Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب قيام الليل وتطوع النهار
کتاب: تہجد (قیام اللیل) اور دن میں نفل نمازوں کے احکام و مسائل
28. بَابُ : الْحَثِّ عَلَى الْوِتْرِ قَبْلَ النَّوْمِ
باب: سونے سے پہلے وتر پڑھ لینے کی ترغیب کا بیان۔
حدیث نمبر: 1678
أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ سَلْمٍ , وَمُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ شَقِيقٍ , عَنِ النَّضْرِ بْنِ شُمَيْلٍ، قال: أَنْبَأَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي شِمْرٍ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قال:" أَوْصَانِي خَلِيلِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلَاثٍ: النَّوْمِ عَلَى وِتْرٍ , وَصِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ , وَرَكْعَتَيِ الضُّحَى".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے تین باتوں کی وصیت کی ہے: وتر پڑھ کر سونے کی، ہر مہینہ تین دن کے روزے رکھنے کی، اور چاشت کی دونوں رکعتیں پڑھنے کی۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/التھجد 33 (1178)، الصیام 60 (1981)، صحیح مسلم/المسافرین 13 (721)، (تحفة الأشراف: 13618)، مسند احمد 2/459، سنن الدارمی/الصلاة 151 (1495)، الصوم 38 (1786) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی تیرھویں چودھویں اور پندرھویں تاریخ کو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

سنن نسائی کی حدیث نمبر 1678 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1678  
1678۔ اردو حاشیہ:
➊ خلیلی، خلیل وہ ہوتا ہے جس کے ساتھ دلی لگاؤ اور محبت سب سے بڑھ کر ہو۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کس سے محبت ہو سکتی ہے؟ لہٰذا مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو خلیل نہیں بنایا مگر اللہ کے رسول کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تو خلیل بناسکتے ہیں۔
وترپڑھ کر کیونکہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ طالب علم تھے۔ طالب علموں کی، شغل علم وغیرہ کی بنا پر، صبح جلدی آنکھ نہیں کھلتی، لہٰذا وہ وتر پڑھ کر سوئیں تاکہ وتر ضائع نہ ہو جائیں، البتہ جو شخص تہجد کا عادی ہے اور اسے فجر سے قبل جاگنے میں کوئی دقت نہیں، اس کے لیے وتر آخر رات ہی میں مناسب ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1678   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 1981  
´ایام بیض کے روزے`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" أَوْصَانِي خَلِيلِي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِثَلَاثٍ: صِيَامِ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَرَكْعَتَيِ الضُّحَى وَأَنْ أُوتِرَ قَبْلَ أَنْ أَنَامَ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ہر مہینے کی تین تاریخوں میں روزہ رکھنے کی وصیت فرمائی تھی۔ اسی طرح چاشت کی دو رکعتوں کی بھی وصیت فرمائی تھی اور اس کی بھی کہ سونے سے پہلے ہی میں وتر پڑھ لیا کروں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّوْمِ: 1981]
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب ایام بیض کے متعلق قائم کیا ہے مگر حدیث میں ایام بیض کے کوئی الفاظ وارد نہیں اور یہاں الفاظ میں موافقت بھی نہیں ہے۔ دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے موافق دوسرے طریق کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
علامہ عبدالحق الھاشمی رحمہ الله فرماتے ہیں:
«اورد البخاري فى الباب حديث ابي هريرة، قال الامام ابن بطال و الاسماعيل، ليس فى الحديث الذى اور د البخاري فى هذا الباب ما يطابق الترجمة، لان الحديث مطلق فى ثلاثة ايام من كل شهر، و ابيض مقيدة بما ذكر وأجيب بأن البخاري رحمه الله جرٰي على عادته فى الايماء إلى ما ورد فى بعض طرق الحديث من التصريح بأيام البيض» [لب اللباب فى تراجم والأبواب، ج2، ص85]
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث وارد فرمائی ہے، امام ابن بطال اور اسماعیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حدیث میں وہ الفاظ نہیں ہیں جس کا ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ذکر فرمایا ہے۔ یعنی ترجمۃ الباب اور حدیث میں مطابقت نہیں ہے۔ کیونکہ حدیث مطلق تین روزوں پر دلالت کرتی ہے ہر ماہ اور ایام بیض کے روزے مقید ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے مطابق اشارہ فرمایا ہے اس حدیث کے بعض طرق کی جانب جس میں (ان تین روزوں کا ذکر) تصریح کے ساتھ ایام بیض سے کیا گیا ہے۔‏‏‏‏
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ليس فى الحديث الذى أورده البخاري فى هذا الباب ما يطابق الترجمة، لأن الحديث مطلق فى ثلاثة ايّام من كل شهر والبيض مقيدة بما ذكر، وأجيب بأن البخاري جري على عادته فى الإيماء إلى ما ورد فى بعض طرق الحديث . . .» [فتح الباري، ج5، ص284]
امام بخاری رحمہ اللہ نے جو باب قائم فرمایا ہے اس کی مطابقت پر حدیث نہیں ہے، کیوں کہ حدیث میں مطلق ہر ماہ تین دن کے روزوں کا ذکر ہے اور ایام بیض مقید ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی عادت کے موافق اس حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس کو أحمد اور نسائی اور ابن حبان نے نکالا ہے۔‏‏‏‏
«عن ابي هريرة رضى الله عنه قال: جاء أعرابي إلى النبى صلى الله عليه وسلم بأرنب قد شواها، فأمرهم أن ياكلوا وأمسك الاعرابي فقال: ما منعك أن تأكل فقال أني أصوم ثلاثة أيام من كل شهر، قال إن كنت صائما فصم الغر، أى البيض .» [سنن النسائي، كتاب الصيد والذبائح رقم 4310، إرواء الغليل، ج4، ص100]
«وفي بعض طرقه عند النسائي: إن كنت صائمًا فصم الغر، أى بيض .» [سنن النسائي، كتاب الصيام رقم 2427]
ایک اعرابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا جو بھنا ہوا خرگوش لایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم بھی کھاؤ، اس نے کہا میں ہر ماہ تین دن روزے رکھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر تو روزے رکھتا ہے تو سفید دنوں میں یعنی ایام بیض میں رکھا کر۔
اس حدیث سے واضح باب اور حدیث میں مطابقت قائم ہو گئی کہ باب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے جو ایام بیض کا ذکر فرمایا ہے یہ سنن النسائی اور ابن حبان کی حدیث کی طرف اشارہ ہے جس میں واضح ایام بیض کے روزوں کا ذکر ہے یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت معلوم ہوتی ہے۔
امام ابن المنیر رحمہ اللہ نے بھی قریب قریب یہی مناسبت دی ہے۔ دیکھیے: [المتواري، ص139]
شیخ بدرالدین بن جماعۃ رقمطراز ہیں کہ:
«ترجم بايام البيض وذكر الثلاثة مطلقًا من كل شهر . . .» [مناسبات تراجم البخاري، ص 58]
ترجمۃ الباب میں ایام بیض کے الفاظ ہیں اور حدیث میں ہر ماہ تین روزے مطلق ذکر کیے گئے ہیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ یہ تین روزے ایام بیض ہی کے ہیں جس کا ذکر دوسری حدیث میں ہے۔ لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 294   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1432  
´سونے سے پہلے وتر پڑھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل (یار، صادق، محمد) صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کی وصیت کی ہے، جن کو میں سفر اور حضر کہیں بھی نہیں چھوڑتا: چاشت کی دو رکعتیں، ہر ماہ تین دن کے روزے اور وتر پڑھے بغیر نہ سونے کی ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1432]
1432. اردو حاشیہ: جس شخص کو سو جانے کے بعد فجر تک سوئے رہ جانے کا اندیشہ ہو اسے سونے سے پہلے وتر پڑھ لینے چاہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1432   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2371  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم (میرے باپ ماں آپ پر فدا ہوں) کا روزہ اور اس سلسلہ میں ناقلین حدیث کے اختلاف کا ذکر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چاشت کی دونوں رکعتوں کا حکم دیا، اور یہ کہ میں وتر پڑھے بغیر نہ سوؤں، اور ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھا کروں۔ [سنن نسائي/كتاب الصيام/حدیث: 2371]
اردو حاشہ:
یہ حکم استحبابی ہے وجوبی نہیں کیونکہ مذکورہ تینوں کام بالاتفاق مستحبات میں شمار ہوتے ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2371   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1672  
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل ﷺ نے تین چیزوں کی تلقین فرمائی، ہر ماہ تین روزے رکھوں، چاشت کی دو رکعت پڑھوں اور سونے سے پہلے وتر پڑھ لوں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1672]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رات کو احادیث کے یاد کرنے میں مشغول رہتے تھے دن کو بھی احادیث کے سماع کے سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو تین چیزوں کی وصیت کی۔
جس سے معلوم ہوا طلبہ علم کا یہ کم ازکم تربیتی کورس ہے کہ وہ ان تین باتوں کی پابندی کریں۔
اگر ان سے زائد امرکی پابندی کر لیں تو یہ اور بہتر ہو گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1672   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1981  
1981. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہاکہ مجھے میرے خلیل ﷺ نے تین باتوں کی وصیت فرمائی: ہر مہینے میں تین دن کے ر وزے رکھنا، اشراق پڑھنا اور نیند سے پہلے وتر پڑھنا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1981]
حدیث حاشیہ:
یہاں یہ اشکال ہوتا ہے کہ حدیث ترجمہ باب کے موافق نہیں ہے کیوں کہ حدیث میں ہر مہینے میں تین روزے رکھنے کا ذکر ہے۔
ایام بیض کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔
اور اس کا جواب یہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے اپنی عادت کے موافق اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کر دیا جسے امام احمد اور نسائی اور ابن حبان نے موسیٰ بن طلحہ سے نکالا۔
انہوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے۔
اس میں یوں ہے کہ آپ نے ایک اعرابی سے فرمایا جو بھنا ہوا خرگوش لایا تھا۔
تو بھی کھا۔
اس نے کہا میں ہر مہینے تین دن روزے رکھتا ہوں۔
آپ نے فرمایا اگر تو یہ روزے رکھتا ہے تو سفید دنوں میں یعنی ایام بیض میں رکھا کر۔
نسائی کی ایک روایت میں عبداللہ بن عمرو ؓ سے یوں ہے ہر دس دن میں ایک روزہ رکھا کر اور ترمذی نے نکالا کہ آپ ہفتہ اور اتوار اور پیر کو روزہ رکھا کرتے اور ایک روایت میں منگل، بدھ، جمعرات کا ذکر ہے غرض آپ کا نفلی روزہ ہمیشہ کے لیے کسی خاص دن میں معین نہ تھا۔
مگر ایام بیض کے روزے مسنون ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1981   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1178  
1178. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: مجھے میرے پیارے حبیب (رسول اللہ ﷺ) نے تین چیزوں کی وصیت فرمائی ہے، جب تک میں زندہ رہوں گا انہیں ترک نہیں کروں گا۔ وہ یہ ہیں: ہر مہینے کے تین روزے، نماز اشراق اور سونے سے پہلے نماز وتر کی ادائیگی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1178]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ جن روایات میں صلوۃ ضحی کی نفی وارد ہوئی ہے وہ نفی سفر کی حالت سے متعلق ہے پھر بھی اس میں بھی وسعت ہے اور جن روایات میں اس نماز کے لیے اثبات آیا ہے وہاں حالت حضرمراد ہے۔
ہر ماہ میں تین دن کے روزوں سے ایام بیض یعنی13,14,15 تاریخوں کے روزے مراد ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1178   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1178  
1178. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: مجھے میرے پیارے حبیب (رسول اللہ ﷺ) نے تین چیزوں کی وصیت فرمائی ہے، جب تک میں زندہ رہوں گا انہیں ترک نہیں کروں گا۔ وہ یہ ہیں: ہر مہینے کے تین روزے، نماز اشراق اور سونے سے پہلے نماز وتر کی ادائیگی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1178]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے اس قسم کی وصیت حضرت ابو درداء ؓ اور حضرت ابو ذر غفاری ؓ کو بھی فرمائی تھی، چنانچہ حضرت ابو درداء ؓ فرماتے ہیں کہ مجھے میرے حبیب ﷺ نے تین باتوں کی وصیت فرمائی، میں زندگی بھر ان پر عمل پیرا رہوں گا:
ہر ماہ کے تین روزے اشراق کی نماز اور سونے سے قبل وتروں کو ادا کرنا۔
(صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث: 1675(722)
حضرت ابوذر غفاری ؓ کہتے ہیں کہ مجھے بھی میرے حبیب رسول اللہ ﷺ نے تین باتوں کی وصیت کی تھی۔
اگر اللہ نے چاہا تو میں انہیں کبھی ترک نہیں کروں گا۔
مجھے نماز اشراق کی وصیت کی، سونے سے پہلے وتر پڑھنے کی تاکید فرمائی اور ہر ماہ تین روزے رکھنے کے متعلق فرمایا۔
(سنن النسائي، الصیام، حدیث: 2406)
رسول اللہ ﷺ نے ان تینوں حضرات کو تین باتوں کی وصیت فرمائی۔
یہ حضرات مالدار نہیں تھے، اس لیے ایسی باتوں کی تلقین فرمائی جن کا تعلق مال سے نہیں۔
آپ نے نماز اور روزے کی تلقین فرمائی جو بدنی عبادات میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔
(2)
امام بخاری ؒ نے عنوان میں حضر کا ذکر کیا ہے۔
حدیث میں سفر و حضر کا کوئی بیان نہیں، لیکن زیادہ امکان یہی ہے کہ اس کا تعلق حضر سے ہے، اگرچہ سفر و حضر دونوں سے بھی ہو سکتا ہے لیکن صرف سفر کے ساتھ اسے معلق کرنا صحیح نہیں۔
(فتح الباري: 75/3)
دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی نماز اشراق کے متعلق روایات کتب حدیث میں مروی ہیں، چنانچہ حضرت ابو سعید خدری ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اس قدر پابندی کے ساتھ نماز اشراق پڑھتے کہ ہم کہنا شروع کر دیتے کہ اب آپ اسے ترک نہیں کریں گے، پھر آپ ایک عرصے تک اسے ادا نہ کرتے حتی کہ ہم کہتے اب آپ اسے نہیں پڑھیں گے۔
(جامع الترمذي، الوتر، حدیث: 477)
اس نماز کی فضیلت کے متعلق حضرت ابو امامہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
نماز اشراق پڑھنے (کے لیے مسجد چل کر جانے)
والے کو عمرہ کرنے والے کے برابر اجر ملتا ہے۔
(مسندأحمد: 268/5)
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ امام حاکم نے نماز اشراق کے متعلق ایک مستقل جز تصنیف کیا ہے جس میں تقریبا بیس صحابۂ کرام کی مرویات جمع کر کے نماز اشراق کی مشروعیت ثابت کی ہے۔
(فتح الباري: 72/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1178   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1981  
1981. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہاکہ مجھے میرے خلیل ﷺ نے تین باتوں کی وصیت فرمائی: ہر مہینے میں تین دن کے ر وزے رکھنا، اشراق پڑھنا اور نیند سے پہلے وتر پڑھنا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1981]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے جو عنوان قائم کیا ہے وہ پیش کردہ روایت کی وضاحت کے لیے ہے کیونکہ حدیث میں تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ کی صراحت نہیں ہے، گویا امام بخاری نے روایت کے اطلاق کو مقید کیا ہے۔
اور اس سے مراد وہ ایام ہیں جن میں چاند پوری طرح روشن ہوتا ہے، یعنی بدر اور اس سے ایک دن پہلے اور ایک دن بعد کا دن۔
(2)
امام بخاری نے اس روایت کی طرف اشارہ کیا ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو ذر ؓ سے فرمایا:
اے ابوذر! جب تو ہر ماہ میں تین دن کے روزے رکھنا چاہے تو تیرہ، چودہ اور پندرہ کو روزہ رکھا کر۔
(جامع الترمذي، الصوم، حدیث: 761)
حضرت جریر بن عبداللہ ؓ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:
ہر مہینے میں تین دن کے روزے رکھنا زمانہ بھر کے روزوں کے برابر ہے اور وہ ایام بیض، یعنی تیرہ، چودہ اور پندرہ کو روزے رکھنا ہے۔
(سنن النسائي، الصوم، حدیث: 2422) (3)
عام طور پر سورج گرہن بھی انہی تاریخوں کو ہوتا ہے۔
جب اس طرح اتفاق ہو جائے تو گرہن کے موقع پر نماز، صدقہ اور روزہ جیسی عبادات جمع ہو جاتی ہیں جبکہ باقی تاریخوں میں روزہ رکھنے سے یہ سعادت حاصل نہیں ہوتی۔
(فتح الباري: 288/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1981