سنن نسائي
كتاب الجنائز
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
84. بَابُ : مُوَارَاةِ الْمُشْرِكِ
باب: کافر و مشرک کو دفن کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2008
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ، قال: حَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ نَاجِيَةَ بْنِ كَعْبٍ، عَنْ عَلِيٍّ، قال: قُلْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ عَمَّكَ الشَّيْخَ الضَّالَّ مَاتَ، فَمَنْ يُوَارِيهِ؟ قَالَ:" اذْهَبْ فَوَارِ أَبَاكَ وَلَا تُحْدِثَنَّ حَدَثًا حَتَّى تَأْتِيَنِي"، فَوَارَيْتُهُ ثُمَّ جِئْتُ فَأَمَرَنِي فَاغْتَسَلْتُ وَدَعَا لِي وَذَكَرَ دُعَاءً لَمْ أَحْفَظْهُ.
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: آپ کے بوڑھے گم کردہ راہ چچا (ابوطالب) مر گئے ہیں، انہیں کون دفن کرے؟ آپ نے فرمایا: ”تم جاؤ اور اپنے باپ کو دفن کر دو اور کوئی نئی چیز نہ کرنا جب تک میرے پاس لوٹ نہ آنا“، چنانچہ میں انہیں دفن کر آیا، تو آپ نے میرے لیے (نہانے کا) حکم دیا، میں نے غسل کیا، اور آپ نے مجھے دعا دی۔ راوی ناجیہ بن کعب کہتے ہیں: اور علی رضی اللہ عنہ نے ایک ایسی دعا کا ذکر کیا جسے میں یاد نہیں رکھ سکا۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 190 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: حسن
سنن نسائی کی حدیث نمبر 2008 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2008
اردو حاشہ:
(1) آپ کے چچا ابوطالب باوجود آپ کی کوششوں کے اسلام قبول کیے بغیر ہی فوت ہوگئے۔ اس بات کا آپ کو اور حضرت علی کو بہت صدمہ تھا۔ جس کا اظہار مندرجہ بالا الفاظ سے ہو رہا ہے۔ ویسے وہ آپ کا بھرپور ساتھ دیتے رہے اور کفار کے سامنے ڈھال بنے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی ان سے عذاب میں تخفیف فرمائے گا۔
(2) ”دفن کرو“ کافر رشتہ دار کو بھی دفن کیا جائے گا،،خصوصاً جبکہ وہ والد ہو تو پھر احترام کے ساتھ دفن کرنا ہوگا۔ ﴿وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا﴾ (لقمان: 15:31) البتہ مسنون تکفین و تدفین صرف مسلمان کے لیے ہوگی، نیز کافر کی قبر مسلمانوں کی قبروں سے الگ جگہ ہونی چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2008
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 190
´مشرک کو دفنانے کے بعد غسل کرنے کا بیان۔`
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے: ابوطالب مر گئے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ انہیں گاڑ دو“ تو انہوں نے کہا: وہ شرک کی حالت میں مرے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ انہیں گاڑ دو“، چنانچہ جب میں انہیں گاڑ کر آپ کے پاس واپس آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”غسل کر لو۔“ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 190]
190۔ اردو حاشیہ:
➊ اس روایت سے صراحتاً معلوم ہوتا ہے کہ ابوطالب کفر و شرک پر فوت ہوئے۔ بیٹے اور بھتیجے سے بڑھ کر کس کی گواہی معتبر ہے؟
➋ اگر کوئی شخص کفر و شرک پر فوت ہوا ہو تو اس کے مسلمان ورثاء پر یہ حکم عائد ہوتا ہے کہ اس کی لاش کو دفنا دیں لیکن اس کے کفن دفن میں اسلامی طریقۂ کار اختیار نہ کیا جائے بلکہ غیرمسنون طریقے سے دھونے اور ڈھانپنے کے بعد اس کی لاش کو دبا دیا جائے۔ مسنون وضو، غسل، مسنون کفن، قبلے رخ اور دعاؤں وغیرہ سے اجتناب کیا جائے۔
➌ چونکہ کافر پلید ہے، مرنے کے بعد مزید پلید ہو جاتا ہے، لہٰذا اسے نہلانے اور دبانے کے بعد غسل کیا جائے تاکہ جو چھینٹے جسم یا کپڑوں پر پڑے ہیں، ان کا ازالہ ہو جائے۔ اکثر اہل علم نے اس غسل کو استحباب پر محمول کیا ہے مگر غسل کی علت کا لحاظ کیا جائے، خصوصاً جبکہ غسل کرنے کا حکم بھی ہے تو اسے واجب کہنا ہی اقرب الی الصواب معلوم ہوتا ہے۔ واللہ أعلم۔
➍ اپنے قریبی رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے اگرچہ وہ کافر ہی ہوں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 190
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3214
´مسلمان کا مشرک رشتہ دار مر جائے تو کیا کرے؟`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ کا بوڑھا گمراہ چچا مر گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ اور اپنے باپ کو گاڑ کر آؤ، اور میرے پاس واپس آنے تک بیچ میں اور کچھ نہ کرنا“، تو میں گیا، اور انہیں مٹی میں دفنا کر آپ کے پاس آ گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے غسل کرنے کا حکم دیا تو میں نے غسل کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے دعا فرمائی۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3214]
فوائد ومسائل:
1۔
یہ واضح دلیل ہے۔
کہ رسول اللہ ﷺ کے چچا ابو طالب کی وفات اسلام پرنہیں ہوئی۔
بلکہ کفر پرہوئی ہے۔
اسلئے ان کی نماز جنازہ بھی نہیں پڑھی گئی۔
نبی کریم ﷺ نے نماز جنازہ پڑھی۔
نہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اور نہ کسی اور نے2۔
ابوطالب چونکہ نعمت اسلام سے انکاری رہے اور شرک ہی پر مرے۔
اس لئے ایسے آدمی کی تکفین وتدفین کے لئے کوئی شرعی آداب نہیں حتیٰ کہ لفظ دفن بھی استعمال نہیں کیا گیا۔
3۔
مشرک رشتہ دار کوگڑھے میں دبادینا ہی کافی ہے۔
4۔
ایسی صورت میں بعد از دفن غسل کرنا مسنون ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3214