Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الشُّرْبِ والْمُسَاقَاةِ
کتاب: مساقات کے بیان میں
17. بَابُ الرَّجُلِ يَكُونُ لَهُ مَمَرٌّ، أَوْ شِرْبٌ فِي حَائِطٍ أَوْ فِي نَخْلٍ
باب: باغ میں سے گزرنے کا حق یا کھجور کے درختوں میں پانی پلانے کا حصہ۔
حدیث نمبر: 2384
حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ يَحْيَى، أَخْبَرَنَا أَبُو أُسَامَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الْوَلِيدُ بْنُ كَثِيرٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي بُشَيْرُ بْنُ يَسَارٍ مَوْلَى بَنِي حَارِثَةَ، أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ، وَسَهْلَ بْنَ أَبِي حَثْمَةَ حَدَّثَاهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنِ الْمُزَابَنَةِ بَيْعِ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ، إِلَّا أَصْحَابَ الْعَرَايَا فَإِنَّهُ أَذِنَ لَهُمْ". قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: وَقَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: حَدَّثَنِي بُشَيْرٌ مِثْلَهُ.
ہم سے زکریا بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو ابواسامہ نے خبر دی، کہا کہ مجھے ولید بن کثیر نے خبر دی، کہا کہ مجھے بنی حارثہ کے غلام بشیر بن یسار نے خبر دی، ان سے رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ اور سہل بن ابی حثمہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مزابنہ یعنی درخت پر لگے ہوئے کھجور کو خشک کی ہوئی کھجور کے بدلے بیچنے سے منع فرمایا، عریہ کرنے والوں کے علاوہ کہ انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی تھی۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ ابن اسحاق نے کہا کہ مجھ سے بشیر نے اسی طرح یہ حدیث بیان کی تھی۔ (یہ تعلیق ہے کیونکہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابن اسحاق کو نہیں پایا۔ حافظ نے کہا کہ مجھ کو یہ تعلیق موصلاً نہیں ملی۔)

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2384 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2384  
حدیث حاشیہ:
از خطیب الاسلام فاضل علام حضرت مولانا عبدالرؤف صاحب رحمانی ناظم جامعہ سراج العلوم جھنڈا نگر نیپال أدام اللہ فیوضهم کتاب المزارعۃ اور کتاب المساقاۃ کے خاتمہ پر اپنے ناظرین کرام کی معلومات میں مزید اضافہ کے لیے ہم ایک فاضلانہ تبصرہ درج کر رہے ہیں جو فضیلۃ الشیخ مولانا عبدالرؤف رحمانی زید مجدهم کی دماغی کاوش کا نتیجہ ہے۔
فاضل علامہ نے اپنے اس مقالہ میں مسائل مزارعت کو مزید احسن طریق پر ذہن نشین کرانے کی کامیاب کوشش فرمائی ہے۔
جس کے لیے مولانا موصوف نہ صرف میرے بلکہ جملہ قارئین کرام بخاری شریف کی طرف سے شکریہ کے مستحق ہیں۔
اللہ پاک اس عظیم خدمت ترجمہ و تشریحات صحیح بخاری شریف میں اس علمی تعاون و اشتراک پر محترم مولانا موصوف کو برکات دارین سے نوازے اور آپ کی خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے۔
مولانا خود بھی ایک کامیاب زمیندار ہیں۔
اس لیے آپ کی بیان کردہ تفصیلات کس قدر جامع ہوں گی، شائقین مطالعہ سے خود ان کا اندازہ کر سکیں، محترم مولانا کی تشریحات مفیدہ کا متن درج ذیل ہے۔
(مترجم)
زمین کی آبادی کاری کا اہتمام:
(1)
ملک کے تمام خام پیداوار اور اشیاءخوردنی کا دار و مدار زمین کی کاشت پر ہے۔
رسول اکرم ﷺ نے بھی زمین کے آباد و گلزار رکھنے کی ترغیب دی ہے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا مَنِ اشتری قریة یعمرهَا کَانَ حقا علی اللہِ عونُه۔
یعنی جو شخص کسی گاؤں کو خرید کر اس کو آباد کرے گا۔
تو اللہ تعالیٰ اس کی ہر طرح سے مدد کرے گا (منتحب کنزل العمال، جلد دوم، ص 128)
اسی طرح کتاب الخراج میں قاضی ابویوسف ؓ نے رسول اکرم ﷺ کی ایک حدیث نقل کی ہے فمَن أحیَا أرضا مَیتا فهِيَ لهُ و لیس بمحتجر حق بعد ثلث۔
یعنی جس شخص نے کسی بنجر و افتادہ زمین کی کاشت کر لی تو وہ اسی کی ملکیت ہے۔
اور بلاکاشت کئے ہوئے روک رکھنے والے کا تین سال کے بعد حق ساقط ہو جاتا ہے۔
(کتاب الخراج، ص: 72)
(2)
امام بخاری ؒ نے ایک حدیث نقل فرمائی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر قیامت قائم ہو جانے کی خبر مل جائے اور تم میں سے کسی کے ہاتھ میں کوئی شاخ اور پودا ہو تو اسے ضائع نہ کرے۔
بلکہ اسے زمین میں گاڑ اور بٹھا کر دم لے۔
(الأدب المفرد ص: 69)
ایک روایت میں ا س طرح وارد ہے کہ اگر تم سن لو کہ دجال کانا نکل چکا ہے اور قیامت کے دوسرے سب آثار و علامات نمایاں ہو چکے ہو اور تم کوئی نرم و نازک پودا زمین میں بٹھانا اور لگانا چاہتے ہو تو لگا دو۔
اور اس کی دیکھ بھال اور نشو و نما کے انتظامات میں سستی نہ کرو۔
کیوں کہ وہ بہرحال زندگی کے گزران کے لیے ایک ضروری کوشش ہے۔
(الأدب المفرد، ص 69)
انتباہ:
ان روایات میں غور کرنے سے صاف طور پر پتہ چلتا ہے کہ زمین کی پیداوار حاصل کرنے کے لیے اور پھل دار درختوں اور غلہ والے پودوں کو لگانے کے لیے کس قدر عملی اہتمام مقصود ہے کہ مرتے مرتے اور قیامت ہوتے ہوئے بھی انسان زراعتی کاروبار اور زمینی پیداوار کے معاملہ میں ذار بھی بے فکری اور سستی ولاپرواہی نہ برتے۔
کیا زراعت کا پیشہ ذلیل ہے؟ ان حالات کی موجودگی میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ زراعت کا پیشہ ذلیل ہے۔
حضرت ابوامامہ باہلی ؓ سے ایک حدیث مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہل اور کھیتی کے بعض آلات کو دیکھ کر فرمایا کہ لَا یَدخلُ هذا بیت قوم إلا أَدخلَهُ اللہُ الذِلَ یعنی جس گھر میں یہ داخل ہوگا اس میں ذلت داخل ہو کر رہے گی۔
لیکن شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اور امام بخاری ؒ کی توجیہ کی روشنی میں اس کا مطلب یہ ہے کہ کھیتی کا پیشہ اس قدر ہمہ وقتی مشغولیت کا طالب ہے کہ جو اس میں منہمک ہو گا وہ اسلامی زندگی کے سب سے اہم کام جہاد کو چھوڑ بیٹھے گا اور اس سے بے پروا رہے گا اور ظاہر ہے کہ ترک جہاد، شوکت و قوت کے اعتزال کے مترادف ہے۔
بہرحال اگر کھیتی کی مذمت ہے تو اس کی ہمہ گیر مصروفیت کے سبب کہ وہ اپنے ساتھ بے حد مشغول رکھ کر دوسرے تمام اہم مقاصد سے غافل و بے نیاز کر دیتی ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ ؒ اسی فلسفہ کے ماتحت لکھتے ہیں فإذا ترکوا الجهاد و اتبعوا أذناب البقر أحاط بهم الذل و غلبت علیهم أهل سائر الأدیان۔
(حجة اللہ البالغة، جلد ثانی، ص: 173)
یعنی کاشتکار بیلوں کی دم میں لگ کر جہاد وغیرہ سے غافل ہوجاتے ہیں اور ان پر ذلت محیط ہو جاتی ہے۔
اور جہاد سے کاشتکاروں اور زمینداروں کی غفلت ان کی رہی سہی شوکت و قوت کو ختم کر دیتی ہے۔
اور ان پر تمام ادیان اور مذاہب اپنا تسلط جما لیتے ہیں۔
لیکن اگر جہاد یا دین کے دوسرے اہم مقاصد سے صرف نظر نہ ہو تو آبادی زمین اور کاشتکاری خود اہم مقاصد میں سے ہے۔
چنانچہ رسول اکرم ﷺ نے خود بھی لوگوں کو مختلف زمینوں کو بطور جاگیر عطا فرمایا کہ اسے آباد و گلزار رکھیں اور خلق خدا اور خود اس سے مستفید ہوں۔
زمین کا آباد رہنا اور عوامی ہونا اصل مقصد ہے:
(1)
حضرت عمر ؓ نے جب زراعت کی طرف خصوصی توجہ فرمائی تو کچھ لوگوں نے ایسی جاگیروں کے بعض افتادہ حصص کو آباد کر لیا تواصل مالکان زمین نالش کے لیے دربار فاروقی میں حاضر ہوئے۔
تو حضرت عمر نے فرمایا تم لوگوں نے اب تک غیر آبا دچھوڑے رکھا۔
اب ان لوگوں نے جب اسے آباد کر لیا تو تم ان کو ہٹانا چاہتے ہو۔
مجھے اگر اس امر کا احترام پیش نظر نہ ہوتا کہ تم سب کو حضور ﷺ نے جاگیریں عنایت کی تھیں تو تم لوگوں کو کچھ نہ دلاتا۔
لیکن اب میرا فیصلہ یہ ہے کہ اس کی آبادی کاری اور پرتی توڑائی کا معاوضہ اگر تم دے دو گے تو زمین تمہارے حوالے ہو جائے گی۔
اور اگر ایسا نہیں کرسکتے تو زمین کے بغیرآباد حالت کی قیمت دے کر وہ لوگ اس کے مالک بن جائیں گے۔
فرمان کے آخری الفاظ یہ ہیں وإن شئتم ردوا علیکم ثمن أدیم الأرض ثم هي لهم (کتاب الأموال، ص389)
اس کے بعد عام حکم دیا کہ جس نے کسی زمین کو تین برس تک غیر آباد رکھا تو جو شخص بھی اس کے بعد اسے آباد کرے گا، اس کی ملکیت تسلیم کر لی جائے گی۔
(کتاب الخراج:
ص72)

اس حکم کا خاطر خواہ اثر ہوا اور بکثرت بے کار و مقبوضہ محض زمینیں آباد ہو گئیں۔
(2)
رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو ایک لمبی زمین جاگیر کے طور پر عطا فرمائی تھی۔
حضرت عمر ؓ نے اس کے آباد کئے ہوئے حصہ کو چھوڑ کر بقیہ غیر آباد زمین اس سے واپس لے لی (کتاب الخراج:
ص78)

(3)
حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت طلحہ ؓ کو (قطیعہ)
ایک جاگیر عطا فرمائی تھی اور چند اشخاص کو گواہ بنا کر حکم نامہ ان کے حوالہ کر دیا۔
گواہوں میں حضرت عمر ؓ بھی تھے۔
حضرت طلحہ ؓ جب دستخط لینے کی غرض سے سیدنا فاروق اعظم کے پاس پہنچتے ہیں، تو فاروق اعظم نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا اور فرمایا أهذا کله لکن دون الناس کیا یہ پوری جائیداد تنہا تم کو مل جائے گی۔
اور دوسرے لوگ محروم رہ جائیں۔
حضرت طلحہ ؓ غصہ میں بھرے ہوئے حضرت ابوبکر ؓ کے پاس پہنچے اور کہنے لگے واللہ لا أدري أنت الخلیفة أم عمر میں نہیں جانتا کہ اس وقت آپ امیر المومنین ہیں یا عمر؟ سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا:
عمر و لکن الطاعة لي۔
ہاں ان شاءاللہ العزیز آئندہ عمر فاروق ہی امیر المومنین ہوں گے۔
البتہ اطاعت میری ہوگی۔
الغرض سیدنا فاروق اعظم کی مخالفت کی بنا پر وہ جاگیر نہ پاسکے۔
(منتخب کنز العمال، جلد چہار، ص390، و کتاب الأموال، ص: 276)
(4)
اس طرح عیینہ بن حصن ؓ کو صدیق اکبر ؓ نے ایک جاگیر عطا فرمائی۔
جب دستخط کرانے کی غرض سے حضرت عمر ؓ کے پاس آئے تو حضرت فاروق نے دستخط کرنے سے انکار ہی پربس نہ کیا بلکہ تحریرشدہ سطروں کو مٹا دیا۔
عیینہ ؓ دوبارہ صدیق اکبر ؓ کے پا س آئے اور یہ خواہش ظاہر کی کہ دوسرا حکم نامہ ارقام فرما دیا جائے تو حضرت ابوبکر نے برملا فرمایا واللہ لا أجدد أشیاءردہ عمر قسم خدا کی وہ کام دوبارہ نہیں کروں گا جس کو عمر ؓ نے رد کیا ہو۔
(منتخب کنزل العمال، جلد چہارم ص219)
اسی سلسلہ میں ابن الجوزی ؒ نے مزید یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت عمر ؓ بڑی تیزی میں حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آکر کہنے لگے کہ یہ جاگیر و اراضی جو آپ ان کو دے رہے ہیں، یہ آپ کی ذاتی زمین ہے یا سب مسلمانوں کی ملکیت ہے؟ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا، یہ سب کی چیز ہے۔
حضرت عمر ؓ نے پوچھا تو پھر آپ نے کسی خاص شخص کے لیے اتنی بڑی جاگیر کو مخصوص کیوں کیا؟ حضرت ابوبکر ؓ نے کہا میں نے ان حضرات سے جو میرے پاس بیٹھتے ہیں، مشورہ لے کر کیا ہے۔
حضرت عمر ؓ نے فرمایا، یہ سب کے نمائندہ نہیں ہوسکتے۔
(سیرت عمرابن الخطاب ص: 40، و إصابة لابن حجر رحمة اللہ علیه، جلد:
ثالث، ص 56)

بہرحال ان کے اس شدید انکار کی وجہ حضرت عمر ؓ کے ان الفاظ میں تلاش کی جاسکتی ہے۔
أهذا کله لك دون الناس کیا دیگر افراد کو محروم کرکے یہ سب کچھ تمہیں کو مل جائے گا۔
(منتخب کنزالعمال، جلد چہارم، ص 371، و کتاب الأموال ص: 277)
ان روایات سے معلوم ہوا کہ مفاد عامہ کی چیز کسی شخص واحد کے لیے قانونا مخصوص نہیں کی جاسکتی، کوئی جاگیر یا جائیداد شخص واحد کو صرف اسی قدر ملے گی جتنا وہ سر سبز شاداب اور آبا درکھ سکے۔
درحقیقت رسول پاک ﷺ اور شیخین ؓ کا منشاءیہ تھا کہ قطعات لوگوں کو دے کر زمینوں کو زیر کاشت لایا جائے تاکہ خلق خدا کے لیے زیادہ سے زیادہ غلہ مہیا ہو سکے۔
مگر یہ بات ہر وقت ملحوظ خاطری رہنی چاے کہ زمین صرف امراءکے ہاتھوں میں پڑ کر عیش کوشی اور عشرت پسندی کا سبب نہ بن سکے۔
یا بیکار نہ پڑی رہے، اس لیے احتیاط ضروری تھی کہ زمین صرف ان لوگوں کو دی جائے جو اہل تھے اور صرف اسی قدر دی جائے جتنی وہ بار آور کر سکتے ہوں۔
بہرحال پبلک کے فائدہ کے لیے بیکار اور زائد کاشت زمین حکومت اسلامی اپنے نظم میں لے لیتی ہے تاکہ اس کو مستحقین میں تقسیم کیا جاسکے۔
انگریزی دور حکومت میں رواج تھا کہ لوگ زمینوں پر سیر خود کاشت لکھا کر اور فرضی ناموں سے اندراج کرا کے زمینوں پر قابض رہتے تھے۔
اور اس سے دوسرے لوگوں کا نفع اٹھانا شخص واحد کی نامزدگی کی وجہ سے ناممکن تھا۔
ملک میں زرعی زمینوں پر قبضۃ المحض ہونے اور ساری زمینوں کے زیر کاشت نہ آسکنے کے باعث قحط اور پیداوار کی کمی برابر چلی آتی رہی۔
اسلام کا منشاءیہ ہے کہ جتنی کاشت تم خود کر سکو اتنی ہی اراضی پر قابض رہو۔
یا جتنی آبادی مزدوروں اور ہلواہوں کے ذریعہ زیر کاشت لا سکتے ہو بس اسی پر تصرف رکھو باقی حکومت کے حوالہ کر دو۔
اسلامی حکومت کو حق ہے کہ مالک اور زمیندار کو یہ نوٹس دے دے کہ إن عجزت عن عمارتها عمرناها وزرعناها۔
اگر اس زمین کے آباد کرنے کی صلاحیت تجھ میں نہیں ہے تو ہم اس زمین کو آباد کریں گے حکومت کے نوٹس کے ان الفاظ کو نقل کرکے علامہ ابوبکر جصاص نے لکھا ہے:
کذالک یفعل الإمام عندنا بأراضي العاجز عن عمارتها، اپنی زمین کی آبادی سے جو معذور ہوں، ان کی زمینوں کے متعلق امام کو یہی کرنا چاہئے (أحکام القرآن جلد: 3 ص532)
اور اس قسم کے گشتی فرامین حکومت کی طرف سے جاری بھی ہوا کرتے تھے، مثلاً عمر بن عبدالعزیز ؒ کے فرمان کے الفاظ اسی سلسلہ میں کتابوں میں نقل کئے گئے ہیں کہ اپنے گورنروں کو لکھا کرتے تھے لا تدعوا الارض خرابا (محلی ابن حزم، جلد: 8 ص: 216)
زمین کو ہرگز غیر آباد نہ چھوڑنا۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز اسی لیے اپنے عمال کو بار بار تاکید کے ساتھ لکھا کرتے تھے کہ نصف محاصل پر کسان کو زمینوں کا بندوبست کرو۔
اگر تیار نہ ہوں تو فأعطوها بالثلث فإن لم یزرع فأعطوها حتی یبلغ العشر تہائی پر بندوست کردو اگر پھر بھی آباد نہ ہو تو دسویں حصہ کی شرط پر دے دو اور آخر میں یہ اجازت دے دی کہ فإن لم یزرعها أحد فامنحها یعنی پھر بھی کوئی کسی زمین کو آباد نہ کرے تو لوگوں کو یونہی مفت آباد کرنے کو دے دو۔
اور اگر زمین کو مفت لینے پر بھی کوئی آمادہ نہ ہو تو حضرت عمر بن عبدالعزیز کا حکم یہ تھا فإن لم یزرع فانفق علیها من بیت مال المسلمین۔
یعنی حکومت کے خزانہ سے خرچ کرکے غیر آباد زمینوں کو آباد کرو۔
بہرحال زمین کی آبادکاری کے لیے کوئی ممکن صورت ایسی باقی نہیں رہی جو چھوڑ دی گئی۔
۔
حضرت عمر ؓ نے نجران کے سودخوار سرمایہ داروں کو معاوضہ دے کر زرعی زمینوں کو حاصل کرکے مقامی کاشتکاروں کے ساتھ بندوبست کر دیا تھا۔
چنانچہ حافظ ابن حجر ؒ نے اسی موقعہ پر حضرت عمر ؓ کا فرمان نقل کیا ہے۔
إن جاوا بالبقر و الحدید من عندهم فلهم الثلثان و لعمر الثلث و إن جاءعمر بالبذر من عندہ فله الشطر (فتح الباري، جلد: 5 ص 9)
اگر بیل اور لوہا (ہل بیل)
کسانوں کی طرف سے مہیا کیا جائے توان کو پیداوار کا دو تہائی ملے گا۔
اور عمر (حکومت)
کو تہائی اور بیج کا بندوبست اگر عمر (کی حکومت)
کرے تو کسانوں کو نصف حصہ ملے گا۔
اس واقعہ سے آبادی زمین اور انصاف و رعایت بحق رعایا کا حال خوب واضح ہوا۔
(5)
ایک زمین قبیلہ مزینہ کے کچھ افراد کو ملی ہوئی تھی۔
ان لوگوں نے اس جاگیر کو یونہی چھوڑ رکھا تھا۔
تو دوسرے لوگوں نے اس کو آباد کرلیا۔
مزینہ کے لوگوں نے حضرت عمر سے اس کی شکایت کی۔
حضرت عمر نے فرمایا کہ جو شخص تین برس تک زمین یونہی چھوڑ رکھے گا اور دوسرا کوئی شخص اسے آباد کرے تو یہ دوسرا ہی اس زمین کا حق دار ہوجائے گا۔
(الأحکام السلطانیة للماروري، ص182)
(6)
حضرت بلال بن حارث مزنی ؓ سے سیدنا فاروق اعظم ؓ نے فرمایا:
فخذ منها ما قدرت علی عمارتها یعنی جو زمین تم کو رسول پاک ﷺ نے عطا فرمائی ہے اس میں سے جس قدر تم آباد رکھ سکتے ہو اسے اپنے پاس رکھو۔
لیکن جب وہ پوری اراضی کو آباد نہ کرسکے تو باقی ماندہ زمین کو فاروق اعظم نے دوسرے مسلمانوں میں تقسیم کر دیا۔
اور حضرت بلال سے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے تم کو اراضی اس مقصد کے پیش نظر دی تھی کہ اس سے تم فائدہ اٹھاؤ۔
آنحضرت ﷺ کا مقصد یہ تو نہ تھا کہ تم خواہ مخواہ قابض ہی رہو۔
(تعلیق کتاب الأموال ص290 بحوالہ ابوداود و مستدرك حاکم و خلاصة الوفاءص237)
(نوٹ)
اس بلال ؓ سے بلال ؓ موذن رسول مراد نہیں ہیں بلکہ بلال بن ابی رباح ہیں۔
(استعیاب) (7)
حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے دور حکومت میں بھی اس قسم کا ایک واقعہ پیش آیا تھا کہ ایک شخص نے زمین کو غیر آباد سمجھ کر اس کو آباد کرلیا۔
زمین والے کو اس کی اطلاع ملی تو نالش لے کر حاضر ہوا۔
آپ نے فرمایا کہ اس شخص نے جو کچھ زمین کے سلسلہ محنت مزدوری صرف کی ہے اس کا معاوضہ تم ادا کردو۔
گویا اس نے یہ کام تمہارے لیے کیا ہے۔
اس نے کہا کہ اس کے مصارف ادا کرنے کی مجھ میں طاقت نہیں ہے۔
تو آپ نے مدعی علیہ سے فرمایا:
ادفع إلیه ثمن أرضه یعنی تم اس کی قیمت ادا کرکے اس کے مالک بن جاؤ اور اب کھیت کو سرسبز و شاداب رکھو۔
(کتاب الأموال ص289)
یہ فیصلے بتلاتے ہیں کہ ان حضرات کا منشاءیہ تھا کہ زمین کبھی غیر آباد اور بیکار نہ رہنے پائے اور ہر شخص کے پاس اتنی ہی رہے جتنی خودکاشت کر سکے یا کرا سکے۔
ان واقعات کی روشنی میں اب گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ زمین کے وہ بڑے بڑے ٹکڑے جو ایسے زمینداروں کے قبضے میں ہوں جن کی کاشت نہ وہ خود کرتے ہیں، نہ مزدوروں کے ذریعہ ہی کراتے ہیں۔
بلکہ فرضی سیر و فرضی خود کاشت کے فرضی اندراجات کے ذریعہ ان جاگیروں پر قابض رہنا چاہتے ہیں۔
ایسے زمینداروں کے اس ظالمانہ قبضہ کے لیے شریعت اسلامیہ میں کوئی جواز نہیں ہے۔
زمینداروں، جاگیرداروں کے نظام میں پہلے عموماً جاگیردار اور تعلقہ دار ایسی ایسی زمینوں پر قابض رہتے تھے اور پٹواری کے کھاتوں میں سیر خود کاشت کا فرضی اندراج کراتے تھے، حالانکہ درحقیقت ان کی کاشت نہ ہوتی تھی۔
زمین کی آباد کاری کے لیے بلاسودی قرضہ کا انتظام:
آج کے دور میں حکومت کاشتکاروں کے سدھار کے لیے بیج و غیرہ کی سوسائٹی کھول کر سودی قرضہ پر کھیتی کے آلات، زراعت اور بیج وغیرہ تقسیم کرتی ہے۔
لیکن خلاف راشدہ میں یہ بات نہ تھی۔
بلکہ وہ غیر مسلم رعایا کو بھی کھیتی کی ضروریات و فراہمی آلات کے لیے بلا سودی رقم دیتی تھی۔
حضرت عمر بن عبدالعزیز نے عراق، کوفہ و بصرہ کے حکام کے نام فرمان بھیجا تھا کہ بیت المال کی رقم سے ان غیر مسلم رعایا کی امداد کرو جو ہمیں جزیہ دیتے ہیں۔
اور کسی تنگی و پریشانی کے سبب اپنی زمینوں کو آبا دنہیں کرسکتے۔
تو ان کی ضروریات کے مطابق ان کو قرض دو۔
تاکہ وہ زمین آباد کرنے کا سامان کر لیں، بیل خرید لیں، اور تخم ریزی کا انتظام کر لیں۔
اور یہ بھی بتا دو کہ ہم اس قرض کو اس سال نہیں لیں گے بلکہ دو سال بعد لیں گے۔
تاکہ وہ اچھی طرح اپنا کام سنبھال لیں (کتاب الأموال ص251، سیرت عمر بن عبدالعزیز ص 67)
زمین کی آبادکاری اور پیداوار کے اضافہ کے لیے پانی کا اہتمام:
غلہ کی پیداوار پانی کی فراہمی اور مناسب آب پاشی پر موقوف ہے۔
جب زمین کو چشموں اور نہروں کے ذریعہ پانی کی فراوانی حاصل ہوتی ہے تو غلہ سرسبز و شاداب ہو کر پیدا ہوتا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کاشتکار کی اس اہم ضرورت کا ہمیشہ لحاظ رکھا، چنانچہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ بن ابی وقاص کی ماتحتی میں اسلامی فوجوں نے سواد عراق کو فتح کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمان بھیجا کہ جائیداد منقولہ گھوڑے ہتھیار وغیرہ اور نقد کو لشکر میں تقسیم کرو، اور جائیداد غیر منقولہ کو مقامی باشندوں ہی کے قبضے میں رہنے دو، تاکہ اس کی مال گزاری، اور خراج سے اسلامی ضروریات اور سرحدی افواج کے مصارف اور آئندہ عسکری تنظیموں کے ضروری اخراجات فراہم ہوتے رہیں۔
اس موقع پر آپ نے زمینوں کی شادابی کے خیال سے فرمایا:
الأرض والأنهار لعمالها زمین اور اس کے متعلقہ نہروں کو موجودہ کاشتکاروں ہی کے قبضہ میں رہنے دو۔
(کتاب الأموال ص 59، سیرت عمر لابن الجوزي ص 80، مشاہیر الاسلام جلد اول، ص 317)
غلہ کی پیداوار اورآبپاشی کی اہمیت کے سلسلہ میں ایک اور واقعہ بھی قابل ذکر ہے کہ ایک بار حضرت عمر کے سامنے ایک معاملہ پیش ہوا۔
محمد بن مسلمہ، ابن ضحاک کو اپنی زمین میں سے نہر لے جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔
حضرت عمر ؓ نے ان سے فرمایا کہ تم کو اجازت دے دینی چاہئے کیوں کہ وہ نہرتمہاری زمین سے ہو کر ان کی زمین میں جائے گی۔
تو اول و آخر اس سے تم بھی فائدہ اٹھا سکو گے۔
محمد بن مسلمہ نے اپنے فریق مدعی سے کہا کہ خدا کی قسم میں نہیں جانے دوں گا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا و اللہ لیمرن بہ و لو علی بطنک قسم خدا کی وہ نہر بنائی جا ئے گی تمہارے پیٹ پر سے ہو کر کیوں نہ گزرے۔
حتی کہ نہر جاری کرنے کا حکم دے دیا اور انہوں نے نہر نکالی (موطأ إمام محمد ص 382)
ان واقعات سے ظاہر ہے کہ خلافت راشدہ کے مبارک دور میں زمین کی آبپاشی اور پیداوار کے اضافہ ہی کے لیے پانی وغیرہ کے بہم رسانی کا ہر ممکن طور سے انتظام و اہتمام ہوتا رہا۔
بلا مرضی کاشت:
زمین کی آباد کاری کے سلسلہ میں بلا اجازت کاشت، بٹائی، دخل کاری وغیرہ سے متعلق چند ضروری باتیں عرض کی جاتی ہیں۔
اب سب سے پہلے سنئے کہ زمین والے کی بلا مرضی کاشت کی حقیقت شریعت میں کیا ہے۔
اس سلسلہ میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد گرامی موجود ہے:
''من زرع أرضا بغیر إذن أهلها لیس له من الزرع شيئ'' یعنی جس نے کسی کی زمین کو بلا اجازت جوت لیا، تو اس کو اس کھیتی سے کچھ حاصل نہ ہوگا۔
اس سے معلوم ہوا کہ زمین کی حیثیت عرفی کا احترام شریعت میں مد نظر ہے۔
پس اگر کوئی شخص اس کے غیر افتادہ اور آباد زمین پر یونہی قبضہ کرے تو اس کا تصرف قطعاً باطل ہے۔
لیکن بنجر وغیرآبادپرتی زمین جو مسلسل تین سال تک اگر مالک زمین اپنے تصرف و کاشت میں نہ لاسکے، اس کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔
دخل کاری:
اسی طرح دخل کاری کا موجودہ سسٹم بھی قطعاً باطل ہے۔
اسلام کبھی کاشتکار کو یہ اجازت نہ دے گا۔
کہ وہ اصل مالک زمین کی زمین پر پٹواری وغیرہ کی فرضی کاروائیوں کی بنا پر قبضہ جمالے۔
کاشتکار کی محنت و شرکت زمین کی پیداوار اور زمین کے منافع میں ہے نہ کہ اصل زمین کی ملکیت میں۔
اگر عدالت سے اس کے حق میں فیصلہ بھی ہو جائے، اور فرضی دلائل و شواہد اور پٹواریوں کے اندراجات و کاغذات کے بنا پر کوئی حاکم فیصلہ بھی کر دے تو وہ شرعاً باطل ہے۔
احادیث میں اس سلسلہ میں سخت وعید وارد ہے۔
ارشاد نبوی ہے:
و إنما تختصمون إلی و لعل بعضکم یکون ألحن بحجته من بعض فأقضي له علی نحو ما أسمع فمن قضیت له بحق أخیه فلا یأخدہ فأنا أقطع لهُ قطعة مِنَ النارِ (مشکوة جلد ثانی باب الأقضیة)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ حاکم کے ایسے کاغذات پٹواری وغیرہ کے فراہم کردہ شواہد کی بنا پر اگر کسی شخص کے لیے ایسی زمین کی ملکیت کا بنام دخل کاری فیصلہ ہو بھی جائے جو درحقیقت اس کی مملوکہ و زر خرید نہ تھی تو اس حاکم کا فیصلہ ہرگز اس زمین کو دخل کاری کے لیے حلال نہیں قرار دے سکتا۔
پٹواری سے ساز باز کرکے ایسی زمینوں پر قبضہ لکھانایا اپنی ملکیت دکھلانا جو درحقیقت زمیندار کی زر خرید ہے، اولاً حرام ہے اور ان اکاذیب و شہادات کاذبہ کی بنیاد پر اسے حلال سمجھنا حرام در حرام ہے۔
بٹائی:
آنحضرت ﷺ نے خیبر کو فتح کرکے وہاں کی زمین کو خیبر کے کسانوں کے سپرد فرمایا۔
بٹائی کے سلسلہ میں طے ہوا کہ نصف کاشتکار لیں گے اور نصف آنحضرت ﷺ لیں گے۔
جب کھجور پک کر تیار ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کو کھجور کا تخمینہ کرنے بھیجا۔
حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے فراخدلی کے ساتھ تخمینہ نکالا کہ اس منصفانہ تقسیم پر یہودی کاشتکار پکار اٹھے۔
بہذا قامت السموات و الارض کہ آسمان و زمین اب تک اسی قسم کے عدل و انصاف کی بنا پر قائم ہیں۔
انہوں نے پوری پیداوار کو چالیس ہزار وسق ٹھہرایا۔
اور پورے باغ کا دو مساوی حصہ بنا دیا اور ان کو اختیار دے دیا کہ اس میں سے جس حصہ کو چاہیں لے لیں۔
راوی کا بیان ہے کہ پھل توڑنے کے بعد ایک نصف کی پیداوار دوسرے نصف پر ذرہ برابر بھی زیادہ نہ نکلی۔
(کتاب الأموال ص482)
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ ؒ نے بھی بٹائی کو جائز لکھا ہے، فرماتے ہیں:
و المزارعة جائز في أصح قول العلماء و هي عمل السملمین علی عهد نبیهم و عهد خلفاءالراشیدین و علیها عمل آل أبي بکر و آل عمر و آل عثمان و آل علي رضي اللہ عنهم و غیرهم و هي قول أکابر الصحابة و هي مذهب فقهاءالحدیث و أحمد بن حنبل و ابن راهویه و البخاري و ابن خزیمة و غیرهم و کان النبي صلی اللہ علیه وسلم قد عامل أهل خیبر بشطر ما یخرج منها من ثمر و زرع حتی مات۔
(الحسبة في الإسلام، ص: 20)
اس کا حاصل یہ ہے کہ بٹائی کھیتی جائز ہے عہد نبوی و عہد خلفاءراشدین و صحابہ ؓ میں اس طرح کا تعامل موجود ہے۔
زمین سے شریعت کو پیداوار حاصل کرنا مقصود ہے۔
زمین کبھی معطل و بیکار ہاتھوں میں پڑی نہ رہے اس لیے یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی مجبوری سے اپنی زمین فروخت کرنے لگے تو اپنے دوسرے پڑوسی کاشتکار سے سب سے پہلے پوچھے۔
آنحضرت ﷺ کا فرمان ہے کہ جس شخص کے پاس زمین یا کھجور کے باغات ہوں اور ان کو وہ فروخت کرنا چاہتا ہو تو اس کو سب سے پہلے اپنے شریک پر پیش کرے۔
(مسند أحمد جلد3 ص 307)
اسی طرح اگر شرکت میں کھیتی ہو اور کوئی شخص اپنا حصہ فروخت کرنا چاہے تو ا س پر لازم ہے کہ پہلے اپنے شریک کو پیش کرے اس لیے کہ وہ اول حق دار ہے۔
(مسند أحمد، جلد 3ص 381)
یہاں یہ مقصد ہے کہ دوسرا آدمی آلات حرث و انتظامات اور وسائل فراہم کرے گا۔
ممکن ہے جلد مہیا نہ ہو اور اس کے پڑوسی کے پاس جب کہ تمام آلات و اسباب فراہم ہیں تو زمین کے بار آور وزیر کاشت ہونے کے لیے یہاں زیادہ اطمینان بخش صورت موجود ہے۔
اس لیے پہلے یہ زمین اس پڑوسی کو پیش کرنا لازم ہے۔
کاشتکاری کے لیے ترغیب:
(11)
زمینی پیداورا کے سلسلہ میں حضرت عمر ؓ نے مختلف انداز میں توجہ دلائی ہے۔
چنانچہ کچھ لوگ یمن سے آئے ہوئے تھے، حضرت عمر نے ان سے پوچھا، تم کون لوگ ہو؟ جواب دیا کہ ہم لوگ متوکل علی اللہ ہیں۔
فرمایا، تم لوگ ہرگز متوکل علی اللہ نہیں ہوسکتے۔
انما المتوکل رجل القبی فی الارض و توکل علی اللہ متوکل وہ شخص ہے جو زمین میں ہل چلا کے اسے ملائم کرکے اس میں بیج ڈالے، پھر اس کے نشو ونما و برگ و بار کے معاملہ کو خدا کے سپرد کردے۔
(منتخب کنز العمال، جلد: 2 ص: 216)
مطلب یہ ہے کہ جو لوگ عمل کریں اور نتیجہ عمل کو خدا کے سپرد کردیں وہی لوگ دراصل متوکل ہیں۔
کاشتکاری کی تمثیل ترعیب پر دلالت کرتی ہے اور ساتھ ہی یہ حقیقت بھی ہے کہ حقیقی توکل کی مثال کاشتکار کی زندگی و سپردگی میں ملاحظہ کی جاتی ہے۔
بیج کی پرورش ہوا، پانی میں آسمان کی طرف نظر، آفتاب و ماہتاب سے مناسب تمازت و ٹھنڈک کی ملی جلی کیفیتوں کا جس قدر احتیاج کسان (کاشتکار)
کو ہے اور جس طرح قلبہ رانی کے بعد کسان اپنے تمام معاملات از اول تا آخر خدا کے سپرد کرتا ہے یہ بات کسی شعبہ میں اس حد تک نہیں ہے۔
علامہ غزالی ؒ نے لکھا ہے کہ کھیتی باڑی، تجارت و زراعت وغیرہ سے الگ ہونا اور متعلقہ امور معاش کا اہتمام چھوڑ دینا حرام ہے۔
اور اس کا توکل نام رکھنا غلط ہے۔
(إحیاءالعلوم جلد رابع ص 265)
(12)
زمین کی آبادی و کاشتکاری کا حکم حضرت عمر ؓ نے بھی دیا ہے۔
ابوظبیان نامی ایک شخص سے آپ نے پوچھا کہ تم کو کس قدر وظیفہ بیت المال سے ملتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ ڈھائی ہزار درہم۔
آپ نے فرمایا کہ یا أباظبیانَ اتخذ من الحرث۔
یعنی اے ابوظبیان! کھیتی کا سلسلہ قائم رکھو۔
وظیفہ پر بھروسہ کرکے کاشتکاری سے غفلت نہ کرو۔
(الادب المفرد ص84)
(13)
ایک بار حضرت عمر نے قیدیوں کے متعلق فرمایا کہ تحقیقات کرکے کاشتکار و زراعت پیشہ افراد کو سب سے پہلے رہا کرو۔
حکم کے الفاظ یہ ہیں۔
خلوا کل اکار و زراع (منتخب کنز العمال جلد2 ص323)
یہ عام قیدیوں سے صرف کاشتکار کی فوری رہائی کا بندوبست اس لیے فرمایا جارہا ہے کہ ملک کے عوامی فلاح کا دار و مدار غلہ و اجناس کی عام پیداوار پر ہے۔
ہمارے یہاں نیپال میں تمام مقدمات کی کھیتی زمانہ میں لمبی تاریخیں دے کر ملتوی کر دی جاتی ہیں تاکہ کاشتکار اپنے مکان پر واپس جاکر فراغت سے کھیتی سنبھال سکیں۔
لے اڑی طرز فغاں بلبل نالاں ہم سے گل نے سیکھی روش چاک گریباں ہم سے (14)
ایک بار حضرت عمر نے زید بن مسلمہ کو دیکھا کہ زمین کو آباد کر رہے ہیں، تو حضرت عمر نے فرمایا:
اصت استغن عن الناس یکن أصون لدینك و أکرم علیهم یعنی یہ تم بہت اچھا کر رہے ہو۔
اسی طرح وجہ معاش کا انتظام ہو جانے سے دوسروں سے تم کو استغناءحاصل ہو جائے گا اور تمہارے دین کی حفاظت ہوگی اور اس طرح لوگوں میں تمہاری عزت بھی ہوگی۔
یہ فرما کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ شعر پڑھا۔
فلن ازل علی الزوراءاعمرہا ان الکریم علی الاخوان ذومال (إحیاءالعلوم جلد2 ص 64)
(15)
حضرت عثمان ؓ کے زمانہ میں جب وظائف پر بھروسہ ہونے لگا، تو آپ نے بھی حکم دیا و من کان له منکم ضرع فلیلحق بضرعه و من له زرع فلیلحق بزرعه فإنا لا نعطي مال اللہ إلا لمن غزا في سبیله (الإمامة و السیاسة، جلد اول ص33)
یعنی جس کے پاس دودھ والے جانور ہوں وہ اپنے ریوڑ کی پرورش سے اپنے معاش کا انتظام کرے اور جس کے پاس کھیت ہو وہ کھیتی میں لگ کر اپنی ضرورتوں کا انتظام کرلے۔
وظیفہ پر بھروسہ کرنے کے سبب سے سارا نظام معطل ہو جائے گا۔
اس لیے اب یہ مال صرف مجاہد و غازی سپاہیوں کے لیے مخصوص رہے گا۔
چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی سخ نامی مقام میں اپنی زمین داری کا کاروبار کرتے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ خود بھی کاشت کراتے تھے۔
(بخاري، کتاب المزارعة)
حضرت عمار بن یاسر ؓ و حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ وغیرہ نے بھی مختلف جاگیروں کو بٹائی پر دے رکھا تھا۔
(کتاب الخروج ص73)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2384   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2384  
حدیث حاشیہ:
(1)
جب عریہ کا دینا جائز ہے تو خواہ مخواہ عریہ والا اپنے پھلوں کی حفاظت کے لیے باغ میں جائے گا، اس لیے اسے راستہ اور پانی کا حصہ ملنا چاہیے۔
(2)
عریہ یہ ہے کہ ایک شخص دو تین کھجور کے درخت وقتی طور پر لے لے، پھر کسی اندازہ کرنے والے کو بلائے وہ اندازہ کرے کہ درخت پر جو تازہ کھجور ہے، وہ خشک ہونے کے بعد اتنی رہ جائے گی، اندازہ کردہ خشک کھجور لے کر درخت کی تازہ کھجور فروخت کر دے۔
ایسا کرنا درست ہے، حالانکہ کھجور کو کھجور کے عوض اندازہ کر کے فروخت کرنا درست نہیں کیونکہ نقصان اور دھوکے کا اندیشہ ہے مگر عریہ والے چونکہ محتاج ہوتے ہیں تو ان کی ضرورت کے پیش نظر محدود مقدار میں اس کی خریدوفروخت کو جائز قرار دیا گیا ہے۔
اس کے متعلقہ دیگر مباحث کتاب البیوع میں بیان ہو چکے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2384