Note: Copy Text and Paste to word file

سنن نسائي
كتاب السهو
کتاب: نماز میں سہو کے احکام و مسائل
58. بَابُ : الدُّعَاءِ بَعْدَ الذِّكْرِ
باب: ذکر الٰہی کے بعد کی دعا کا بیان۔
حدیث نمبر: 1301
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ خَلِيفَةَ، عَنْ حَفْصِ بْنِ أَخِي أَنَسٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسًا يَعْنِي وَرَجُلٌ قَائِمٌ يُصَلِّي , فَلَمَّا رَكَعَ وَسَجَدَ وَتَشَهَّدَ دَعَا , فَقَالَ فِي دُعَائِهِ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِأَنَّ لَكَ الْحَمْدَ , لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ الْمَنَّانُ بَدِيعُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ , يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ , يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ إِنِّي أَسْأَلُكَ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ:" تَدْرُونَ بِمَا دَعَا" , قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , قَالَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ , لَقَدْ دَعَا اللَّهَ بِاسْمِهِ الْعَظِيمِ الَّذِي إِذَا دُعِيَ بِهِ أَجَابَ , وَإِذَا سُئِلَ بِهِ أَعْطَى".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (مسجد میں) بیٹھا ہوا تھا، اور ایک آدمی کھڑا نماز پڑھ رہا تھا، جب اس نے رکوع اور سجدہ کر لیا، اور تشہد سے فارغ ہو گیا، تو اس نے دعا کی، اور اپنی دعا میں اس نے کہا: «اللہم إني أسألك بأن لك الحمد لا إله إلا أنت المنان بديع السموات والأرض يا ذا الجلال والإكرام يا حى يا قيوم إني أسألك» اے اللہ! میں تجھ سے مانگتا ہوں اس لیے کہ تیرے ہی لیے تمام تعریفیں ہیں، نہیں ہے کوئی معبود برحق سوائے تیرے، تو بہت احسان کرنے والا ہے، تو ہی آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے اور وجود میں لانے والا ہے، اے عظمت و جلال اور احسان والے، ہمیشہ زندہ و باقی رہنے والے!، میں تجھی سے مانگتا ہوں۔ یہ سنا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے کہا: تم جانتے ہو اس نے کن لفظوں سے دعا کی ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اس نے تو اللہ سے اس کے اسم اعظم کے ذریعہ دعا کی ہے جس کے ذریعہ دعا کی جاتی ہے تو وہ قبول کرتا ہے، اور جب اس کے ذریعہ مانگا جاتا ہے تو وہ دیتا ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 358 (1495)، وقد أخرجہ: (تحفة الأشراف: 551)، مسند احمد 3/120، 158، 245 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح