صحيح البخاري
كِتَاب الِاسْتِقْرَاضِ وَأَدَاءِ الدُّيُونِ وَالْحَجْرِ وَالتَّفْلِيسِ
کتاب: قرض لینے ادا کرنے حجر اور مفلسی منظور کرنے کے بیان میں
2. بَابُ مَنْ أَخَذَ أَمْوَالَ النَّاسِ يُرِيدُ أَدَاءَهَا أَوْ إِتْلاَفَهَا:
باب: جو شخص لوگوں کا مال ادا کرنے کی نیت سے لے اور جو ہضم کرنے کی نیت سے لے۔
حدیث نمبر: 2387
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأُوَيْسِيُّ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي الْغَيْثِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ أَخَذَ أَمْوَالَ النَّاسِ يُرِيدُ أَدَاءَهَا أَدَّى اللَّهُ عَنْهُ، وَمَنْ أَخَذَ يُرِيدُ إِتْلَافَهَا أَتْلَفَهُ اللَّهُ".
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے ثور بن زید نے، ان سے ابوغیث نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو کوئی لوگوں کا مال قرض کے طور پر ادا کرنے کی نیت سے لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کی طرف سے ادا کرے گا اور جو کوئی نہ دینے کے لیے لے، تو اللہ تعالیٰ بھی اس کو تباہ کر دے گا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2387 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2387
حدیث حاشیہ:
حدیث نبوی اپنے مطلب میں واضح ہے۔
جس کی نیت ادا کرنے کی ہوتی ہے اللہ پاک بھی ضرور اس کے لیے کچھ نہ کچھ اسباب وسائل بنا دیتا ہے۔
جن سے وہ قرض ادا کرا دیتا ہے اور جن کی نیت ادا کرنے کی ہی نہ ہو، اس کی اللہ بھی مدد نہیں کرتا۔
اس صورت میں قرض لینا گویا لوگوں کے مال پر ڈاکہ ڈالنا ہے۔
پھر ایسے لوگوں کی ساکھ بھی ختم ہوجاتی ہے۔
اور سب لوگ اس کی بے ایمانی سے واقف ہو کر اس سے لین دین ترک کردیتے ہیں۔
خلاصہ یہ کہ قرض لیتے وقت ادا کرنے کی نیت اور فکر ضروری ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2387
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2387
حدیث حاشیہ:
بندوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا معاملہ ان کی نیتوں کے مطابق ہوتا ہے۔
اگر وہ نیت رکھتے ہیں تو انہیں دنیا و آخرت میں اس کا پھل دیتا ہے اور اگر کسی کی نیت میں فساد ہے تو اسے اس کی بدنیتی کی وجہ سے برے اثرات سے دوچار کر دیتا ہے۔
جو انسان کسی سے کوئی چیز یا نقدی لیتا ہے اور اس کی نیت ادا کرنے کی ہوتی ہے تو اس کی ادائیگی کے لیے اللہ تعالیٰ دنیا میں کوئی نہ کوئی سبب پیدا کر دیتا ہے یا پھر آخرت میں اللہ تعالیٰ قرض خواہ کو حوریں اور خوبصورت محلات دے کر راضی کر دے گا اور مقروض کو لوگوں کے سامنے ذلیل و خوار نہیں کرے گا۔
اس کے برعکس اگر اس کی نیت ادا کرنے کی نہ ہو تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی دنیا ہی میں ساکھ خراب کر دیتا ہے۔
دوسرے لوگ اس کی بے ایمانی سے واقف ہو کر اس کے ساتھ لین دین ترک کر دیتے ہیں، نیز اس کی زندگی تنگ ہو جاتی ہے یا اسے کوئی جانی یا مالی نقصان ہوتا ہے اور آخرت میں بھی اسے عذاب سے دوچار کیا جائے گا، الغرض قرض لیتے وقت ہی ادا کرنے کی نیت اور فکر ضروری ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2387
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 721
´پیشگی ادائیگی، قرض اور رھن کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” جو شخص لوگوں کا مال (بطور قرض) لے اور اس کے ادا کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کا (قرض) ادا فرما دے گا اور جو شخص ان (کے) اموال ضائع کرنے کی نیت سے لے تو اللہ تعالیٰ اسے ضائع کر دے گا۔“ (بخاری) «بلوغ المرام/حدیث: 721»
تخریج: «أخرجه البخاري، الاستقراض، باب من أخذ أموال الناس يريد أداءها، حديث:2387.»
تشریح:
جو شخص مجبوری کی صورت میں قرض لے اور ادائیگی کی نیت رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ اسے اسباب و وسائل اور ادا کرنے کی توفیق دے دیتا ہے اور جس کی نیت مال ہڑپ کرنے کی ہو تو اسے ادائیگی کے اسباب و وسائل میسر نہیں ہوتے اور اگر میسر ہو بھی جائیں تو دل کی تنگی کی وجہ سے ادا کرنے کی توفیق نہیں ملتی۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 721
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2411
´جس شخص نے قرض اس نیت سے لیا کہ اسے واپس نہیں لوٹانا ہے اس کی شناعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو لوگوں کا مال لے اور اس کو ہڑپ کرنا چاہتا ہو تو اس کو اللہ تباہ کر دے گا۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الصدقات/حدیث: 2411]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ضائع کرنے سے مراد یہ ہے کہ وہ اسے واپس نہیں کرنا چاہتا، مالک کے لحاظ سے یہ مال تباہ ہو گیا کیونکہ اسے واپس نہیں ملے گا۔
(2)
حرام طریقے سے حاصل کیے ہوئے مال میں برکت نہیں ہوتی۔
(3)
ایسے جرم کی سزا دنیا میں بھی مل سکتی ہے کہ اس شخص پرایسے حالات آ جائیں کہ وہ مفلس ہو جائے اورآخرت میں بھی سزا مل سکتی ہےکہ اس کے اعمال ضائع ہوجائیں یا قرض خواہ کو دے دیے جائیں اوروہ خود جہنم میں چلا جائے۔
یہ بہت بڑی تباہی ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2411