سنن نسائي
كتاب السهو
کتاب: نماز میں سہو کے احکام و مسائل
49. بَابُ : الأَمْرِ بِالصَّلاَةِ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم
باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پر صلاۃ (درود) بھیجنے کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 1286
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ , وَالْحَارِثُ بْنُ مِسْكِينٍ قِرَاءَةً عَلَيْهِ وَأَنَا أَسْمَعُ وَاللَّفْظُ لَهُ، عَنِ ابْنِ الْقَاسِمِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُجْمِرِ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ الْأَنْصَارِيَّ , وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ زَيْدٍ الَّذِي أُرِيَ النِّدَاءَ بِالصَّلَاةِ أَخْبَرَهُ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: أَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَجْلِسِ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ , فَقَالَ لَهُ بَشِيرُ بْنُ سَعْدٍ: أَمَرَنَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ نُصَلِّيَ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَكَيْفَ نُصَلِّ عَلَيْكَ , فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى تَمَنَّيْنَا أَنَّهُ لَمْ يَسْأَلْهُ، ثُمَّ قَالَ:" قُولُوا اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ , وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ , فِي الْعَالَمِينَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ , وَالسَّلَامُ كَمَا عَلِمْتُمْ".
ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی بیٹھک میں ہمارے پاس تشریف لائے، تو آپ سے بشر بن سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! اللہ نے ہمیں آپ پر صلاۃ (درود) بھیجنے کا حکم دیا ہے تو ہم آپ پر کیسے صلاۃ (درود) بھیجیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے یہاں تک کہ ہماری یہ خواہش ہونے لگی کہ کاش انہوں نے آپ سے نہ پوچھا ہوتا، پھر آپ نے فرمایا: کہو «اللہم صل على محمد وعلى آل محمد كما صليت على آل إبراهيم وبارك على محمد وعلى آل محمد كما باركت على آل إبراهيم في العالمين إنك حميد مجيد» ”اے اللہ! محمد اور آل محمد پر اسی طرح صلاۃ (درود) بھیج جس طرح تو نے آل ابراہیم پر صلاۃ (درود) بھیجا ہے، اور برکتیں نازل فرما محمد پر اور آل محمد پر اسی طرح جیسے تو نے آل ابراہیم پر تمام عالم میں برکتیں نازل فرمائی ہیں، بلاشبہ تو ہی تعریف اور بزرگی کے لائق ہے) اور سلام بھیجنا تو تم جانتے ہی ہو“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 17 (405)، سنن ابی داود/الصلاة 183 (980، 981)، سنن الترمذی/تفسیر سورة الأحزاب (3220)، موطا امام مالک/السفر 22 (67)، مسند احمد 4/118، 119، 5/273، سنن الدارمی/ ال صلاة 85 (1382) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
سنن نسائی کی حدیث نمبر 1286 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1286
1286۔ اردو حاشیہ:
➊ ”حکم دیا گیا ہے۔“ صحابہ کا آپ سے درود کے بارے میں اس طرح سوال کرنا اور سوال و جواب میں سلام کا حوالہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ سوال نماز کے بارے میں تھا کیونکہ سلام تو نماز ہی میں واجب ہے۔
➋ آل سے مراد آپ کے مسلم قریبی رشتہ دار یا متبعین، یعنی صحابہ یا کل امت ہے۔ یہ لفظ ان تینوں معانی میں استعمال ہوا ہے۔
➌ درود میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حوالہ یا تو اس لیے ہے کہ وہ آپ کے جد امجد ہیں یا اس کے لیے کہ تمام آسمانی مذاہب (اسلام، یہودیت، عیسائیت) انہیں اپنا امام مانتے ہیں۔
➍ آپ نے جو بھی درود سکھایا اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا حوالہ ضرور ہے، اس لیے جمیع امت کا اتفاق ہے کہ ہر قسم کی نماز میں درود ابراہیمی ہی پڑھا جائے گا۔ نماز کے علاوہ بھی ابراہیمی درود ہی بہتر ہے اگرچہ کوئی اور درود بھی، جو حدیث سے ثابت ہو، پڑھا جا سکتا ہے۔
➎ تمام جہانوں سے مراد دنیا و آخرت دونوں ہیں۔
➏ اس حدیث مبارکہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عجز و انکسار اور خصائل حمیدہ کا پتہ چلتا ہے، آپ اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا احترام کرتے تھے اور ان سے اپنائیت کا اظہار کرتے ہوئے ان کے پاس تشریف لے جاتے تھے۔
➐ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو اگر کوئی شرعی مسئلہ درپیش ہوتا تو وہ اپنی طرف سے شریعت سازی نہیں کرتے تھے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتے تھے، اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ اگر ہمیں کوئی مسئلہ درپیش ہو تو قرآن و سنت سے رہنمائی لیں، اپنے اجتہادات اور قیاس آرائیوں کی طرف سبقت نہ کریں۔
➑ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اگر کوئی سائل سوال کرتا اور اس کا جواب ابھی تک اللہ نے آپ کو بتایا نہ ہوتا تو آپ وحی کا انتظار کرتے تھے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: «وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَىo إِنْ هُوَ إِلا وَحْيٌ يُوحَى» [النجم: 3: 53، 4] ”اور وہ (اپنی) خواہش سے نہیں بولتا۔ وہ وحی ہی تو ہے جو اس کی طرف بھیجی جاتی ہے۔“
➒ اس حدیث مبارکہ سے دوسرے انبیاء پر صلاۃ (درود) پڑھنا ثابت ہوتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1286
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 126
´درود کا بیان`
«. . . 268- مالك عن نعيم بن عبد الله المجمر أن محمد بن عبد الله بن زيد الأنصاري، وعبد الله بن زيد هو الذى كان رأى النداء بالصلاة، أخبره عن أبى مسعود الأنصاري أنه قال: أتاني رسول الله صلى الله عليه وسلم فى مجلس سعد بن عبادة، فقال له بشير بن سعد: أمرنا الله أن نصلي عليك يا رسول الله، فكيف نصلي عليك؟ قال: فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى تمنينا أنه لم يسأله، ثم قال: ”قولوا: اللهم صل على محمد وعلى آل محمد، كما صليت على آل إبراهيم، وبارك على محمد، وعلى آل محمد كما باركت على آل إبراهيم، فى العالمين إنك حميد مجيد، والسلام كما قد علمتم.“ . . .»
”. . . سیدنا ابومسعود الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی مجلس میں ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو بشیر بن سعد رضی اللہ عنہ نے آپ سے کہا: یا رسول اللہ! اللہ نے ہمیں آپ پر درود پڑھنے کا حکم دیا ہے، پس ہم آپ پر درود کیسے پڑھیں؟ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے حتیٰ کہ ہماری یہ خواہش ہوئی کہ (کاش) انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (یہ) سوال نہ کیا ہوتا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہو «اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، وَبَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا بَارَكْتَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ فِي الْعَالَمِينَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ» اے اللہ! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور آل محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر درود بھیج جیسا کہ تو نے آل ابراہیم علیہ السلام پر درود بھیجا، اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اور آلِ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) پر برکتیں نازل فرما جیسا کہ تو نے آلِ ابراہیم علیہ السلام پر برکتیں نازل فرمائیں اور سلام (التحیات) اسی طرح ہے جیسا کہ تم نے جان لیا ہے . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 126]
تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 405، من حديث ما لك به]
تفقه:
➊ در ود کا جو بھی صیغہ حدیث سے ثابت ہے وہ پڑھنا مسنون اور مشروع ہے۔
➋ نماز کے آخری تشہد میں درود پڑھنا واجب اور پہلے تشہد میں بہتر ومستحب ہے۔
➌ عام طور پر نماز میں جو درود پڑھا جاتا ہے وہ درج ذیل ہے:۔
«اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ» اس کا ثبوت [صحيح بخاري 3370] اور [سنن الكبريٰ للبيهقي 148/2ح 2856 وسنده صحيح] میں ہے۔
➍ آل سے مراد اہل بیت مثلاً نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اور آل علی وغیرہ بھی ہیں اور کتاب وسنت کی اتباع کرنے والی امت بھی اس میں شامل ہے لیکن یہاں آل سے مراد اہل و اتباع ہیں۔
➎ قرآن مجید میں سورۃ الاحزاب (56) میں جس درود پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے اس سے مراد نماز میں درج بالا اور دوسرے مسنون درود پڑھنا ہیں۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ ساری زندگی میں ایک دفعہ درود پڑھنا واجب ہے۔ علماء کا یہ قول مرجوح ہے اور راجح یہی ہے کہ ہر نماز میں درود پڑھنا فرض ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 268
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3220
´سورۃ الاحزاب سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابومسعود انصاری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم سعد بن عبادہ کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ سے بشیر بن سعد نے کہا: اللہ نے ہمیں آپ پر صلاۃ (درود) بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ تو ہم کیسے آپ پر صلاۃ (درود) بھیجیں، راوی کہتے ہیں: آپ (یہ سن کر) خاموش رہے۔ یہاں تک کہ ہم سوچنے لگے کہ انہوں نے نہ پوچھا ہوتا تو ہی ٹھیک تھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو: «اللهم صل على محمد وعلى آل محمد كما صليت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم وبارك على محمد وعلى آل محمد كما باركت على إبراهيم وعلى آل إبراهيم في العالمين ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3220]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مؤلف یہ حدیث ارشاد باری تعالیٰ ﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلاَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾ (الأحزاب: 56) کے تفسیرمیں ذکر کی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3220