Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الشُّرْبِ والْمُسَاقَاةِ
کتاب: مساقات کے بیان میں
6. بَابُ سَكْرِ الأَنْهَارِ:
باب: نہر کا پانی روکنا۔
حدیث نمبر: 2359
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّهُ حَدَّثَهُ،" أَنَّ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ خَاصَمَ الزُّبَيْرَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي شِرَاجِ الْحَرَّةِ الَّتِي يَسْقُونَ بِهَا النَّخْلَ، فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ: سَرِّحْ الْمَاءَ يَمُرُّ، فَأَبَى عَلَيْهِ، فَاخْتَصَمَا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلزُّبَيْرِ: أَسْقِ يَا زُبَيْرُ، ثُمَّ أَرْسِلِ الْمَاءَ إِلَى جَارِكَ، فَغَضِبَ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: أَنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ، فَتَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: اسْقِ يَا زُبَيْرُ، ثُمَّ احْبِسْ الْمَاءَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْجَدْرِ، فَقَالَ الزُّبَيْرُ: وَاللَّهِ إِنِّي لَأَحْسِبُ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِي ذَلِكَ فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ فِيمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ سورة النساء آية 65".
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، ان سے لیث نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابن شہاب نے بیان کیا، ان سے عروہ نے اور ان سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ ایک انصاری مرد نے زبیر رضی اللہ عنہ سے حرہ کے نالے میں جس کا پانی مدینہ کے لوگ کھجور کے درختوں کو دیا کرتے تھے، اپنے جھگڑے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ انصاری زبیر سے کہنے لگا پانی کو آگے جانے دو، لیکن زبیر رضی اللہ عنہ کو اس سے انکار تھا۔ اور یہی جھگڑا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ (پہلے اپنا باغ) سینچ لے پھر اپنے پڑوسی بھائی کے لیے جلدی جانے دے۔ اس پر انصاری کو غصہ آ گیا اور انہوں نے کہا، ہاں زبیر آپ کی پھوپھی کے لڑکے ہیں نا۔ بس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے زبیر! تم سیراب کر لو، پھر پانی کو اتنی دیر تک روکے رکھو کہ وہ منڈیروں تک چڑھ جائے۔ زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا، اللہ کی قسم! میرا تو خیال ہے کہ یہ آیت «فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك فيما شجر بينهم‏» اسی باب میں نازل ہوئی ہے ہرگز نہیں، تیرے رب کی قسم! یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے جھگڑوں میں تجھ کو حاکم نہ تسلیم کر لیں آخر تک۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2359 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2359  
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث اور آیت کریمہ اطاعت رسول کریم ﷺ کی فرضیت پر ایک زبردست دلیل ہے اور اس امر پر بھی کہ جو لوگ صاف صریح واضح ارشاد نبوی سن کر اس کی تسلیم میں پس و پیش کریں وہ ایمان سے محروم ہیں۔
قرآن مجید کی اور بھی بہت سے آیات میں اس اصول کو بیان کیا گیا ہے۔
ایک جگہ ارشاد ہے ﴿وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا مُبِينًا﴾ (الأحزاب36)
کسی بھی مومن مرد اور عورت کے لیے یہ زیبا نہیں کہ جب وہ اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ سن لے تو پھر اس کے لیے اس بارے میں کچھ اور اختیار باقی رہے جائے۔
اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا وہ کھلا ہوا گمراہ ہے۔
اب ان لوگوں کو خود فیصلہ کرنا چاہئے جو آیات قرانی و احادیث نبوی کے خلاف اپنی رائے اور قیاس کو ترجیح دیتے ہیں یا وہ اپنے اماموں، پیروں، مرشدوں کے فتاووں کو مقدم رکھتے ہیں۔
اور احادیث صحیحہ کو مختلف حیلوں بہانوں سے ٹال دیتے ہیں۔
ان کو خود سوچنا چاہئے کہ ایک انصاری مسلمان صحابی نے جب آنحضرت ﷺ کے ایک قطعی فیصلہ کے خلاف ناراضگی کا اظہار کیا تو اللہ پاک نے کس غضبناک لہجہ میں اسے ڈانٹا اور اطاعت نبو ی کے لیے حکم فرمایا۔
جب ایک صحابی انصاری کے لیے یہ قانون ہے، تو اور کسی مسلمان کی کیا وقعت ہے کہ وہ کھلے لفظوں میں قرآن و حدیث کی مخالفت کرے اور پھر بھی ایمان کا ٹھیکدار بنا رہے۔
اس آیت شریفہ میں منکرین حدیث کو بھی ڈانٹا گیا ہے اور ان کو بتلایا گیا ہے کہ رسول کریم ﷺ جو بھی امور دینی میں ارشاد فرمائیں آپ کا وہ ارشاد بھی وحی الٰہی میں داخل ہے جس کا تسلیم کرنا اسی طرح واجب ہے جیسا کہ قرآن مجید کا تسلیم کرنا واجب ہے۔
جو لوگ حدیث نبوی کا انکار کرتے ہیں وہ قرآن مجید کے بھی منکر ہیں، قرآن و حدیث میں باہمی طور پر جسم اور روح کا تعلق ہے۔
اس حقیقت کا انکاری اپنی عقل و فہم سے دشمنی کا اظہار کرنے والا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2359   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2359  
حدیث حاشیہ:
(1)
نہریں دو قسم کی ہوتی ہیں:
مملوک اور غیر مملوک۔
جو غیر مملوک ہیں ان کی پھر دو قسمیں ہیں:
ایک بڑے دریا جیسے راوی اور چناب وغیرہ اور دوسرے چھوٹے چھوٹے برساتی نالے جو بارش وغیرہ سے بہہ پڑتے ہیں۔
عنوان سے مراد برساتی اور قدرتی نالے ہیں۔
ان میں پانی محض اللہ کے فضل سے آتا ہے۔
اس میں کسی کی محنت کو کوئی دخل نہیں ہوتا۔
اس میں عوام شریک ہوتے ہیں، بظاہر ان میں کسی کو کسی وقت رکاوٹ پیدا نہیں کرنی چاہیے۔
امام بخاری ؒ نے ان برساتی نالوں کے پانی کو ضرورت کے وقت روکنے کا جواز ثابت کیا ہے۔
(2)
واضح رہے کہ "حرہ" پتھریلی زمین کو کہتے ہیں۔
مدینہ طیبہ کے مشرق و مغرب میں زمین آتش فشانی لاوے پر مشتمل ہے۔
اسی علاقے کو "حرہ" کہتے ہیں۔
وہاں ایک برساتی نالا بہتا تھا جس سے حضرت زبیر ؓ اپنی زمین سیراب کرتے تھے۔
ان کا باغ بالائی علاقے میں تھا اور ایک انصاری کا باغ نشیبی علاقے میں، اس لیے حضرت زبیر ؓ پانی روک کر اپنے باغ کو سیراب کرتے تھے جبکہ انصاری کا مطالبہ تھا کہ پانی روکا نہ جائے بلکہ اسے جاری رکھا جائے۔
اس سے آگے وہی تفصیل ہے جسے حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔
(3)
اس سے معلوم ہوا کہ بالائی علاقے پر واقع باغ کو سیراب کرنے کے لیے برساتی نالے کو روکا جا سکتا ہے تاکہ پانی پودوں کی جڑوں تک پہنچ جائے۔
جو ندی نالے وادیوں سے نکلیں یا بارش آنے سے بہہ پڑیں ان کے متعلق ضابطہ یہ ہے کہ جس کی زمین اوپر ہو گی، اس کا حق ہے کہ پانی روک کر اپنی زمین کو سیراب کرے، اس قدر بندش کرے کہ پانی فصل کی جڑوں تک کے لیے کافی ہو پھر نیچے والے کے لیے اسے چھوڑ دے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2359