سنن نسائي
كتاب الجنائز
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
6. بَابُ : شِدَّةِ الْمَوْتِ
باب: موت کی شدت۔
حدیث نمبر: 1831
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ الْهَادِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" مَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَإِنَّهُ لَبَيْنَ حَاقِنَتِي وَذَاقِنَتِي، فَلَا أَكْرَهُ شِدَّةَ الْمَوْتِ لِأَحَدٍ أَبَدًا بَعْدَ مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی، تو اس وقت آپ کا سر مبارک میری ہنسلی اور ٹھوڑی کے درمیان تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کے بعد کبھی کسی کی موت کی سختی مجھے ناگوار نہیں لگتی ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المغازي 83 (4446)، (تحفة الأشراف: 17531)، مسند احمد 6/64، 77 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ موت کی سختی برے ہونے کی دلیل نہیں بلکہ یہ ترقی درجات، اور گناہوں کی مغفرت کا سبب بھی ہوتی ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
سنن نسائی کی حدیث نمبر 1831 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1831
1831۔ اردو حاشیہ: موت بذات خود سب سے زیادہ تکلیف دہ چیز ہے۔ اس کے مقابلے میں دیگر تکالیف ہیچ ہیں۔ مومن کی اس تکلیف کا بھی ثواب ملتا ہے اور اس سے گناہ معاف ہوتے ہیں، لہٰذا اس کے لیے موت کی سختی رحمت بن جاتی ہے جبکہ وہ کافر و منافق کے لیے عذاب ہے، لہٰذا موت کی سختی یا نرمی کسی کے ایمان و کفر یا نفاق و فسق کی نشانی نہیں، موت کی سختی یا تکلیف صرف متعلقہ شخص ہی جانتا ہے، دیکھنے والا صحیح اندازہ نہیں لگا سکتا۔ جب موت کا عمل (فرشتوں والا) شروع ہو جاتا ہے تو پھر اس شخص کو ہوش نہیں رہتاکہ وہ موت کی سختی بیان کر سکے۔ (استغفراللہ)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1831
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3100
3100. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی وفات میرے گھر میں ہوئی اور میری باری کے دن ہوئی جبکہ آپ کا سر مبارک میری گردن اور میرے سینے کے درمیان تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آخری وقت میں میرے اور آپ کے تھوک مبارک کو جمع فرمادیا۔ وہ اس طرح کہ عبدالرحمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسواک لے کر حاضر ہوئے چونکہ نبی کریم ﷺ اس کے استعمال سے کمزور تھے تو میں نے مسواک کو پکڑا اور اسے چبایا پھر آپ کو مسواک کرائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3100]
حدیث حاشیہ:
وفات نبوی کے بعد کچھ لوگوں نے یہ وہم پھیلانا چاہا کہ رسو ل کریم ﷺ اپنی وفات کے وقت حضرت علی ؓ کو اپنا وصی قرار دے کر گئے ہیں۔
یہ بات حضرت عائشہ ؓ نے بھی سنی‘ اس پر آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے آخری ایام پورے طور پر میرے حجرے میں گزرے۔
ان ایام میں ایک لمحہ بھی میں نے آپ کو تنہا نہیں چھوڑا۔
وفات کے وقت حضور ﷺ اپنا سرمبارک میرے سینے پر رکھے ہوئے تھے۔
ان حالات میں میں نہیں سمجھ سکتی کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت علی ؓ کو کب اپنا وصی قرار دے دیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3100
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4446
4446. حضرت عائشہ ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ کا سر مبارک وفات کے وقت میری ٹھوڑی اور سینے کے درمیان تھا۔ اور جب سے میں نے نبی ﷺ پر موت کی سختی دیکھی ہے، اس کے بعد موت کی سختی کو کسی کے لیے برا نہیں سمجھتی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4446]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ ﷺ پر موت بہت سخت واقع ہوئی چنانچہ حدیث میں ہے کہ آپ کے پاس ایک برتن میں پانی موجود تھا آپ بار بار اس میں ہاتھ ڈالتے اور پانی لے کر اسے بار بار اپنے منہ پر پھیرتے۔
"لااله الااللہ موت میں بڑی سختیاں ہیں۔
" نیز آپ ان الفاظ میں دعا کرتے۔
”اے اللہ! موت کی سختیوں پر میری مدد فرما۔
“ اور موت کی سختیاں برداشت کرنے پر آپ کو اللہ کی طرف سے کئی گنا اجر دیا جائے گا، چنانچہ حدیث میں ہے کہ انبیاء ؑ کے گروہ کے لیے سختیاں اور آزمائشیں بہت ہیں اس لیے ہمارے اجرو ثواب میں بھی کئی گنا اضافہ ہو گا۔
(فتح الباري: 176/8)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4446