سنن نسائي
كتاب الصيام
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل و فضائل
43. بَابُ : ذِكْرِ الاِخْتِلاَفِ عَلَى مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ فِي حَدِيثِ أَبِي أُمَامَةَ فِي فَضْلِ الصَّائِمِ
باب: روزہ دار کی فضیلت کے سلسلے میں ابوامامہ رضی الله عنہ والی حدیث میں محمد بن ابی یعقوب پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 2238
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لِلصَّائِمِينَ بَابٌ فِي الْجَنَّةِ يُقَالُ لَهُ الرَّيَّانُ، لَا يَدْخُلُ فِيهِ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ، فَإِذَا دَخَلَ آخِرُهُمْ أُغْلِقَ مَنْ دَخَلَ فِيهِ شَرِبَ، وَمَنْ شَرِبَ لَمْ يَظْمَأْ أَبَدًا".
سہل بن سعد ساعدی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”روزہ دار کے لیے جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے، روزہ دار کے سوا کوئی اور اس دروازے سے داخل نہیں ہو گا، اور جب آخری روزہ دار دروازہ کے اندر پہنچ جائے گا تو دروازہ بند کر دیا جائے گا، جو وہاں پہنچ جائے گا وہ پئے گا اور جو پئے گا، وہ پھر کبھی پیاسا نہ ہو گا“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 4679)،، حم5/333، 335، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الصوم4 (1896)، وبدء الخلق9 (3257)، صحیح مسلم/الصوم30 (1152)، سنن الترمذی/الصوم55 (765) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 2238 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2238
اردو حاشہ:
(1) اس روایت میں روزے داروں سے مراد نفلی روزے کے عادی لوگ ہیں کیونکہ فرض روزے دار تو سب مسلمان ہی ہیں۔
(2) مخصوص دروازہ روزے داروں کو امتیاز عطا کرنے کے لیے ہے، جیسے مہمان خصوصی کے داخلے کے لیے دروازہ مخصوص کر دیا جاتا ہے۔
(3) ”ریان“ معنیٰ ہیں: سیرابی والا دروازہ۔ گویا اس دروازے سے داخل ہوتے ہی سیرابی حاصل ہوگی، چاہے دخول سے یا پینے سے۔ جبکہ باقی دروازوں کے ذریعے داخل ہونے والوں کو جنت کے اندر پانی ملے گا۔
(4) ”کبھی پیاسا نہ ہوگا۔“ بعد میں پانی پینا لذت کے لیے ہوگا نہ کہ پیاس دور کرنے کے لیے۔ ان کی یہ فضیلت، اس لیے ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے پیاسے رہے۔ روزے میں پیاس ہی زیادہ محسوس ہوتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2238
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1640
´روزے کی فضیلت کا بیان۔`
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے، قیامت کے دن پکارا جائے گا، کہا جائے گا روزہ دار کہاں ہیں؟ تو جو روزہ داروں میں سے ہو گا وہ اس دروازے سے داخل ہو گا اور جو اس میں داخل ہو گا وہ کبھی پیاسا نہ ہو گا۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1640]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔
جو مختلف نیکیوں کی طرف منسوب ہیں۔
مثلاً باب الصلاۃ (نماز کا دروازہ)
باب الجہاد (جہاد کادروازہ)
باب الصدقۃ (صدقہ کا دروازہ)
دیکھئے: (صحیح البخاري، الصوم، باب الریان للصائمین، حدیث: 1897)
(2)
ایک شخص جس نیکی کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔
اور اس کی ادایئگی کی زیادہ کوشش کرتا ہے۔
وہ اس نیکی سے منسوب دروازے سے جنت میں داخل ہوگا۔
اگر زیادہ صفات کا حامل ہو۔
تو ایک سے زیادہ دروازوں سے بلا یا جائے گا۔
مثلاً حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آٹھوں دروازوں سے بلایا جائے گا۔ (صحیح البخاري، الصوم، باب الریان للصائمین، حدیث: 18973)
۔
ریان کا مطلب سیراب ہے۔
روزہ دار بھوک پیاس برداشت کرتا ہے۔
اور پیاس کا برداشت کرنا بھوک کی نسبت مشکل ہوتا ہے اس لئے روزہ داروں کےلئے جو دروازے مقرر ہے اسے بھی سیرابی کا دروازہ قرار دیا گیا ہے۔
(4)
فرض عبادات کی ادایئگی کے ساتھ ساتھ مسنون نفلی عبادات بھی ممکن حد تک ادا کرتے رہنا چاہیے۔
نفلی عبادات کا اہتمام جنت میں داخلے کا باعث ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1640
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 765
´روزے کی فضیلت کا بیان۔`
سہل بن سعد رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں ایک دروازہ ہے جسے ریان کہا جاتا ہے۔ روزہ رکھنے والوں ۱؎ کو اس کی طرف بلایا جائے گا، تو جو روزہ رکھنے والوں میں سے ہو گا اس میں داخل ہو جائے گا اور جو اس میں داخل ہو گیا، وہ کبھی پیاسا نہیں ہو گا۔“ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 765]
اردو حاشہ:
1؎:
روزہ رکھنے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو فرض روزوں کے ساتھ نفلی روزے بھی کثرت سے رکھتے ہوں،
ورنہ رمضان کے فرض روزے تو ہر مسلمان کے لیے ضروری ہیں،
اس خصوصی فضیلت کے مستحق وہی لوگ ہوں گے جو فرض کے ساتھ بکثرت نفلی روزوں کا اہتمام کرتے ہوں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 765
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2710
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت میں ایک خاص دروازہ ہے جسے ”الریان“ کہا جاتا ہے اس سے قیامت کے دن صرف روزہ دار داخل ہوں گے، ان کے سوا کوئی اور اس سے داخل نہیں ہو سکے گا۔ پکارا جائے گا کہاں ہیں روزہ دار؟ تو وہ اس سے داخل ہوں گے جب ان کا آخری فرد داخل ہو جائے گا دروازہ بند ہو جائے گا تو اس سے کوئی اور داخل نہیں ہو سکے گا۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:2710]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
روزے میں جس تکلیف کا سب سے زیادہ احساس ہوتا ہے وہ پیاس ہے اس لیے روزہ کا جو صلہ اور انعام دیا جائے گا۔
اس میں سب سے زیادہ نمایاں اور غالب پہلو سیرابی ہے اس مناسبت سے جنت میں روزہ داروں کے لیے جو دروازہ داخلہ کے لیے مخصوص کیا گیا ہے اس کا نام ریان (پورا پورا اور بھر پور سیراب)
ہو گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2710
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1896
1896. حضرت سہیل ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جنت کا ایک دروازہ ہے جسے"ریان" کہاجاتاہے۔ قیامت کے دن اس سے روزہ دار ہی گزریں گے۔ ان کے علاوہ کوئی دوسرا اس میں سے داخل نہیں ہوگا۔ آواز دی جائے گی روزہ دار کہاں ہیں؟تو وہ اٹھ کھڑے ہوں گے ان کے سوا کوئی دوسرا اس میں سے داخل نہیں ہوگا۔ جب وہ داخل ہوجائیں گے تو اسے بند کردیا جائے گا کوئی اور اس میں داخل نہ ہوگا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1896]
حدیث حاشیہ:
لفظ ریان ری سے مشتق ہے جس کے معنی سیرابی کے ہیں چوں کہ روزہ میں پیاس کی تکلیف ایک خاص تکلیف ہے جس کا بدل ریان ہی ہو سکتا ہے جس سے سیرابی حاصل ہو، اس لیے یہ دروازہ خاص روزہ داروں کے لیے ہوگا جس میں داخل ہو کر وہ سیراب اور قطعی سیراب ہوجائیں گے پھر وہ تا ابد پیاس محسوس نہیں کریں گے۔
و جعلنا اللّٰہ منهم آمین
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1896
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1896
1896. حضرت سہیل ؓ سے روایت ہے وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جنت کا ایک دروازہ ہے جسے"ریان" کہاجاتاہے۔ قیامت کے دن اس سے روزہ دار ہی گزریں گے۔ ان کے علاوہ کوئی دوسرا اس میں سے داخل نہیں ہوگا۔ آواز دی جائے گی روزہ دار کہاں ہیں؟تو وہ اٹھ کھڑے ہوں گے ان کے سوا کوئی دوسرا اس میں سے داخل نہیں ہوگا۔ جب وہ داخل ہوجائیں گے تو اسے بند کردیا جائے گا کوئی اور اس میں داخل نہ ہوگا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1896]
حدیث حاشیہ:
(1)
ريان کے معنی سیرابی کے ہیں۔
چونکہ روزہ دار دنیا میں اللہ کے لیے بھوک اور پیاس برداشت کرتے ہیں، اس لیے انہیں بڑے اعزاز و احترام کے ساتھ اس سیرابی کے دروازے سے گزارا جائے گا اور وہاں سے گزرتے وقت انہیں ایسا مشروب پلایا جائے گا کہ اس کے بعد کبھی پیاس محسوس نہیں ہو گی، چنانچہ حدیث میں ہے کہ جو اس دروازے سے داخل ہو گا اسے مشروب پلایا جائے گا اور جو انسان اسے نوش کرے گا اسے کبھی پیاس نہیں لگے گی۔
(2)
صحیح مسلم کی ایک روایت میں ہے:
جو انسان اچھی طرح وضو کرے اور دعا پڑھے تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھل جاتے ہیں، وہ جنت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے۔
(صحیح مسلم، الطھارة، حدیث: 553(234)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ "باب ریان" روزہ داروں کے لیے خاص نہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ وضو کرنے والا انسان باب الریان سے گزرنے کا ارادہ ہی نہیں کرے گا۔
(عمدةالقاري: 16/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1896
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3257
3257. حضرت سہل بن سعد ؓسے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔ ان میں سے ایک دروازے کا نام "ریان"ہے۔ اس میں سے صرف روزہ دارہی داخل ہوں گے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3257]
حدیث حاشیہ:
1۔
ریان اس دروازے کا نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ روزے داروں نے دنیا میں پیاس برداشت کی ہوگی۔
جب وہ باب ریان سے گزر کر جنت میں داخل ہوں گے اور جنت کی نہر سے پانی نوش کریں گے تو انھیں ایسی سیرابی حاصل ہوگی کہ پھر انھیں پیاس محسوس نہیں ہو گی۔
بہر حال جنت کے آٹھ دروازے متعدد احادیث میں بیان ہوئے ہیں یہ تمام دروازے لوگوں کے اعمال کے مطابق منقسم ہیں جو کوئی بکثرت نمازیں پڑھتا ہوگا وہ باب الصلاۃ سے گزرے گا اور جو کوئی کثرت سے جہاد کرتا ہوگا اسے باب الجہاد سے جنت میں جانے کی دعوت دی جائے گی۔
(عمدة القاري: 612/10)
2۔
جنت کے دروازوں کا وصف احادیث میں اس طرح آیا ہے کہ اس کے دونوں کواڑ ایک دوسرے سے چالیس سال کی مسافت پر ہوں گے۔
(فتح الباري: 396/6)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3257