سنن نسائي
كتاب الصيام
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل و فضائل
65. بَابُ : إِذَا طَهُرَتِ الْحَائِضُ أَوْ قَدِمَ الْمُسَافِرُ فِي رَمَضَانَ هَلْ يَصُومُ بَقِيَّةَ يَوْمِهِ
باب: رمضان میں حائضہ پاک ہو جائے یا مسافر واپس آ جائے تو کیا دن کے باقی حصہ میں روزہ رکھے؟
حدیث نمبر: 2322
أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ أَبُو حَصِينٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْثَرٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ صَيْفِيٍّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ عَاشُورَاءَ:" أَمِنْكُمْ أَحَدٌ أَكَلَ الْيَوْمَ؟"، فَقَالُوا: مِنَّا مَنْ صَامَ، وَمِنَّا مَنْ لَمْ يَصُمْ، قَالَ:" فَأَتِمُّوا بَقِيَّةَ يَوْمِكُمْ، وَابْعَثُوا إِلَى أَهْلِ الْعَرُوضِ، فَلْيُتِمُّوا بَقِيَّةَ يَوْمِهِمْ".
محمد بن صیفی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشوراء کے دن فرمایا: ”کیا تم میں سے کسی نے آج کے دن کھایا ہے؟“ لوگوں نے کہا: ہم میں کچھ لوگ ایسے ہیں جن ہوں نے روزہ رکھا ہے، اور کچھ لوگوں نے نہیں رکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنا باقی دن (بغیر کھائے پیئے) پورا کرو ۱؎، اہل عروض ۲؎ کو خبر کرا دو کہ وہ بھی اپنا باقی دن (بغیر کھائے پئے) پورا کریں۔“
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الصوم41 (1735)، (تحفة الأشراف: 11225)، مسند احمد 4/388 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اپنا باقی دن بغیر کھائے پیئے پورا کرو، اسی جملہ سے ترجمۃ الباب پر استدلال ہے، اس میں روزہ رکھنے والوں اور روزہ نہ رکھنے والوں دونوں کو اتمام کا حکم ہے۔ ۲؎: عروض کا اطلاق مکہ، مدینہ اور اس کے اطراف پر ہوتا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 2322 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2322
اردو حاشہ:
(1) یوم عاشوراء سے متعلق مجموعی احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اس دن کا روزہ فرض تھا کیونکہ رسول اللہﷺ سے مختلف احادیث میں اس کے منتعلق حکم منقول ہے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (فتح الباري: 4/ 247) یہ اعلان آپ نے دن چڑھے فرمایا، شاید فرضیت کا حکم اسی وقت آیا ہو۔
(2) ”باقی دن کچھ نہ کھانا“ خواہ پہلے کھانا کھا ہی چکا ہو۔ اس صورت میں روزہ صحیح ہوگا، اور شرعاً قابل اعتبار، نیز اس کی جگہ بعد میں روزہ رکھنا ضروری نہیں، یہی موقف حق ہے کیونکہ اس کی قضا ادا کرنے کا حکم نہیں، جس روایت میں قضا کا حکم ہے وہ سنداً ناقابل حجت اور ضعیف ہے۔ دیکھئے: (سنن أبي داؤد، حدیث: 2447) جیسے بھول کر کھانے پینے والے کا شرعاً مؤاخذہ نہیں اور نہ اس کا روزہ ہی فاسد ہوتا ہے، یہی توجیہ زیر بحث مسئلے میں ہو سکتی ہے۔ واللہ أعلم! امام نسائی رحمہ اللہ نے حائضہ اور مسافر کو بھی اسی پر قیاس فرمایا ہے کہ اگر دن کے دوران میں ان کا عذر ختم ہو جائے تو وہ باقی دن کچھ نہ کھائیں پئیں، خواہ پہلے کچھ کھایا پیا ہو یا نہ۔ لیکن اب رکنا لازمی ہے۔
(3) ”قرب وجوار بستیوں“ عربی میں لفظ ”عروض“ استعمال ہوا ہے، جس سے مراد مکہ، مدینہ اور یمن کا تمام علاقہ ہے، لیکن ظاہر ہے اس وقت یہ اعلان اتنے علاقے میں تو نہیں ہو سکتا تھا، اس لیے مندرجہ بالا معنیٰ کیے گئے کیونکہ اس وقت یہی ممکن تھا۔
(4) طلوع فجر صادق سے قبل روزے کی نیت اس کے لیے ضروری ہے جسے علم ہو کہ صبح کو روزہ ہے۔ جسے پتا ہی دن کے وقت چلے کہ آج روزہ ہے، تو اگر اس نے طلوع فجر کے بعد اس وقت تک کچھ نہیں کھایا، وہ روزے کی نیت کر سکتا ہے اور اس کی دن کی نیت معتبر ہوگی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2322
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1735
´یوم عاشوراء کا روزہ۔`
محمد بن صیفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے عاشوراء کے دن فرمایا: ”آج تم میں سے کسی نے کھانا کھایا ہے“؟ ہم نے عرض کیا: بعض نے کھایا ہے اور بعض نے نہیں کھایا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے کھایا ہے اور جس نے نہیں کھایا ہے دونوں شام تک کچھ نہ کھائیں، اور «عروض» ۱؎ والوں کو کہلا بھیجو کہ وہ بھی باقی دن روزہ کی حالت میں پورا کریں“ ۲؎۔ راوی نے کہا اہل عروض سے آپ مدینہ کے آس پاس کے دیہات کو مراد لیتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1735]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عاشورا کا روزہ مستحب ہے تاہم دوسری احادیث کی روشنی میں اکیلے دس محرم کا روزہ نہیں رکھنا چاہے بلکہ اس کے سا تھ نو محرم کا روزہ رکھ لینا چاہے
(2)
اگر دن کے وقت چاند ہو نے کی اطلاع ملے تو باقی دن کا روزہ رکھنا چاہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے تو دن کا کچھ حصہ گزر چکا تھا پھر بھی باقی دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1735