سنن نسائي
كتاب الجنائز
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
60. بَابُ : أَوْلاَدِ الْمُشْرِكِينَ
باب: آخرت میں کفار و مشرکین کی اولاد کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 1951
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ، قال: أَنْبَأَنَا سُفْيَانُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَزِيدَ اللَّيْثِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قال: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَوْلَادِ الْمُشْرِكِينَ , فَقَالَ:" اللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا عَامِلِينَ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکوں کی اولاد کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: ”جو کچھ وہ کرنے والے تھے اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجنائز 92 (1383)، والقدر 3 (6592)، صحیح مسلم/القدر 6 (2659)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/السنة 18 (4714) بمعناہ، سنن الترمذی/القدر 5 (2138)، (تحفة الأشراف: 14212)، مسند احمد 2/244، 253، 259، 268، 315، 347، 393، 395، 471، 488، 518 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
سنن نسائی کی حدیث نمبر 1951 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1951
1951۔ اردو حاشیہ: گویا اللہ تعالیٰ اپنے علم کے مطابق فیصلہ فرمائے گا۔ اس قسم کی احادیث کے پیش نظر بعض علماء اس مسئلے میں سکوت اور توقف کے قائل ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1951
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 93
´مشرکین کے بچے جنت میں جائیں گے یا جہنم میں`
«. . . . . .»
”. . . اور انہیں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکین کی اولاد کے بارے میں دریافت کیا گیا (کہ وہ جنتی ہیں یا دوزخی ہیں)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے جو کچھ وہ عمل کرنے والے ہوتے ہیں۔“ اس حدیث کو بخاری و مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . .“ [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ/0: 93]
تخریج:
[صحيح بخاري 1384]،
[صحيح مسلم 6765]
فقہ الحدیث:
➊ مشرکین کے بچے جنت میں جائیں گے یا جہنم میں؟ یہ تقدیر کا مسئلہ ہے، اسے صرف اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ دنیا میں کیا اعمال کرنے والے تھے۔
➋ مشرکین کے بچوں کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔
➌ مشرکین کے بچوں کے بارے میں سکوت کرنا بہتر ہے۔
➍ نیز دیکھئے: [اضواء المصابيح: 84، ماهنامه الحديث حضرو: 33 ص6]
اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث/صفحہ نمبر: 93
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6765
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرکوں کےبچوں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا:"جب اللہ نے ان کوپیداکیاہے تو اسے یہ بھی خوب علم ہے،وہ کون سے عمل کرنے والےتھے۔" [صحيح مسلم، حديث نمبر:6765]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اہل سنت کے نزدیک،
اللہ کو (ما كان) (جو ہو چکا ہے) (ما يكون) (جو ہو گا) (ما لا يكون)
جو نہیں ہو گا،
(لو كان كيف كان يكون)
،
اگر اس نے ہونا ہوتا تو کیسے ہوتا،
سب کا علم ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6765
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1384
1384. حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے،وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے مشرکین کی اولاد کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:’‘اللہ ہی بہترجاننے والا ہے جو عمل وہ کرنے والے ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1384]
حدیث حاشیہ:
اگر اس کے علم میں یہ ہے کہ وہ بڑے ہوکر اچھے کام کرنے والے تھے تو بہشت میں جائیں گے ورنہ دوزخ میں۔
بظاہر یہ حدیث مشکل ہے، کیونکہ اس کے علم میں جو ہوتاہے وہ ضرور ظاہر ہوتا ہے۔
تو اس کے علم میں تو یہی تھا کہ وہ بچپن میں ہی مرجائیں گے۔
اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ قطعی بات تو یہی تھی کہ وہ بچپن میں ہی مرجائیں گے اور پروردگار کو اس کا علم بے شک تھا، مگر اس کے ساتھ پروردگار یہ بھی جانتا تھا کہ اگر یہ زندہ رہتے تو نیک بخت ہوتے یا بدبخت ہوتے۔
والعلم عنداللہ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1384
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1384
1384. حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے،وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے مشرکین کی اولاد کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:’‘اللہ ہی بہترجاننے والا ہے جو عمل وہ کرنے والے ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1384]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عنوان سے معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ اولادِ مشرکین کے متعلق پہلے متوقف تھے، اس کے بعد آپ نے ان کے نجات یافتہ ہونے پر جزم کیا ہے۔
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے علم کے مطابق ان سے برتاؤ کرے گا۔
امام احمد اور اکثر اہل علم کا یہی موقف ہے کہ جب یہ بچے شرعا غیر مکلف ہیں تو ان کا معاملہ اللہ کے حوالے کیا جائے، کیونکہ وہ خوب جانتا ہے کہ وہ جنت کے لائق ہیں یا دوزخ کے قابل۔
اگر اس کے علم میں ہے کہ وہ بڑے ہو کر اچھے کام کرنے والے تھے تو جنت میں جائیں گے بصورت دیگر جہنم کا ایندھن بنیں گے۔
(2)
قدریہ (ایک گمراہ فرقہ)
کہتے ہیں کہ اس حدیث میں نجات یا عدم نجات کا دارومدار عمل کو بتایا گیا ہے اور بچے فطرت اسلام پر پیدا ہوتے ہیں تو جب انہوں نے شرک کا ارتکاب ہی نہیں کیا تو لامحالہ نجات کے حق دار ہوں گے، لیکن یہ تاویل درست نہیں، کیونکہ فطرت پر پیدا ہونے کے بعد اگر انہیں زندگی دی جاتی تو وہ کیا کرتے؟ اللہ تعالیٰ ان کی اس ممکنہ زندگی کے متعلق اپنے علم کی بنا پر فیصلہ کرے گا اور وہ اس سے خوب آگاہ ہے۔
گویا یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کو انسان کی آئندہ ممکنہ زندگی اور اس کے اعمال کا بھی علم ہے جو ابھی تک اس سے سرزد نہیں ہوئے۔
(3)
حافظ ابن حجرؒ نے لکھا ہے کہ قیامت کے دن اہل فترت اور دیوانے لوگوں کا امتحان لیا جائے گا۔
ان سے کہا جائے گا کہ تم خود کو جہنم میں ڈالو۔
جو اللہ کی اطاعت کرتے ہوئے جہنم میں کود پڑے گا، اس کے لیے وہ جہنم گل و گلزار بن جائے گی اور جو جہنم میں چھلانگ لگانے سے انکار کر دے گا اسے دوزخ کے حوالے کر دیا جائے گا۔
(فتح الباري: 313/3)
ممکن ہے کہ میدان محشر میں بچوں کے لیے بھی کوئی امتحان عمل تجویز ہو جس پر ان کی نجات و ہلاکت کا دارومدار ہو۔
والله أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1384