سنن نسائي
كتاب الجنائز
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
77. بَابُ : الدُّعَاءِ
باب: جنازے کی دعا کا بیان۔
حدیث نمبر: 1991
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، أَنَّهُ قَالَ:" السُّنَّةُ فِي الصَّلَاةِ عَلَى الْجَنَازَةِ أَنْ يَقْرَأَ فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى بِأُمِّ الْقُرْآنِ مُخَافَتَةً، ثُمَّ يُكَبِّرَ ثَلَاثًا وَالتَّسْلِيمُ عِنْدَ الْآخِرَةِ".
ابوامامہ اسعد بن سہل بن حنیف رضی الله عنہ کہتے ہیں نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ پہلی تکبیر کے بعد سورۃ فاتحہ آہستہ پڑھی جائے، پھر تین تکبیریں کہی جائیں، اور آخر میں سلام پھیرا جائے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ابوامامہ یہ کنیت سے مشہور ہیں، ان کا نام اسعد یا سعد ہے، ابن سعد بن حنیف الانصاری، ان کا شمار صحابہ مںْ ہے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کا شرف حاصل کیا ہے، لیکن آپ سے احادیث نہیں سنی ہیں، اس لیے یہ حدیث مراسیل صحابہ میں سے ہے، اور یہ قابلِ استناد ہے، اس لیے کہ صحابی نے صحابی سے سنا ہے، اور دوسرے صحابی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، بیچ کا واسطہ ثقہ راوی یعنی صحابی ہے، اس لیے کوئی حرج نہیں، دوسرے طرق میں واسطہ کا ذکر ثابت ہے، جیسا کہ آگے کی حدیث میں یہ روایت ضحاک بن قیس رضی الله عنہ سے آ رہی ہے (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: أحکام الجنائز للألبانی: فقرہ نمبر ۷۴، حدیث نمبر۵) امام زہری نے اس حدیث کی روایت ابوامامہ سے کی جس کی تصحیح أئمہ نے کی ہے امام طحاوی نے اس حدیث کی تخریج میں یہ اضافہ کیا ہے کہ زہری نے محمد بن سوید فہری سے ابوامامہ کی اس حدیث کا تذکرہ کیا، تو اس پر ابن سوید نے کہا کہ میں نے اسے ضحاک بن قیس رضی الله عنہ سے سنا ہے، جسے وہ حبیب بن مسلمہ سے نماز جنازہ کے بارے روایت کرتے ہیں، اور یہ اسی حدیث کی طرح ہے جسے ابوامامہ نے تم سے روایت کی ہے۔ (طحاوی ۱/۲۸۸) آگے صحیح سند سے نسائی نے اسے مرفوعاً ضحاک سے روایت کی ہے، اور طحاوی کے یہاں ضحاک نے اسے حبیب بن مسلمہ سے روایت کی ہے، واضح رہے کہ یہ دونوں کمسن صحابہ میں ہیں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 1991 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1991
1991۔ اردو حاشیہ:
➊ راویٔ حدیث حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ معروف صحابیٔ رسول، ابوامامہ باہلی نہیں ہیں بلکہ یہ اور صحابی ہیں جو انھی کی کنیت سے معروف ہیں انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شرف رویت نصیب ہے، اگرچہ براہ راست انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی حدیث نہیں سنی، یہ روایت بھی انہوں نے کسی اور صحابی کے واسطے سے لی ہے لیکن بلاواسطہ بیان فرما دی۔ محدثین کے نزدیک اسے مرسل صحابی کہتے ہیں، اور یہ قابل حجت ہوتی ہے۔ اسے مرفوع روایت ہی کا حکم ملتا ہے۔ مزید دیکھیے: (تعلیق أحکام الجنائز للألباني، ص: 141)
➋ ”سورۂ فاتحہ آہستہ پڑھے“ جبکہ پیچھے حدیث نمبر 1989 میں صراحتاً جہر کا ذکر ہے، لہٰذا دونوں طرح جائز ہے۔ آہستہ پڑھے یا بلند آواز سے۔
➌ ”پھر تین تکبیریں کہے“ روایت مختصر ہے، یعنی تین تکبیریں اکٹھی نہیں کہی جائیں گی بلکہ تمام مل کر تین ہوں گی، یعنی الگ الگ۔ دوسری کے بعد درود، تیسری کے بعد دعا اور چوتھی کے بعد سلام جیسا کہ تفصیل حدیث: 1985 فائدہ، 4 میں گزر چکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1991