سنن نسائي
كتاب الصيام
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل و فضائل
40. بَابُ : ذِكْرِ اخْتِلاَفِ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ وَالنَّضْرِ بْنِ شَيْبَانَ فِيهِ
باب: اس حدیث میں یحییٰ بن ابی کثیر اور نضر بن شیبان کے اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 2212
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ الْفَضْلِ، قَالَ: حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شَيْبَانَ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدِّثْنِي بِشَيْءٍ سَمِعْتَهُ مِنْ أَبِيكَ، سَمِعَهُ أَبُوكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَيْسَ بَيْنَ أَبِيكَ وَبَيْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، قَالَ: نَعَمْ , حَدَّثَنِي أَبِي، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَرَضَ صِيَامَ رَمَضَانَ عَلَيْكُمْ، وَسَنَنْتُ لَكُمْ قِيَامَهُ، فَمَنْ صَامَهُ وَقَامَهُ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ".
نضر بن شیبان کہتے ہیں: میں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن سے کہا کہ آپ مجھ سے ماہ رمضان کے متعلق کوئی ایسی بات بیان کریں جو آپ نے اپنے والد (عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ) سے سنی ہو، اور اسے آپ کے والد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنا ہو، آپ کے والد اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیچ کوئی اور حائل نہ ہو۔ انہوں نے کہا: اچھا سنو! مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تبارک و تعالیٰ نے تم پر رمضان کے روزے فرض کیے ہیں، اور میں نے تمہارے لیے اس میں قیام کرنے کو سنت قرار دیا ہے اس میں جو شخص ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سے روزہ رکھے گا اور (عبادت پر) کمربستہ ہو گا تو وہ اپنے گناہوں سے ایسے نکل جائے گا جیسے اس کی ماں نے اسے آج ہی جنا ہو“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2210 (ضعیف) (اس کے راوی ’’نضر‘‘ ضعیف ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف، إسناده ضعيف، ابن ماجه (1328) وانظر الحديث السابق (2210) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 338
سنن نسائی کی حدیث نمبر 2212 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2212
اردو حاشہ:
(1) مذکورہ تینوں روایات (2210-2212) ضعیف ہیں، اس لیے کہ رمضان کے روزوں اور قیام کی فضیلت تو صحیح روایات سے ثابت ہے لیکن آخری حصہ ”پاک جننے والا“ صحیح نہیں ہے۔
(2) رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت تو متفقہ مسئلہ ہے، البتہ راتوں کا قیام نفل ہے، لیکن یہ نفل موکد ہیں۔ چونکہ یہ نوافل رمضان المبارک کی خصوصیت ہیں، لہٰذا انہیں ترک نہیں کرنا چاہیے کیونکہ امتیازات کی پابندی مؤکد ہوتی ہے، البتہ آپ کے دور میں رمضان کے نفلوں میں فرضیت کے ڈر سے مستقل جماعت سے اجتناب کیا گیا، صرف تین دن آپ نے جماعت کروائی ویسے لوگ ٹولیوں کی صورت میں آپ کے دور میں بھی پڑھا کرتے تھے۔ جب فرضیت کا خطرہ نہ رہا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باقاعدہ جماعت کا دوبارہ آغاز فرما دیا، لہٰذا اب یہی سنت ہے کیونکہ خلفائے راشدین کی سنت پر عمل کرنا بھی ضروری ہے، نیز اس پر صحابہ اور مابعد ادوار کا اجماع ہے، لہٰذا کسی مسجد کو تراویح کی جماعت سے محروم نہیں رکھنا چاہیے، البتہ اگر کوئی حافظ قاری جماعت سے الگ پڑھنا چاہے تو وہ الگ بھی پڑھ سکتا ہے۔ عشاء کے فوراً بعد پڑھے یا تہجد کے وقت۔ ہاں، جماعت عشاء کے بعد ہی ہوگی۔ مسنون نماز تراویح گیارہ رکعات ہے کیونکہ جن دنوں آپ نے جماعت کروائی تھی، گیارہ رکعت ہی پڑھائی تھیں، نیز رمضان اور غیر رمضان آپ علیہ السلام اتنی نماز ہی پڑھتے تھے۔ نبی اکرمﷺ یا کسی صحابی سے نماز تراویح کسی صحیح حدیث یا اثر سے گیارہ رکعات سے زائد ثابت نہیں، اس لیے اسی پر اکتفاء مسنون ومشروع ہے۔ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار کی روشنی میں گیارہ سے زائد نوافل (نماز تراویح) کا دعویٰ کیا جاتا ہے، وہ سب ضعیف اور محدثین کے ہاں ناقابل اعتبار ہیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (صلاۃ التراویح للالبانی)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2212