Note: Copy Text and Paste to word file

سنن نسائي
كتاب الصيام
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل و فضائل
20. بَابُ : تَأْخِيرِ السَّحُورِ وَذِكْرِ الاِخْتِلاَفِ عَلَى زِرٍّ فِيهِ
باب: سحری دیر سے کھانے کا بیان اور اس حدیث میں زر بن حبیش پر راویوں کے اختلاف کا ذکر۔
حدیث نمبر: 2155
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَدِيٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ زِرَّ بْنَ حُبَيْشٍ، قَالَ:" تَسَحَّرْتُ مَعَ حُذَيْفَةَ، ثُمَّ خَرَجْنَا إِلَى الصَّلَاةِ، فَلَمَّا أَتَيْنَا الْمَسْجِدَ صَلَّيْنَا رَكْعَتَيْنِ، وَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ وَلَيْسَ بَيْنَهُمَا إِلَّا هُنَيْهَةٌ".
زر بن حبیش کہتے ہیں: میں نے حذیفہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ سحری کھائی، پھر ہم نماز کے لیے نکلے، تو جب ہم مسجد پہنچے تو دو رکعت سنت پڑھی ہی تھی کہ نماز شروع ہو گئی، اور ان دونوں کے درمیان ذرا سا ہی وقفہ رہا۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
سنن نسائی کی حدیث نمبر 2155 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2155  
اردو حاشہ:
(1) یہ روایت ضعیف ہے، بشرط صحت اس حدیث میں دن سے شرعی دن مراد ہوگا جو طلوع فجر سے شروع ہوتا ہے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا مقصود یہ ہے کہ سحری طلوع فجر کے بالکل قریب کھانی چاہیے تاکہ سحری کے مقاصد مکمل طور پر حاصل ہوں۔ بہت پہلے سحری کھانے سے روزہ نبھانا مشکل ہو جاتا ہے اور اگر سحری کے بعد نیند آگئی تو تہجد تو ایک طرف، فرض نماز بھی رہ جائے گی۔
(2) سَحْری، سحَْر سے ہے جس کے معنیٰ ہیں: رات کا آخری حصہ لہٰذا سحری ہے ہی وہ جو رات کے آخری حصے یعنی طلوع فجر سے عین پہلے ہو، زیادہ دیر پہلے کھانا عام کھانا ہوگا، سحری نہ ہوگا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2155