سنن نسائي
كتاب السهو
کتاب: نماز میں سہو کے احکام و مسائل
65. بَابُ : نَوْعٌ آخَرُ مِنَ الذِّكْرِ بَعْدَ التَّشَهُّدِ
باب: تشہد کے بعد ایک اور طرح کے ذکر الٰہی کا بیان۔
حدیث نمبر: 1312
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَابِرٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ" يَقُولُ فِي صَلَاتِهِ بَعْدَ التَّشَهُّدِ: أَحْسَنُ الْكَلَامِ كَلَامُ اللَّهِ , وَأَحْسَنُ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشہد کے بعد اپنی نماز میں کہتے تھے: «أحسن الكلام كلام اللہ وأحسن الهدى هدى محمد صلى اللہ عليه وسلم» ”سب سے عمدہ کلام اللہ کا کلام ہے، اور سب سے بہتر طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 2618) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 1312 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1312
1312۔ اردو حاشیہ: خطبۂ وعظ میں تشہد کے بعد تو یہ الفاظ بہت جچتے ہیں کیونکہ یہ وعظ کی تمہید ہیں مگر نماز کے تشہد کے بعد ان الفاظ کی مناسبت معلوم نہیں ہوتی۔ امام نسائی رحمہ اللہ کا اس حدیث سے نماز والے تشہد کے بعد اس ذکر کے پڑھنے کا استدلال کرنا محل نظر ہے۔ اس سے مراد خطبے کا تشہد (شہادتین) ہے جیسا کہ مسند احمد کی روایت سے صراحت ہوتی ہے: «کان یقول في خطبته بعد التشھد: إنَّ أحْسَنَ الحَديثِ كِتابُ اللَّهِ، وأَحْسَنَ الهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم ………» ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبے میں شہادتین کے بعد یہ الفاظ: «إنَّ أحسن الحديثِ………» پڑھا کرتے تھے۔“ [مسند أحمد: 319/3] نیز یہاں”الصلاة“ سے مراد خطبہ ہے جیسا کہ مندرجہ بالا حدیث سے ظاہر ہوا۔ اور خطبے کی صلاۃ اس لیے کہا کہ یہ اس کے مقدمات اور مبادیات میں سے ہے، جیسا کہ خطبہ جمعہ ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید دیکھیے: [ذخیرة العقبیٰ شرح النسائي: 264/15]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1312