ۔
درمیانی چال بہر حال بہتر ہے۔
تیسرا عیب کثرت کے ساتھ دست سوال دراز کرنا یہ بھی اتنا خطرناک مرض ہے کہ جس کو لگ جائے اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا اور وہ بُری طرح سے اس میں گرفتار ہوکر دنیا وآخرت میں ذلیل وخوار ہوجاتا ہے۔
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ نے یہ حدیث لکھ کر حضرت امیر معاویہ ؓ کو پیش کیا۔
اشارہ تھا کہ آپ کی کامیابی کا راز اس حدیث میں مضمر ہے۔
جس میں آپ کو لکھ رہا ہوں۔
آنحضرت ﷺ کے جوامع الکلم میں اس حدیث شریف کو بھی بڑا مقام حاصل ہے۔
اللہ پاک ہم کو یہ حدیث سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق دے۔
آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1477
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1477
1477. حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کے کاتب وراد سے روایت ہے کہ حضرت معاویہ ؓ نے مغیرہ بن شعبہ ؓ کو خط لکھا کہ تم مجھے ایسی بات لکھ کرارسال کرو جو تم نے نبی کریم ﷺ سے سنی ہو، انھوں نے جواباً لکھا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:”اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین چیزیں ناپسند کرتاہے:ادھراُدھر کی فضول باتیں کرنا، مال کو ضائع کرنا اور باکثرت سوال کرنا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1477]
حدیث حاشیہ:
(1)
بکثرت سوال کرنے کے متعلق متعدد احتمالات ہیں، مثلا:
مال جمع کرنے کی نیت سے بکثرت سوالات کرنا، متشابہ اور پہیلی نما سوال کرنا، لایعنی، فضول اور بے مقصد سوالات کرنا۔
ایسے معاملات کے متعلق سوالات کرنا جو وقوع پذیر نہیں ہوئے۔
امام بخاری ؒ نے عموم کے پیش نظر پہلے معنی مراد لیے ہیں، اسی صورت میں یہ حدیث قائم کردہ عنوان کے مطابق ہو گی۔
(2)
قیل و قال سے فضول اور لایعنی قسم کی باتیں مراد ہیں اسی طرح دینی معاملات میں تحقیق کے بغیر گفتگو کرنا اور نقل روایات میں بے احتیاطی کرنا بھی اس میں شامل ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1477