Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْوُضُوءِ
کتاب: وضو کے بیان میں
63. بَابُ غَسْلِ الدَّمِ:
باب: حیض کا خون دھونا ضروری ہے۔
حدیث نمبر: 227
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي فَاطِمَةُ، عَنْ أَسْمَاءَ، قَالَتْ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: أَرَأَيْتَ إِحْدَانَا تَحِيضُ فِي الثَّوْبِ، كَيْفَ تَصْنَعُ؟ قَالَ:" تَحُتُّهُ، ثُمَّ تَقْرُصُهُ بِالْمَاءِ وَتَنْضَحُهُ وَتُصَلِّي فِيهِ".
ہم سے محمد ابن المثنی نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے یحییٰ نے ہشام کے واسطے سے بیان کیا، ان سے فاطمہ نے اسماء کے واسطے سے، وہ کہتی ہیں کہ ایک عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ یا رسول اللہ! فرمائیے ہم میں سے کسی عورت کو کپڑے میں حیض آ جائے (تو) وہ کیا کرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (کہ پہلے) اسے کھرچے، پھر پانی سے رگڑے اور پانی سے دھو ڈالے اور اسی کپڑے میں نماز پڑھ لے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 227 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 227  
تشریح:
معلوم ہوا کہ نجاست دور کرنے کے لیے پانی کا ہونا ضروری ہے۔ دوسری چیزوں سے دھونا درست نہیں۔ اکثر علماء کا یہی فتویٰ ہے۔ حنفیہ نے کہا ہے کہ ہر رقیق چیز جو پاک ہو اس سے دھو سکتے ہیں جیسے سرکہ وغیرہ، امام بخاری رحمہ اللہ و جمہور کے نزدیک یہ قول صحیح نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 227   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 227  
تخريج الحديث:
[166۔ بخاري 227، مسلم 291، ابن ماجه 629، نسائي 292]
لغوی توضیح:
«تَحُتُّهُ» اسے کھرچو۔
«تَقْرُصُهُ» اسے ملو۔
«بِالْمَاءِ» پانی کے ساتھ۔
«تَنْضَحُهُ» اس پر پانی چھڑکو۔
فھم الحدیث:
معلوم ہوا کہ حیض کا خون نجس ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ نے اس پر اجماع نقل فرمایا ہے۔ [شرح مسلم للنووي 200/3]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 166   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:227  
حدیث حاشیہ:

پہلے بچے کے پیشاب کے متعلق بیان تھا کہ اگر دودھ پیتا ہے تو اس کے پیشاب کو دھونے کی ضرورت نہیں صرف اس پر چھینٹے مار لینا ہی کافی ہے۔
اب خون کے متعلق حکم بیان ہوا کہ اسے دھونا ہو گا اس کے بغیر طہارت حاصل نہیں ہو گی۔
اس پر صرف چھینٹے مارنے سے کام نہیں چلے گا رسول اللہ ﷺ سے روایت کرنے والی خود حضرت اسما رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہیں جیسا کہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔
اگرچہ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو ضعیف قراردیا ہے تاہم روایت صحیح ہےاور بعض اوقات راوی حدیث بیان کرتے وقت اپنا نام ظاہر نہیں کرتا ایسا کرنے سے حدیث کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
(فتح الباري: 431/1)

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ خطابی کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس حدیث کے پیش نظر صرف خالص پانی ہی سے نجاسات کا ازالہ ہو سکتا ہے، پانی کے علاوہ دیگر مائع اور سیال چیزوں سے طہارت حاصل نہیں ہو سکتی، کیونکہ خون حیض کی طرح دیگر نجاستوں کا بھی یہی حکم ہے۔
جیسا کہ جمہور کا موقف ہے۔
بعض اہل علم کا کہنا ہے کہ پانی کے علاوہ بھی ہر سیال چیز سے نجاست کا ازالہ ہو سکتا ہے۔
ان کی دلیل حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ایک حدیث ہے فرماتی ہیں کہ ہمارے ہاں کپڑوں کی فراوانی نہ تھی، صرف ایک ہی جوڑا ہوتا۔
اگر اسے خون حیض لگ جاتا تو اس جگہ کو تھوک سے تر کر کے ناخنوں سے رگڑ دیا جاتا۔
(صحیح البخاري، الحیض، حدیث: 312)
لیکن یہ حدیث ان حضرات کی دلیل نہیں بن سکتی کہ پانی کے بغیر طہارت حاصل کی جا سکتی ہے، کیونکہ اس میں ہے کہ خون کے اثرات کو تھوک سے زائل کیا جاتا، لیکن نماز کے وقت اسے دھوکر پاک کیا جاتا، پھر اس میں نماز ادا کی جاتی۔
جیسا کہ اس کی وضاحت حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ایک روایت میں ہے۔
(صحیح البخاري، الحیض، حدیث: 306)
اگرچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے دیگر احتمالات کا بھی ذکر کیا ہے، لیکن وہ سب امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کے خلاف معلوم ہوتے ہیں، اس لیے ان کے کہنے کے مطابق یہی زیادہ قوی ہے۔
(فتح الباري: 535/1)

دور حاضر میں جنسی لٹریچر عام ہو رہا ہے، مغربی تہذیب و ثقافت کو مسلمانوں پر جبراً مسلط کیا جا رہا ہے۔
ایسے حالات میں اس قسم کی احادیث کو عام کرنے کی ضرورت ہے جن سے صنف نازک کے دین دنیا اور جسم و روح کو طہارت ملتی ہے۔
ان احادیث میں عورتوں کے پوشیدہ معاملات پر روشنی ڈالی گئی ہے اور انھیں اسلامی ہدایات دی گئی ہیں۔
انھیں بیان کرنے میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے، صحابیات اگر ایسے معاملات میں شرم سے کام لیتیں تو عورت کی زندگی کے اہم اور پوشیدہ بے شمار گوشے اسلامی ہدایات سے محروم رہتے۔

علامہ عینی نے اس حدیث کے تحت مندرجہ ذیل فوائد ذکر کیے ہیں:
۔
(1)
۔
خون (حیض)
بالا جماع نجس ہے۔

کسی چیز کو پاک کرنے میں عدد غسل ضروری نہیں صرف نجاست سے صفائی شرط ہے۔

جن کپڑوں میں حیض آیا ہو اگر ان پر خون کا نشان نظر نہ آئے تو ان پر پانی ڈالنے کے بعد ان میں نماز پڑھی جا سکتی ہے۔
(عمدة القاري: 631/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 227   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 27  
´خون کو اولاً خوب رگڑنے کا حکم ہے`
«. . . ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال في دم الحيض يصيب الثوب: تحته،‏‏‏‏ ثم تقرصه بالماء،‏‏‏‏ ثم تنضحه،‏‏‏‏ ثم تصلي فيه . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حیض کا خون جو کپڑے کو لگ جائے کے متعلق فرمایا پہلے اسے کھرچ ڈالو پھر پانی سے مل کر دھو لو پھر اس پر کھلا پانی بہاؤ پھر اس میں نماز پڑھ لو . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 27]
لغوی تشریح:
«تَحُتُّهُ» تا کے فتحہ، حا کے ضمہ اور دوسری تا کی تشدید اور ضمہ کے ساتھ۔ باب «نَصَرَ يَنْصُرُ» سے صیغہ واحد مؤنث غائب ہے۔ «حُتّ» سے ماخوذ ہے جس کے معنی مَلنے اور کھرچنے کے ہیں۔ اس سے مراد کپڑے پر لگے ہوئے خون کو اچھی طرح مَل کر اور کھرچ کر دور کرنا ہے۔ ھـ ضمیر منصوب «دَم» کی جانب راجع ہے۔
«ثُمَّ تَقْرُصُهُ» اس میں ھـ ضمیر کپڑے کی طرف راجع ہے۔ «تَقْرُصُهُ» کی را پر ضمہ ہے اور باب «نَصَرَ يَنْصُرُ» سے ہے۔ اس سے مراد ہے کہ کپڑے کو اپنے ہاتھ کی انگلیوں کے پوروں سے خوب مل کر دھویا جائے، یعنی عورت اس کپڑے پر پانی ڈال کر اچھی طرح بھگو کر تر کر لے، پھر اپنے ہاتھ کی انگلیوں کے اطراف کے ساتھ اچھی طرح مل کر دھوئے تاکہ خون کا جتنا حصہ کپڑے میں جذب ہو چکا تھا، وہ اس سے خارج ہو جائے۔
«ثُمَّ تَنْضَحُهُ» ضاد پر فتحہ ہے اور اسے کسرہ دینا بھی جائز ہے۔
«فَتَحَ يَفْتَحُ» اور «ضَرَبَ يَضْرِبُ» دونوں طرح درست ہے۔ معنی یہ ہوئے کہ آخر میں اس پر اچھی طرح پانی بہا کر دھو لے۔

فوائد و مسائل:
➊ خون کو اولاً خوب رگڑنے کا حکم ہے تاکہ پانی کے اس میں سرایت کرنے کا راستہ بن سکے، پھر اسے دھونے کا حکم ہے تاکہ خون کا اثر زائل ہو جائے۔ محض دھونے سے ایسی صفائی حاصل ہونا مشکل تھی۔
«نضح» کے لغوی معنی چھینٹے مارنے کے ہیں لیکن اگر پانی سے مل کر دھونے کے بعد وہ کپڑا مشکوک ہے تو محض چھینٹے مار لینا غیر مفید ہے، اس لیے کہ کپڑا اگر پاک ہے تو چھینٹے مارنے کی ضرورت ہی نہیں ہے اور اگر کپڑا پاک نہیں ہے تو صرف چھینٹے مارنے سے کپڑا پاک نہیں ہو گا، اس لیے اس مقام پر موقع کی مناسبت سے «نضح» کے معنی غسل (دھونا) کیے گئے ہیں جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب میں غسل کا ذکر کیا ہے اور اس کے تحت جو حدیث نقل کی ہے وہ «نضح» اور غسل دونوں پر حاوی ہے۔ پس یہ حدیث ہی «نضح» کے معنی غسل کے لینے کی واضح دلیل ہے۔
➌ خون حیض رگڑنے اور مَل کر دھونے کے باوجود اپنے اثرات اور نشانات باقی چھوڑے تو اس میں کوئی مضائقہ اور حرج نہیں۔ ایسے کپڑوں میں نماز پڑھی جا سکتی ہے جیسا کہ آنے والی حدیث اس کی تائید کرتی ہے۔

راوی حدیث:
SR سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا ER سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا زوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بڑی بہن ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی والدہ تھیں۔ مکہ میں ایمان لانے والے قدیم الاسلام مسلمانوں میں سے تھیں۔ مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کی۔ 73 ہجری میں اپنے بیٹے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے قتل کیے جانے کے تقریباً ایک ماہ بعد مکہ مکرمہ میں وفات پائی۔ اس وقت ان کی عمر تقریباً سو برس تھی۔ ایسی پیرانہ سالی کے باوجود ان کا کوئی دانت گرا نہ عقل میں کسی قسم کا کوئی تغیر پیدا ہوا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 27   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 394  
´حیض کا خون کپڑے میں لگ جانے کا بیان۔`
فاطمہ بنت منذر اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا سے روایت کرتی ہیں (جو ان کے زیر پرورش تھیں) کہ ایک عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حیض کے خون کے بارے میں جو کپڑے میں لگ جائے مسئلہ پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے رگڑ دو، اور ناخن سے مل لو، اور پانی سے دھو لو، اور اس میں نماز پڑھو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الحيض والاستحاضة/حدیث: 394]
394۔ اردو حاشیہ: دیکھیے ‘حدیث: 294 کے فوائدومسائل
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 394   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 294  
´حیض کا خون کپڑے میں لگ جانے کا بیان۔`
فاطمہ بنت منذر اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہم سے روایت کرتی ہیں (وہ ان کی گود میں پلی تھیں) کہ ایک عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کپڑے میں حیض کا خون لگ جانے کے متعلق پوچھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے کھرچ دو، پھر پانی ڈال کر انگلیوں سے رگڑو، پھر اسے دھو لو، اور اس میں نماز پڑھ لو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 294]
294۔ اردو حاشیہ: ناخنوں سے ملنا اور پانی ڈالنا اچھی طرح صفائی کر دیتا ہے۔ بعد میں پانی بہا کر نچوڑ لیا جائے۔ بعض حضرات نے «نضحي» کے معنی باقی کپڑے پر چھینٹے مارنا کیے ہیں، مگر یہ معنی بلاتکلف سمجھ میں نہیں آتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام بلاتکلف ہوتا تھا۔ بالفرض اگر یہ معنیٰ ہوں تو مراد مشکوک جگہ ہو گی اور مشکوک جگہ، خواہ مذی کی وجہ سے ہو، اس پر چھینٹے مارے جاتے ہیں، البتہ اگر کسی جگہ کے پلید ہونے کا یقین ہو تو لازماً دھونا ہو گا اور اگر باقی کپڑے کے پاک ہونے کا یقین ہے تو چھینٹے مارنے کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 294   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام27  
«و حيض»
اور حیض کا خون (نجس ہے)۔
حیض کا خون
➊ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کپڑے کو لگ جانے والے حیض کے خون کے متعلق فرمایا:
«تَحُتُّهُ، ثُمَّ تَقْرُصُهُ بِالْمَاءِ وَتَنْضَحُهُ وَتُصَلِّي فِيهِ»
پہلے اسے کھرچو، پھر پانی کے ساتھ مل کر دھو لو، پھر اس میں پانی بہا کر اس میں نماز پڑھ لو۔ [بخاري 307] ۱؎
➋ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت خولہ بنت یسار رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے پاس ایک ہی کپڑا ہے اور میں اس میں حائضہ ہو جاتی ہوں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِذَا طَهُرْتِ فَاغْسِلِيهِ ثُمَّ صَلِّي فِيهِ»
جب تو پاک ہو جائے تو خون کی جگہ کو دھو لے پر اس میں نماز پڑھ لے۔ تو انہوں نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! خواہ اس کا نشان ختم نہ ہو؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«يَكْفِيكِ غَسْلُ الدَّمِ وَلَا يَضُرُّكِ أَثَرُهُ»
تمہیں صرف پانی ہی کافی ہو جائے گا اس کا نشان تمہیں کچھ نقصان نہیں دے گا۔ [ابوداود 365] ۲؎
➌ حضرت ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«حُكِّيهِ بِضِلْعٍ وَاغْسِلِيهِ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ»
اسے کسی ٹیڑھی لکڑی کے ساتھ کھرچو پھر اسے پانی اور بیری کے پتوں کے ساتھ دھو ڈالو۔ [أبو داود 363] ۳؎
مذکورہ احادیث میں موجود حیض کے خون کو دھونے اور کھرچنے کا حکم اس کے نجس و پلید ہونے کی واضح دلیل ہے۔ [السيل اجرار 45/1]
------------------
۱؎ [بخاري 307، كتاب الحيض: باب غسل دم الحيض، مسلم 291، ابن أبى شيبة 95/1، مؤطا 60/1، ابوداود 360، ترمذي 138، نسائي 155/1، ابن ماجة 629، دارمي 239/1، ابن خزيمة 275، بيهقي 13/1، ابن حبان 1383، أبو عوانة 206/1]
۲؎ [صحيح: إرواء الغليل 190/1، ابوداود 365، كتاب الطهارة: باب المرأة تغسل ثوبها . . .، بيهقي 408/2، أحمد 360/2]
۳؎ [صحيح: صحيح أبو داود 349، أيضا، أبو داود 363، نسائي 154/1، أحمد 355/9، ابن ماجة 628، ابن خزيمة 141/1]
* * * * * * * * * * * * * *

مطلقاً خون کا حکم
حیض کے خون کے علاوہ بقیہ تمام خونوں کے نجس و پلید ہونے کے دلائل واضح و مضبوط نہیں ہیں بلکہ مضطرب، ضعیف ہیں اس لیے اصل (طہارت) کی طرف رجوع کرنا ہی بہتر ہے تاوقتیکہ کوئی واضح دلیل مل جائے۔ نیز اس آیت:
«قُل لَّا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ»[6-الأنعام:145]
سے استدلال کرتے ہوئے خون کو نجس قرار دینا درست نہیں کیونکہ اس آیت میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ لفظ «رجس» سے مراد صرف خنزیر کا گوشت ہی ہے یا بقیہ تمام اشیاء بھی۔ اس کے برخلاف صحیح و قوی دلائل سے ثابت ہوتا ہے کہ بقیہ تمام خون پاک ہیں۔
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گھاٹی میں اتر کر صحابہ رضی اللہ عنہم سے کہا: آج رات کون ہمارا پہرہ دے گا؟ تو مہاجرین و انصار میں سے ایک ایک آدمی کھڑا ہو گیا پھر انہوں نے گھاٹی کے دہانے پر رات گزاری۔ انہوں نے رات کا وقت پہرے کے تقسیم کر لیا، لہٰذا مہاجر سو گیا اور انصاری کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگا۔ اچانک دشمن کے ایک آدمی نے انصاری کو دیکھا اور اسے تیر مار دیا۔ انصاری نے تیر نکال دیا اور اپنی نماز جاری رکھی۔ پھر اس نے دوسرا تیر مارا تو انصاری نے پھر اسی طرح کیا۔ پھر اس نے تیسرا تیر مارا تو اس نے تیر نکال کر رکوع و سجدہ کیا اور اپنی نماز کو مکمل کر لیا۔ پھر اس نے اپنے ساتھی کو جگایا جب اس نے اسے ایسی (خون آلود) حالت میں دیکھا تو کہا: جب پہلی مرتبہ اس نے تمہیں تیر مارا تو تم نے مجھے کیوں نہیں جگایا؟ تو اس نے کہا: میں ایک سورت کی تلاوت کر رہا تھا کہ جسے کاٹنا میں نے پسند نہیں کیا۔ [أبو داود 198] ۱؎
➋ امام حسن رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ
«مَا زَالَ الْمُسْلِمُونَ يُصَلُّونَ فِي جِرَاحَاتِهِمْ»
ہمیشہ سے مسلمان اپنے زخموں میں نماز پڑھتے چلے آ رہے ہیں۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اسے معلق بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري قبل الحديث 176]
جبکہ امام ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ نے اسے صحیح سند کے ساتھ موصول بیان کیا ہے۔ [فتح الباري 281/1]
(البانی رحمہ اللہ) یہ حدیث (یعنی جس میں صحابی کو تیر لگنے کا قصہ ہے) [أبو داود 198] حکماً مرفوع ہے کیونکہ یہ عادۃ ناممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع نہ ہوئی ہو، اگر کثیر خون ناقض ہوتا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسے بیان کر دیتے کیونکہ «تاخير البيان عن وقت الحاجة لا يجوز» ضرورت کے وقت سے وضاحت کو مؤخر کر دینا جائز نہیں۔ جیسا کہ علم الاصول میں یہ بات معروف ہے۔ اور اگر بالفرض یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مخفی رہ گئی ہو تو اللہ تعالیٰ پر یہ بات نہیں رہ سکتی تھی کہ جس پر زمین و آسمان کی کوئی چیز مخفی نہیں لہٰذا اگر خون ناقض یا نجس ہوتا تو اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی طرف وحی نازل فرما دیتے جیسا کہ یہ بات ظاہر ہے کسی پر مخفی نہیں ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ بھی اس کے قائل ہیں جیسا کہ ان کا بعض (گزشتہ مذکور) آثار معلق بیان کرنا اس کی دلیل ہے۔ [تمام المنة ص /52]
(ابن حزم رحمہ اللہ) اسی کے قائل ہیں۔ [المحلي 255/1]
فقہی اعتبار سے حیض کے خون اور بقیہ خونوں کو برابر قرار دینا دو وجوہ کی بنا پر واضح غلطی ہے۔
➊ اس پر کتاب و سنت میں کوئی دلیل نہیں ہے اور اصل براءت ذمہ ہے الا کہ کوئی نص مل جائے۔
➋ یہ سنت کے مخالف ہے جیسا کہ گزشتہ انصاری صحابی کی حدیث (انسان کے خون کے متعلق) بیان کر دی گئی ہے۔ علاوہ ازیں حیوان کے خون کے متعلق حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے صحیح حدیث میں مروی ہے کہ انہوں نے اونٹ کو نحر کیا تو اس کا خون اور اوجھ کا گوبر انہیں لگ گیا درایں اثناء نماز قائم کر دی گئی۔ انہوں نے بھی نماز پڑھی لیکن وضوء نہیں کیا۔ [ابن أبى شيبة 392/1] ۲؎
(شوکانی رحمہ اللہ) حیض کے خون پر بقیہ خونوں کو قیاس کرنا صحیح نہیں، نیز بقیہ خونوں کے نجس ہونے کے متعلق کوئی صریح دلیل موجود نہیں۔ [السيل الجرار 40/1]
(صدیق حسن خان رحمہ اللہ) بقیہ تمام خونوں کے نجس ہونے کے دلائل مختلف و مضطرب ہیں۔ [الروضة الندية 82/1]

اس مسئلے میں فقہاء نے اختلاف کیا ہے۔
(قرطبی رحمہ اللہ) خون کے نجس ہونے پر علماء کا اتفاق ہے۔ [تفسير قرطبي 221/2]
اس کے جواب میں شیخ البانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ یہ بات محل نظر ہے جیسا کہ ابھی حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث نقل کی گئی ہے۔ [التعليقات الرضية على الروضة الندية 110/1]
(احناف) خون پیشاب اور شراب کی طرح پلید ہے۔ اگر ایک درہم سے زائد کپڑے کو لگا ہو تو اس میں نماز جائز نہیں لیکن اگر درہم یا اس سے کم مقدار میں لگا ہو تو نماز درست ہے کیونکہ یہ اتنی قلیل مقدار ہے کہ جس سے بچنا ناممکن ہے۔ [عمدة القاري 903/1]
انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی روایات سے استدلال کیا ہے، لیکن وہ ضعیف ہیں۔ [تحفة الأحوذي 447/1]
(احمد رحمہ اللہ، اسحاق رحمہ اللہ) اگر مقدار درہم سے زائد خون بھی کپڑے کو لگا ہو تب بھی نماز کو نہیں دہرایا جائے گا۔ (کیونکہ یہ نجس نہیں ہے) جیسا کہ گزشتہ احادیث اس پر شاہد ہیں۔ [تحفة الأحوذي 447/1]
(راجح) امام احمد رحمہ اللہ کا موقف راجح ہے کیونکہ گزشتہ صریح دلائل اسی کے متقاضی ہیں۔
۱؎ [صحيح، صحيح أبو داود 193، كتاب الطهارة: باب الوضوء من الدم، أبو داود 198، احمد 343/3، دارقطني 322/1، ابن خزيمة 36، حاكم 1571، بيهقي 140/1]
۲؎ [صحيح: تمام المنه ص /52، عبد الرزاق 125/1، ابن أبى شيبة 392/1، طبراني كبير 284/9، الجعديات للبغوي 887/2]
* * * * * * * * * * * * * *

   فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 148   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 138  
´کپڑے سے حیض کا خون دھونے کا بیان۔`
اسماء بنت ابی بکر رضی الله عنہما کہتی ہیں کہ ایک عورت نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے اس کپڑے کے بارے میں پوچھا جس میں حیض کا خون لگ جائے، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اسے کھرچ دو، پھر اسے پانی سے مل دو، پھر اس پر پانی بہا دو اور اس میں نماز پڑھو۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 138]
اردو حاشہ:
1؎:
سنن دارقطنی میں اس سلسلہ میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث بھی آئی ہے اس کے الفاظ یہ ہیں ((إِذَا كَانَ فِي الثَّوبِ قَدرَ الدِّرهَمِ مِنَ الدَّمِ غُسِلَ الثَّوبُ وَأُعِيدَتِ الصَّلَاةُ)) امام بخاری نے اس حدیث کو باطل کہا ہے کیونکہ اس میں ایک راوی روح بن غطیف منکرالحدیث ہے۔
2؎ ؎:
اور یہی قول امام ابوحنیفہ کا بھی ہے،
وہ کہتے ہیں کہ قلیل نجاست سے بچ پانا ممکن نہیں اس لیے ان لوگوں نے اسے معفو عنہ کے درجہ میں قرار دیا ہے اور اس کی تحدید درہم کی مقدار سے کی ہے اور یہ تحدید انہوں نے مقام استنجاء سے اخذ کی ہے۔

3؎:
ان لوگوں کی دلیل جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے جس کے الفاظ یہ ہیں ((أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ كَانَ فِي غَزْوَةِ ذَاتِ الرِّقَاعِ فَرَمَى رَجُلٌ بِسَهْمٍ فَنَزفه الدَّمُ فَرَكَعَ وَسَجَدَ وَمَضَى فِي صَلَاتِه)) لیکن جسم سے نکلنے والے عام خون،
اور حیض کے خون میں فرق بالکل ظاہر ہے۔

4؎:
کیو نکہ امام شافعی نجاست میں تفریق کے قائل نہیں ہیں،
نجاست کم ہو یا زیادہ دونوں صورتوں میں ان کے نزدیک دھونا ضروری ہے،
ان کا کہنا ہے کہ اس سلسلہ میں جو نص ہے (وہ یہی حدیث ہے) وہ مطلق ہے اس میں کم و زیادہ کی کوئی تفصیل نہیں اور یہی راجح قول ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 138   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:322  
322- فاطمہ بنت منذر بیان کرتی ہیں: انہوں نے سیدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا: ایک خاتون نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حیض کے خون کے بارے میں دریافت کیا: جو کپڑے پر لگ جاتا ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اسے کھرچ دو اور پھر پانی کے ذریعے دھو دو پھر اس پر پانی چھڑکو اور اس میں نماز ادا کرلو۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:322]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جس کپڑے کو حیض کا خون لگا ہو، اس کو اچھی طرح تسلی سے دھونا چاہیے کیونکہ حیض کا خون ناپاک ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 322   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 675  
حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ایک عورت نبی اکرم ﷺ کے پاس آئی اور پوچھا ہم میں سے کسی کے کپڑے کو حیض کا خون لگ جاتا تو وہ اس کے بارے میں کیا کرے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے کھرچ ڈالے، پھر پانی ڈال کر اسے (رگڑے) پھر اس پر پانی بہا دے (دھو لے) پھر اس میں نماز پڑھ لے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:675]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
تَحُتُّهُ:
اس کو کھرچ ڈالے۔
(2)
تَقْرُصُهُ:
اس كو انگليوں سے ملے،
رگڑے ساتھ ساتھ پانی ڈالے تاکہ اس کا جرم اور مادہ زائل ہو جائے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 675   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:307  
307. حضرت اسماء بنت ابی بکر‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے کہا: ایک عورت نے رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا، کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! جب ہم عورتوں میں سے کسی کے کپڑے کو حیض کا خون لگ جائے تو وہ کیا عمل کرے؟ اس کے متعلق ارشاد فرمائیے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا؛ "جب تم میں سے کسی کے کپڑے کو حیض کا خون لگ جائے تو اسے اپنی چٹکیوں سے ملے، پھر اسے پانی سے دھو ڈالے، پھر اس میں نماز پڑھ لے۔" [صحيح بخاري، حديث نمبر:307]
حدیث حاشیہ:

اس عنوان کے تحت جو احادیث بیان ہوئی ہیں، ان میں حیض کے خون کو دھونے کاطریقہ بیان ہوا ہے کہ اس کپڑے کو خون سے پاک کرنے کے لیے مبالغے سے کام لیا جائے۔
وہ اس طرح کہ پہلے تو تھوڑا تھوڑا پانی ڈال کر انگلیوں کے پودوں سے ملا جائے، پھر اسے دھویا جائے، پھر اسی کپڑے میں نماز پڑھنے کی بھی اجازت ہے۔
چٹکیوں سے ملنے کا یہ فائدہ ہے کہ کپڑے کے تاروں میں جو خون پیوست ہوگیا تھا وہ نکل جائے گا۔
مقصد یہ ہے کہ حیض کے خون کو دھوتے وقت خوب مبالغے سے کام لیا جائے۔

امام بخاری ؒ نے کتاب الوضوء میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا تھا:
"باب غسل الدم" جس میں ہر قسم کے خون کو دھونے کا بیان تھا، پھر غسل منی کے متعلق بیان کیا تھا کہ اس کے دھونے میں عام ابتلا کی وجہ سے کچھ تخفیف تھی۔
اس سے شاید کوئی خیال کرتا کہ دم حیض کے دھونے میں بھی تخفیف ہے، لہذا اس خیال کو دور کرنے کے لیے فرمایا:
اسے دھونے کے لیے خصوصی اہتمام کی ضرورت ہے۔
خون حیض کی نجاست پر اجماع ہے اس حدیث کے آخر میں ہے کہ پھر تمام کپڑے پر پانی بہادیا جائے، حافظ ابن حجر ؒ نے اسے دفع وسوسہ کے لیے قراردیا ہے۔
(فتح الباري: 532/1)
اس سے پہلی حدیث میں غسل دم استحاضہ کا بیان تھا، یہاں دم حیض کے متعلق وضاحت فرمائی۔
ان میں فرق واضح کرنے کے لیے ایسا کام کیا ہے کہ دم حیض کومبالغے سے دھویا جائے، جبکہ دم استحاضہ میں زیادہ کاوش کی ضرورت نہیں۔
دوسرا فرق آئندہ باب میں بیان ہوگا کہ حائضہ مسجد میں داخل نہیں ہوسکتی، جبکہ مستحاضہ مسجد میں اعتکاف بھی بیٹھ سکتی ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دم استحاضہ کی نجاست دم حیض کے مقابلے میں ذرا خفیف ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 307