حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:"مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ يَقْتَطِعُ بِهَا مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ هُوَ عَلَيْهَا فَاجِرٌ، لَقِيَ اللَّهَ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلا سورة آل عمران آية 77 الْآيَةَ". فَجَاءَ الْأَشْعَثُ، فَقَالَ: مَا حَدَّثَكُمْ أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ فِيَّ أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ كَانَتْ لِي بِئْرٌ فِي أَرْضِ ابْنِ عَمٍّ لِي، فَقَالَ لِي: شُهُودَكَ؟ قُلْتُ: مَا لِي شُهُودٌ، قَالَ: فَيَمِينُهُ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِذًا يَحْلِفَ فَذَكَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَذَا الْحَدِيثَ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ ذَلِكَ تَصْدِيقًا لَهُ.
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2357
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں جب کنویں کا جھگڑا پیش ہوا تو آپ نے مدعی سے گواہ طلب کیے۔
جب وہ گواہ پیش کرنے سے عاجز آ گیا تو آپ نے مدعا علیہ سے قسم طلب کی کیونکہ اسلام کا عدالتی قانون ہے کہ مدعی اپنے دعویٰ کے ثبوت کے لیے گواہ پیش کرے جبکہ قسم اٹھانا مدعی علیہ کا حق ہے۔
چونکہ شہادت حق اس امت کا امتیاز ہے، اس لیے جھوٹ بولنا، جھوٹی قسم اٹھانا اور جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیا ہے۔
(2)
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ کنوؤں میں ملکیت جاری ہوتی ہے، عدالت اس سے متعلقہ مقدمات سننے کی مجاز ہے، پھر اسے حق کے مطابق فیصلہ کرنے کا بھی اختیار ہے۔
اگر یہ تمام لوگوں کے لیے مشترکہ متاع ہے تو اس کے متعلق مقدمہ کیا ہو سکتا ہے، عدالت کیا سماعت کر سکتی ہے؟ (3)
ہمارے معاشرے میں فریقین کے جھگڑے کا فیصلہ پنچائیت میں اکثر و بیشتر اس طرح کیا جاتا ہے کہ کوئی تیسرا فرد مدعا علیہ کی طرف سے قسم دیتا ہے، یہ طریقہ اس حدیث کے مخالف ہونے کی وجہ سے سراسر غلط ہے۔
قسم مدعا علیہ ہی دے گا اور مدعی کو اس کی قسم کا اعتبار کرنا چاہیے اگر وہ جھوٹی قسم اٹھاتا ہے تو اللہ کے ہاں سزا پائے گا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2357
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 355
حضرت عبداللہ ؓ رسول اللہ ﷺ سے روایت بیان کرتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے مسلمان کا مال دبانے کے لیے فیصلہ کن جھوٹی قسم کھائی، وہ اللہ سے ملاقات اس حال میں کرے گا کہ وہ اس سے ناراض ہوگا۔“ راوی بیان کرتا ہے کہ اس دوران ان کے پاس اشعث بن قیسؓ آگئے اور پوچھنے لگے: تمھیں ابو عبدالرحمٰنؓ نے کیا سنا یا ہے؟ حاضرین نے کہا فلاں فلاں بات بتائی ہے، اشعثؓ نے کہا: ابو عبدالرحمٰن نے سچ کہا، یہ آیت میرے بارے میں اتری ہے، میری اور ایک آدمی کی مشترکہ زمین تھی۔ میں... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:355]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
قَضِيبٌ:
چھڑی،
شاخ۔
يَمِين صَبْرٍ:
جس پر قسم اٹھانے والا اپنے آپ کو روکتا ہے،
جس پر فیصلہ کا انحصار ہے۔
(2)
يَقْتَطِعُ:
دباتا ہے،
مارتا ہے،
مالک سے کاٹ لیتا ہے۔
فوائد ومسائل:
کسی شخص کا حق مارنا یا مال دبانا،
خصوصی طور پر جبکہ وہ اپنا دینی بھائی مسلمان ہواتنا بڑا جرم ہے (جبکہ اس کےلیے اللہ کی جھوٹی قسم بھی اٹھائی گئی ہو،
یہ حق معمولی ہو یا زیادہ)
کہ اس کا مرتکب،
اسلام جو ہمدردی اور خیر خواہی کا نام ہے کو پامال کرتا ہے۔
اور اللہ کے مقام ومرتبہ کی بے حرمتی کرتاہے،
اس لیے اگر اس کو معافی نہ مل سکے تو وہ اس سزا کا مستحق ہے کہ دوزخ میں جائے،
اور سیدھا جنت میں جانے کے شرف سے محروم ہو جائے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 355
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2417
2417. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے کسی مسلمان کامال ہڑپ کرنے کے لیے جھوٹی قسم اٹھائی تو وہ اللہ سے اس حالت میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوگا۔“ حضرت اشعث ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ حدیث میرے متعلق وارد ہے۔ ہوا یوں کہ میرے اور ایک یہودی کے درمیان زمین کا تنازع تھا۔ وہ مجھے زمین دینے سے انکار کرتا تھا تو میں اسے نبی کریم ﷺ کے پاس لے گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا: ”تیرے پاس کوئی دلیل(گواہ) ہے؟“ میں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ نے یہودی سے کہا: ”تم قسم اٹھاؤ۔“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! وہ تو قسم اٹھا کر میرا مال لے اُڑے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”بلاشبہ وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسم کو معمولی قیمت کے عوض بیچ ڈالتے ہیں، ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔۔۔ “ آخر آیت تک۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2417]
حدیث حاشیہ:
مدعی یعنی اشعث ؓ نے عدالت عالیہ نبویہ میں یہودی کی خامی کو صاف لفظوں میں ظاہر کر دیا۔
باب کا یہی مقصد ہے کہ مقدمہ سے متعلق مدعی اور مدعی علیہ عدالت میں اپنے اپنے دلائل واضح کردیں، اس کا نام غیبت نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2417
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2667
2667. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نےکہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے کسی مسلمان کا مال ناحق ہڑپ کرنے کے لیے جھوٹی قسم اٹھائی تو وہ جب اللہ تعالیٰ سے ملے گا تو وہ اس پر غضبناک ہوگا۔“ حضرت اشعث بن قیس ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ میرے متعلق ایسا فرمایا کیونکہ میرے اور ایک یہودی کے درمیان کچھ زمین کے متعلق جھگڑا تھا۔ اس نے میرے حق کا انکار کردیا۔ میں نے اسے نبی کریم ﷺ کے حضور پیش کیا تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ” کیا تیرے پا س کوئی گواہ ہے؟“ میں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ نے یہودی سے فرمایا: ”تو قسم اٹھا۔“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! وہ تو قسم اٹھا کر میرا مال لے جائے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت کے عوض بیچ ڈالیں۔۔۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2667]
حدیث حاشیہ:
عدالت کے لیے ضروری ہے کہ پہلے مدعی سے گواہ طلب کرے۔
اس کے پاس گواہ نہ ہوں تو مدعیٰ علیہ سے قسم لے اگر مدعیٰ علیہ جھوٹی قسم کھاتا ہے تو وہ سخت گنہگار ہوگا، مگر عدالت میں بہت لوگ جھوٹ سے بچنا ضروری نہیں جانتے حالانکہ جھوٹی گواہی کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔
ایسی ہی جھوٹی قسم کھاکر کسی کا مال ہڑپ کرنا اکبر الکبائر یعنی بہت ہی بڑا کبیرہ گناہ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2667
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2677
2677. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کر تے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جس شخص نے جھوٹی قسم اٹھائی تاکہ اس کے ذریعے سے کسی آدمی یا مسلمان بھائی کا مال ہڑپ کرجائے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہوگا۔“ اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق قرآن میں نازل فرمائی: ”بے شک وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو معمولی قیمت کے عوض بیچ ڈالتے ہیں۔۔۔ دردناک عذاب ہے۔" راوی حدیث کہتے ہیں: پھر مجھے حضرت اشعث بن قیس ؓ ملے توانھوں نے کہا: آج عبداللہ بن مسعود ؓ نے تم سے کیا بیان کیا ہے؟میں نے کہا: ایسے ایسے بیان کیا ہےتو انھوں نے فرمایا: یہ آیت میرے متعلق نازل ہوئی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2677]
حدیث حاشیہ:
عدالت غیب داں نہیں ہوتی۔
کوئی شخص غلط بیانی کرکے جھوٹی قسمیں کھاکر فیصلہ اپنے حق میں کرالے، حالانکہ وہ ناحق پر ہے تو ایسا شخص عنداللہ ملعون ہے، وہ اپنے پیٹ میں آگ کا انگارہ کھارہا ہے۔
قیامت کے دن وہ اللہ کے غضب میں گرفتار ہوگا۔
اس کو یہ حقیقت خوب ذہن نشین کرلینی چاہئے۔
جو لوگ قاضی کے فیصلہ کو ظاہر و باطن ہر حال میں نافذ کہتے ہیں، ان کی غلط بیانی کی طرف بھی یہ اشارہ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2677
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2670
2670 [صحيح بخاري، حديث نمبر:2670]
حدیث حاشیہ:
بعض حنفیہ نے اس حدیث سے یہ دلیل لی ہے کہ یمین مع الشاهد پر فیصلہ کرنا درست نہیں اور یہ استدلال فاسد ہے کہ یمین مع الشاهد کی شق میں داخل ہے تو مطلب یہ ہے کہ دو گواہ لا اس طرح سے کہ دو مرد ہوں یا ایک مرد اور دو عورتیں یا ایک مرد اور ایک قسم ورنہ مدعیٰ علیہ سے قسم لے۔
یہ حنفیہ اتنا غور نہیں کرتے کہ اللہ اور پیغمبر کے کلام کو باہم ملانا بہتر ہے یا ان میں مخالفت ڈالنا، ایک پر عمل کرنا، ایک کو ترک کرنا۔
(وحیدی)
الحمد للہ کہ حرم نبوی مدینۃ المنورہ میں 9 اپریل 1970 ءکو حضور ﷺ کے مواجہ شریف میں بیٹھ کر یہاں تک متن کو بغور پڑھا گیا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2670
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4550
4550. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے مال روک دینے والی قسم اٹھائی تاکہ اس کے ذریعے سے کسی مسلمان کا مال کاٹ لے تو اللہ کے ساتھ اس کی ملاقات بایں حالت ہو گی کہ اللہ تعالٰی اس پر انتہائی ناراض ہو گا۔“ پھر اللہ تعالٰی نے اس کی تصدیق میں یہ آیت نازل فرمائی: "بےشک وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی سی قیمت کے عوض بیچ ڈالتے ہیں تو ایسے لوگوں کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں" آخر تک۔ ابو وائل کہتے ہیں کہ اس دوران میں حضرت اشعث بن قیس ؓ تشریف لائے اور کہنے لگے: تمہیں ابو عبدالرحمٰن کیا سنا رہے تھے؟ ہم نے کہا: انہوں نے ایسا ایسا بیان کیا ہے۔ حضرت اشعث ؓ نے کہا: یہ آیت تو میرے متعلق نازل ہوئی تھی۔ میرے چچا کے بیٹے کی زمین میں میرا کنواں تھا (جس کا اس نے انکار کر دیا)۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”گواہ لاؤ یا پھر اس سے قسم لی جائے گی۔“ میں نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4550]
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں یوں ہے کہ اشعث ؓ اور ایک یہودی میں زمین کی تکرارتھی۔
عبدا للہ بن ابی اوفیٰ ؓ نے کہا یہ آیت اس شخص کے بارے میں اتری، جس نے بازار میں ایک مال رکھ کر جھوٹی قسم کھا کر یہ بیان کیا کہ اس مال کا اس کو اتنا دام ملتا تھا لیکن اس نے نہیں دیا۔
آیت عام ہے، اب بھی اس کا حکم باقی ہے۔
کتنے لوگ جھوٹی قسمیں کھا کھا کر ناجائز پیسہ حاصل کرتے ہیں۔
کتنے لوگ جھوٹے مقدمات میں کامیابی حاصل کر لیتے ہیں۔
یہ سب اس آیت کے مصداق ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4550
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2417
2417. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہاکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے کسی مسلمان کامال ہڑپ کرنے کے لیے جھوٹی قسم اٹھائی تو وہ اللہ سے اس حالت میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر غضبناک ہوگا۔“ حضرت اشعث ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ حدیث میرے متعلق وارد ہے۔ ہوا یوں کہ میرے اور ایک یہودی کے درمیان زمین کا تنازع تھا۔ وہ مجھے زمین دینے سے انکار کرتا تھا تو میں اسے نبی کریم ﷺ کے پاس لے گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے دریافت فرمایا: ”تیرے پاس کوئی دلیل(گواہ) ہے؟“ میں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ نے یہودی سے کہا: ”تم قسم اٹھاؤ۔“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! وہ تو قسم اٹھا کر میرا مال لے اُڑے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”بلاشبہ وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسم کو معمولی قیمت کے عوض بیچ ڈالتے ہیں، ان کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔۔۔ “ آخر آیت تک۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2417]
حدیث حاشیہ:
(1)
مقصد یہ ہے کہ کسی مقدمے کی سماعت کے دوران کمرۂ عدالت میں مدعی اور مدعا علیہ آپس میں سخت کلامی سے پیش آتے ہیں اور عدالت ان کا کوئی نوٹس نہیں لیتی، تو ایسا ممکن ہے بشرطیکہ وہ گفتگو فحش کلامی اور کردار کشی پر مبنی نہ ہو، ہاں اگر کوئی اپنی گفتگو سے عدالت کا احترام مجروح کرتا ہے تو اس کا نوٹس لیا جائے گا۔
اس حدیث کے مطابق حضرت اشعث ؓ نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے یہودی کے متعلق یہ بیان دیا کہ وہ جھوٹی قسم اٹھا کر میرا مال لے اڑے گا۔
چونکہ حضرت اشعث ؓ اس یہودی کے کردار سے واقف تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ان کے بیان پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔
(2)
عدالت کے سامنے ایسا بیان جس پر کوئی تعزیر یا حد واجب نہ ہو، اسے حرام غیبت میں شمار نہیں کیا جائے گا اور نہ اسے مدعا علیہ کی کردار کشی ہی پر محمول کیا جائے گا۔
(فتح الباري: 93/5)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2417
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2667
2667. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انھوں نےکہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے کسی مسلمان کا مال ناحق ہڑپ کرنے کے لیے جھوٹی قسم اٹھائی تو وہ جب اللہ تعالیٰ سے ملے گا تو وہ اس پر غضبناک ہوگا۔“ حضرت اشعث بن قیس ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! یہ میرے متعلق ایسا فرمایا کیونکہ میرے اور ایک یہودی کے درمیان کچھ زمین کے متعلق جھگڑا تھا۔ اس نے میرے حق کا انکار کردیا۔ میں نے اسے نبی کریم ﷺ کے حضور پیش کیا تو رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: ” کیا تیرے پا س کوئی گواہ ہے؟“ میں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ نے یہودی سے فرمایا: ”تو قسم اٹھا۔“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ! وہ تو قسم اٹھا کر میرا مال لے جائے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ”جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت کے عوض بیچ ڈالیں۔۔۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2667]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کے مطابق عدالت کے لیے ضروری ہے کہ وہ پہلے مدعی سے گواہ طلب کرے، اگر وہ گواہ یا دعویٰ کے لیے کوئی ثبوت نہ پیش کر سکے تو مدعا علیہ سے قسم لے۔
اگر وہ جھوٹی قسم اٹھاتا ہے تو وہ سخت گناہ گار ہو گا اور اگر اس کا جھوٹ ثابت ہو جائے تو عدالت اسے سزا دے سکتی ہے کیونکہ جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہے۔
اور جھوٹی قسم اٹھا کر کسی کا مال ہڑپ کرنا اس سے بڑا جرم ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2667
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2670
2670 [صحيح بخاري، حديث نمبر:2670]
حدیث حاشیہ:
(1)
مذکورہ بالا مقدمے میں حضرت اشعث بن قیس ؓ مدعی تھے تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا:
تمہیں اپنا دعویٰ ثابت کرنے کے لیے دو گواہ پیش کرنا ہوں گے، بصورت دیگر مدعا علیہ قسم اٹھائے گا اور مقدمہ اس کے حق میں ہو گا۔
بہرحال قسم اٹھانا مدعا علیہ کے ذمے ہے بشرطیکہ مدعی اپنے دعوے کے ثبوت کے لیے دو گواہ پیش نہ کر سکے، یا کم از کم ایک گواہ اور قسم دے گا۔
اگر ایسا نہ کر سکا تو مدعا علیہ قسم اٹھا کر بری ہو جائے گا۔
(2)
بعض لوگ يمين استظهار کے قائل ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب مدعی اپنا دعویٰ گواہوں سے ثابت کر دے تو قاضی مدعی سے قسم لے کہ اس کے گواہوں نے جو ثابت کیا ہے وہ مبنی بر حقیقت ہے، اس میں کوئی دھوکا فریب نہیں ہے۔
قاضی شریح، امام نخعی اور اوزاعی وغیرہ اس کے قائل ہیں لیکن جمہور اہل علم اس سے اتفاق نہیں کرتے کیونکہ قرآن و سنت سے اس کا ثبوت نہیں ملتا۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2670
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2677
2677. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کر تے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جس شخص نے جھوٹی قسم اٹھائی تاکہ اس کے ذریعے سے کسی آدمی یا مسلمان بھائی کا مال ہڑپ کرجائے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہوگا۔“ اللہ تعالیٰ نے اس کی تصدیق قرآن میں نازل فرمائی: ”بے شک وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو معمولی قیمت کے عوض بیچ ڈالتے ہیں۔۔۔ دردناک عذاب ہے۔" راوی حدیث کہتے ہیں: پھر مجھے حضرت اشعث بن قیس ؓ ملے توانھوں نے کہا: آج عبداللہ بن مسعود ؓ نے تم سے کیا بیان کیا ہے؟میں نے کہا: ایسے ایسے بیان کیا ہےتو انھوں نے فرمایا: یہ آیت میرے متعلق نازل ہوئی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2677]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عنوان کے تحت مذکورہ احادیث سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ جھوٹ بولنا تو ہر وقت منع ہے لیکن جھوٹی قسم اٹھانا بہت بڑا جرم ہے۔
خاص طور پر عدالت کے روبرو جھوٹی قسم اٹھانا اور جھوٹی گواہی دینا بہت بڑا گناہ ہے۔
جو شخص جھوٹی قسم اٹھا کر اپنے حق میں فیصلہ کرا لیتا ہے ایسا شخص اللہ کے نزدیک ملعون ہے۔
قیامت کے دن وہ اللہ کے عذاب میں گرفتار ہو گا۔
جھوٹی قسم اٹھانے والے کو یہ حقیقت خوب ذہن نشین کر لینی چاہیے۔
(2)
آیت کریمہ کے نزول کے متعلق دونوں احادیث میں بظاہر مخالفت ہے، اس کے متعلق دو طرح سے جواب دیا گیا ہے:
٭ حضرت ابن ابی اوفی ؓ کو اشعث بن قیس ؓ کے واقعے کی اطلاع نہیں ہو سکی، اس لیے انہوں نے اپنی معلومات بیان کی ہیں۔
٭ دونوں واقعات بیک وقت رونما ہوئے اور مذکورہ آیت دونوں واقعات کے بعد نازل ہوئی۔
آیت کے الفاظ دونوں کو شامل ہیں، ان میں کوئی مخالفت نہیں۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2677
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4550
4550. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس نے مال روک دینے والی قسم اٹھائی تاکہ اس کے ذریعے سے کسی مسلمان کا مال کاٹ لے تو اللہ کے ساتھ اس کی ملاقات بایں حالت ہو گی کہ اللہ تعالٰی اس پر انتہائی ناراض ہو گا۔“ پھر اللہ تعالٰی نے اس کی تصدیق میں یہ آیت نازل فرمائی: "بےشک وہ لوگ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی سی قیمت کے عوض بیچ ڈالتے ہیں تو ایسے لوگوں کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں" آخر تک۔ ابو وائل کہتے ہیں کہ اس دوران میں حضرت اشعث بن قیس ؓ تشریف لائے اور کہنے لگے: تمہیں ابو عبدالرحمٰن کیا سنا رہے تھے؟ ہم نے کہا: انہوں نے ایسا ایسا بیان کیا ہے۔ حضرت اشعث ؓ نے کہا: یہ آیت تو میرے متعلق نازل ہوئی تھی۔ میرے چچا کے بیٹے کی زمین میں میرا کنواں تھا (جس کا اس نے انکار کر دیا)۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ”گواہ لاؤ یا پھر اس سے قسم لی جائے گی۔“ میں نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4550]
حدیث حاشیہ:
دین فروشی اور عہد شکنی قیامت کے دن محرومی کا باعث ہوگی۔
ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"جس آدمی نے جھوٹی قسم کے ذریعے سے کسی مسلمان کا حق دبایا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے آگ واجب کردی اور اس پر جنت حرام کردی۔
" راوی نے عرض کی:
اللہ کے رسولﷺ!اگروہ چیز معمولی سی ہو؟ (تب بھی اس کے لیے آگ واجب ہوگی؟)
آپ نے فرمایا:
"ہاں! اگرچہ وہ درخت کی سبز ٹہنی ہی کیوں نہ ہو۔
" (صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 353(137)
بہرحال آیت کریمہ میں عہد شکنی پر پانچ وعیدیں مذکور ہیں۔
واللہ المستعان۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4550