سنن نسائي
كتاب الصيام
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل و فضائل
45. بَابُ : ذِكْرِ الاِخْتِلاَفِ عَلَى سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ فِيهِ
باب: اس حدیث میں سفیان ثوری پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 2256
أَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ شُعَيْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي يَحْيَى بْنُ الْحَارِثِ، عَنِ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ حَدَّثَهُ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ بَاعَدَ اللَّهُ مِنْهُ جَهَنَّمَ مَسِيرَةَ مِائَةِ عَامٍ".
عقبہ بن عامر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو اللہ کی راہ میں ایک دن کا روزہ رکھے گا اللہ تعالیٰ اس سے جہنم کو سو سال کی مسافت کی دوری پر کر دے گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، تحفة الأشراف: 9947 (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
سنن نسائی کی حدیث نمبر 2256 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2256
اردو حاشہ:
(1) ”سو سال“ اس سے ماقبل تمام روایات میں ستر سال کا ذکر ہے۔ معلوم ہوتا ہے دونوں اعداد سے معین عدد مراد نہیں بلکہ کثرت مراد ہے، یعنی بہت دور فرما دے گا۔ ستر اور سو کا عدد عرف میں کثرت کے لیے عام بولا جاتا ہے۔ ان دو عددوں کو خاص کرنے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ انسانی عمر عموماً ستر کے قریب ہوتی ہے، بہت کم ہیں جو سو سال تک پہنچیں یا اس سے تجاوز کریں۔ بعض اہل علم نے یہ بھی کہا ہے کہ ممکن ہے پہلے اجر کم تھا، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اضافہ فرما دیا، یہ بھی کوئی بعید بات نہیں۔
(2) اوپر والی روایات میں سال کو ”خریف“ کہا گیا ہے کیونکہ سال میں موسم خریف ایک ہی ہے لہٰذا کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس موسم کو خاص کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ عرب میں فصلوں اور پھلوں کے پکنے، کاٹنے اور توڑنے کا موسم تھا، اس لیے عرب لوگ سن ہجری کے رواج سے پہلے تاریخ میں خریف ہی کے حوالے دیا کرتے تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2256