سنن نسائي
كتاب قيام الليل وتطوع النهار
کتاب: تہجد (قیام اللیل) اور دن میں نفل نمازوں کے احکام و مسائل
63. بَابُ : مَنْ أَتَى فِرَاشَهُ وَهُوَ يَنْوِي الْقِيَامَ فَنَامَ
باب: جو اپنے بستر پر آئے اور وہ قیام کی نیت رکھتا ہو لیکن وہ سو جائے۔
حدیث نمبر: 1788
أَخْبَرَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ أَتَى فِرَاشَهُ وَهُوَ يَنْوِي أَنْ يَقُومَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ فَغَلَبَتْهُ عَيْنَاهُ حَتَّى أَصْبَحَ كُتِبَ لَهُ مَا نَوَى وَكَانَ نَوْمُهُ صَدَقَةً عَلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ" , خَالَفَهُ سُفْيَانُ.
ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو بستر پر آئے، اور وہ رات میں قیام کی نیت رکھتا ہو، پھر اس کی دونوں آنکھیں اس پر غالب آ جائیں یہاں تک کہ صبح ہو جائے تو اس کے لیے اس کی نیت کا ثواب لکھا جائے گا، اور اس کی نیند اس کے رب عزوجل کی جانب سے اس پر صدقہ ہو گی“۔ سفیان ثوری نے حبیب بن ابی ثابت کی مخالفت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الإقامة 177 (1344)، (تحفة الأشراف: 10937) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 1788 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1788
1788۔ اردو حاشیہ: حبیب نے یہ روایت مرفوع (فرمانِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) بیان کی تھی جبکہ سفیان اسے موقوف (صحابی کا فرمان) بیان کرتے ہیں۔ دوسرے سفیان یہ روایت شک کے ساتھ بیان کرتے ہیں، نیز سنن نسائی کے تمام نسخوں میں عن أبي ذر و أبي الدرداء ہے۔ یہ سند میں تصحیف ہے۔ درست بجائے واو کے او ہے، یعنی شک کے ساتھ، جیسا کہ السنن الکبریٰ للنسائی میں ہے: (457/1) سنن کبریٰ میں سفیان ثوری کے ساتھ سفیان بن عیینہ بھی ہیں، گویا دونوں ہی حبیب بن ابی ثابت کی مذکورہ مخالفات میں شریک ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: (ذخیرۃ العقبی شرح سنن النسائي: 171/18، 172) یہ وضاحت تو سندی اختلاف کی تھی۔ رہی صحت حدیث تو بلاشک متن حدیث قابل حجت ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق یہ روایت موقوفاً أصح ہے، لیکن چونکہ اس میں راوی کے اجتہاد اور رائے کا دخل نہیں، اس لیے حکماً مرفوع ہے، نیز اس کے شواہد بھی ملتے ہیں۔ اس کی تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: (إرواء الغلیل الألبانی، رقم الحدیث: 454)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1788