سنن نسائي
كتاب قيام الليل وتطوع النهار
کتاب: تہجد (قیام اللیل) اور دن میں نفل نمازوں کے احکام و مسائل
7. بَابُ : فَضْلِ صَلاَةِ اللَّيْلِ فِي السَّفَرِ
باب: سفر میں قیام اللیل (تہجد) پڑھنے کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1616
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قال: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مَنْصُورٍ، قال: سَمِعْتُ رِبْعِيًّا، عَنْ زَيْدِ بْنِ ظَبْيَانَ رَفَعَهُ إِلَى أَبِي ذَرٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" ثَلَاثَةٌ يُحِبُّهُمُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، رَجُلٌ أَتَى قَوْمًا فَسَأَلَهُمْ بِاللَّهِ وَلَمْ يَسْأَلْهُمْ بِقَرَابَةٍ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُمْ فَمَنَعُوهُ، فَتَخَلَّفَهُمْ رَجُلٌ بِأَعْقَابِهِمْ فَأَعْطَاهُ سِرًّا لَا يَعْلَمُ بِعَطِيَّتِهِ إِلَّا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَالَّذِي أَعْطَاهُ، وَقَوْمٌ سَارُوا لَيْلَتَهُمْ حَتَّى إِذَا كَانَ النَّوْمُ أَحَبَّ إِلَيْهِمْ مِمَّا يُعْدَلُ بِهِ نَزَلُوا فَوَضَعُوا رُءُوسَهُمْ، فَقَامَ يَتَمَلَّقُنِي وَيَتْلُو آيَاتِي، وَرَجُلٌ كَانَ فِي سَرِيَّةٍ فَلَقُوا الْعَدُوَّ فَانْهَزَمُوا فَأَقْبَلَ بِصَدْرِهِ حَتَّى يُقْتَلَ أَوْ يُفْتَحَ لَهُ".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین شخص سے اللہ تعالیٰ محبت رکھتا ہے: ایک وہ شخص جو کسی قوم کے پاس آیا، اور اس نے ان سے اللہ کا واسطہ دے کر مانگا، آپ سی قرابت کا واسطہ دے کر نہیں مانگا، تو انہوں نے اسے نہیں دیا، پھر انہی میں سے ایک آدمی ان کے پیچھے سے آیا، اور چھپا کر چپکے سے اسے دیا، اور اس کے اس صدقہ دینے کو سوائے اللہ تعالیٰ کے اور اس شخص کے جس کو اس نے دیا ہے کوئی نہیں جانتا، اور دوسرا آدمی وہ ہے جس کے ساتھ کے لوگ رات بھر چلتے رہے یہاں تک کہ جب نیند انہیں بھلی معلوم ہونے لگی تو وہ اترے اور سو رہے، لیکن وہ خود کھڑا ہو کر اللہ کے سامنے عاجزی کرتا رہا، اور اس کی آیتیں تلاوت کرتا رہا، اور تیسرا وہ شخص ہے جو ایک لشکر میں تھا، دشمن سے ان کی مڈبھیڑ ہوئی، تو وہ ہار گئے (جس کی وجہ سے بھاگنے لگے) لیکن وہ سینہ سپر رہا یہاں تک کہ وہ مارا جائے، یا اللہ اسے فتح دے“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/صفة الجنة 25 (2568)، (تحفة الأشراف: 11913)، مسند احمد 5/153، ویأتی عند المؤلف برقم: 2571 (کلھم بسیاق فیہ زیادة) (ضعیف) (اس کے راوی ”زیدبن ظبیان“ لین الحدیث ہیں)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
سنن نسائی کی حدیث نمبر 1616 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1616
1616۔ اردو حاشیہ:
➊ تین آدمی، یعنی تین قسم کے آدمی، خواہ وہ ہزاروں لاکھوں ہوں۔
➋ ”پہلا وہ آدمی“ یعنی عطیہ دینے والا، نہ کہ مانگنے والا۔
➌ مخفی صدقہ کرنے کی فضیلت معلوم ہوئی۔
➍ اللہ تعالیٰ کی صفت محبت ثابت ہوئی، جیسے اس کی شان کے لائق ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1616
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2571
´صدقہ و خیرات دینے والے کے ثواب کا بیان۔`
ابوذر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ عزوجل محبت کرتا ہے، اور تین آدمی ایسے ہیں جن سے اللہ عزوجل بغض رکھتا ہے، رہے وہ جن سے اللہ محبت کرتا ہے تو وہ یہ ہیں: ایک شخص کچھ لوگوں کے پاس گیا، اور اس نے ان سے اللہ کے نام پر کچھ مانگا، اور مانگنے میں ان کے اور اپنے درمیان کسی قرابت کا واسطہ نہیں دیا۔ لیکن انہوں نے اسے نہیں دیا۔ تو ایک شخص ان لوگوں کے پیچھے سے مانگنے والے کے پاس آیا۔ اور ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب الزكاة/حدیث: 2571]
اردو حاشہ:
(1) محبت اور بغض اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں جن کا قرآن وحدیث میں بکثرت ذکر ملتا ہے، مگر کچھ لوگ فلسفے کے بعض غیر مسلم اصولوں سے متاثر ہو کر ان صفات کی نفی کرتے ہیں اور ان سے صرف انعام وانتقام مراد لیتے ہیں، حالانکہ یہ الگ دو صفات ہیں جو اللہ تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں۔ ان لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ کیا وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات سے واقفیت رکھتے ہیں؟ لفظ سے وہی معنیٰ مراد لینے چاہئیں جو ایک سادہ سننے والے کی سمجھ میں آتے ہیں، حقیقت ہو یا مجاز۔ اگر ان صفات کا عام مفہوم اللہ تعالیٰ کے لائق نہ ہوتا تو ضرور بیان کر دیا جاتا۔
(2) جن تین آدمیوں سے اللہ تعالیٰ کے محبت فرمانے کا تعلق ہے۔ ان میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے خلوص۔ تینوں ریا کاری سے کوسوں دور ہیں اور صرف اللہ تعالیٰ کے لیے اپنا مال، آرام اور جان قربان کرتے ہیں۔
(3) زنا، تکبر اور ظلم ہر حال میں کبیرہ گناہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں۔ اور ان کا فاعل اللہ تعالیٰ کے نزدیک مبغوض ہے مگر جب ان کے فاعل کے پاس ذرہ بھر بھی عذر نہ ہو حتیٰ کہ عرفاً بھی نہ ہو تو یہ کام اکبر الکبائر بن جاتے ہیں۔ نوجوان کے پاس شہوت، مالدار کے پاس مال اور فقیر کے ہاں فقر ان جرائم کا عذر عرفاً بن سکتے ہیں مگر بوڑھے کے پاس زنا اور فقیر کے پاس تکبر اور اکڑفوں اور مال دار کے پاس کسی کی حق تلفی کا کیا عذر ہو سکتا ہے؟ جسے شرعاً نہیں تو عرفاً ہی پیش کیا جا سکے۔ أَعَاذَنَا اللّٰہُ عَنْھَا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2571