Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْوَكَالَةِ
کتاب: وکالت کے مسائل کا بیان
13. بَابُ الْوَكَالَةِ فِي الْحُدُودِ:
باب: حد لگانے کے لیے کسی کو وکیل کرنا۔
حدیث نمبر: 2316
حَدَّثَنَا ابْنُ سَلَّامٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الثَّقَفِيُّ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ:" جِيءَ بِالنُّعَيْمَانِ، أَوِ ابْنِ النُّعَيْمَانِ شَارِبًا، فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ فِي الْبَيْتِ أَنْ يَضْرِبُوا"، قَالَ: فَكُنْتُ أَنَا فِيمَنْ ضَرَبَهُ، فَضَرَبْنَاهُ بِالنِّعَالِ وَالْجَرِيدِ.
ہم سے ابن سلام نے بیان کیا، کہا کہ ہم کو عبدالوہاب ثقفی نے خبر دی، انہیں ایوب نے، انہیں ابن ابی ملکیہ نے اور ان سے عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نعیمان یا ابن نعیمان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر کیا گیا۔ انہوں نے شراب پی لی تھی۔ جو لوگ اس وقت گھر میں موجود تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کو اسے مارنے کا حکم دیا۔ انہوں نے بیان کیا میں بھی مارنے والوں سے تھا۔ ہم نے جوتوں اور چھڑیوں سے انہیں مارا تھا۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2316 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2316  
حدیث حاشیہ:
نعیمان یا ابن نعیمان ؓ کے بارے میں راوی کو شک ہے۔
اسماعیلی کی روایت میں نعمان یا نعیمان ؓ مذکور ہے۔
حافظ نے کہا اس کا نام نعیمان بن عمرو بن رفاعہ انصاری تھا۔
بدر کی لڑائی میں شریک تھا اور بڑا خوش مزاج تھا۔
رسول کریم ﷺ نے گھر والوں کو مارنے کا حکم فرمایا۔
اس سے ترجمہ باب نکلتاہے کیوں کہ آپ ﷺ نے گھر کے موجود لوگوں کو مارنے کے لیے وکیل مقرر فرمایا۔
اسی سے حدود میں وکالت ثابت ہوئی اور یہی ترجمۃ الباب ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2316   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2316  
حدیث حاشیہ:
(1)
اسماعیلی کی روایت میں بغیر تردد اور شک کے نعیمان کے الفاظ ہیں۔
ان کا نام نعیمان بن عمرو بن رفاعہ انصاری ہے۔
یہ غزوۂ بدر میں شریک ہوئے۔
بڑے خوش مزاج قسم کے انسان تھے۔
انھوں نے شراب نوشی کی تو نشے کی حالت میں انھیں رسول اللہ ﷺ کے حضور پیش کر دیا گیا تو آپ نے گھر والوں ہی کو حد مارنے کا حکم دیا۔
گویا وہی آپ کی طرف سے وکیل تھے، چنانچہ ان میں سے کچھ نے جوتے مارے اور کچھ نے چھڑیوں سے پٹائی کردی۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ شراب کی حد تمام حدود سے ہلکی ہے، نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ حد کےلیے شرابی کو ہوش میں آنے کا انتظار نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے نشے کی حالت ہی میں حد لگائی جاسکتی ہے جبکہ حاملہ عورت کو بچہ جننے تک مہلت دی جائے گی، وضع حمل کے بعد اس پر حد جاری ہوگی۔
(فتح الباري: 620/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2316   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6774  
6774. حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نعیمان کو نشے کی حالت میں لایا گیا تو نبی ﷺ نے گھر میں موجود لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اس کو ماریں،چنانچہ لوگوں نے اسے مارا۔ میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے اسے جوتوں سے مارا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6774]
حدیث حاشیہ:
شرابی کے لیے یہی سزا کافی ہے کہ سب اہل خانہ اسے ماریں پھر بھی وہ باز نہ آئے تو اس کا معاملہ سنگین بن جاتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6774   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6775  
6775. حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کی خدمت میں نعیمان یا اس کے بیٹے کو حاضر کیا گیا جبکہ وہ شراب کے نشے میں دھت تھا۔ آپ ﷺ کو یہ حالت بہت ناگوار گزری تو آپ نے گھر میں موجود لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اس کو ماریں چنانچہ انہوں نے کھجور کی چھڑیوں اور جوتوں سے اس کو مارا۔ میں بھی ان لوگوں میں تھا جنہوں نے اسے مارا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6775]
حدیث حاشیہ:
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6775   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6774  
6774. حضرت عقبہ بن حارث ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نعیمان کو نشے کی حالت میں لایا گیا تو نبی ﷺ نے گھر میں موجود لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اس کو ماریں،چنانچہ لوگوں نے اسے مارا۔ میں بھی ان لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے اسے جوتوں سے مارا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6774]
حدیث حاشیہ:
(1)
کچھ حضرات کا موقف ہے کہ شرابی کو برسرعام سزا دینی چاہیے تاکہ دوسروں کو عبرت حاصل ہو۔
وہ دلیل کے طور پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایک عمل کا حوالہ دیتے ہیں کہ ان کے بیٹے ابو شحمہ نے مصر میں شراب نوشی کی تو وہاں کے حاکم حضرت عمروبن عاص رضی اللہ عنہ نے اسے گھر میں سزا دی۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو جب اس بات کا علم ہوا تو انھوں نے اسے مدینہ طیبہ طلب کیا اور برسرعام کوڑوں کی سزا دی، لیکن جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ شرابی کو اگر گھر میں سزا دی جائے تو جائز ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اپنے بیٹے کو سزا دینے میں مبالغہ مقصود تھا، یہ مطلب نہیں کہ گھر میں سزا دینی جائز نہیں ہے۔
(2)
امام بخاری رحمہ اللہ نے جمہور اہل علم کی تائید میں یہ روایت پیش کی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عمل ثابت ہے تو اس کے جواز میں کیا شبہ ہوسکتا ہے۔
(فتح الباري: 79/12)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6774