سنن نسائي
كتاب السهو
کتاب: نماز میں سہو کے احکام و مسائل
46. بَابُ : السَّلاَمِ عَلَى النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم
باب: نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم پر سلام بھیجنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1283
أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْحَكَمِ الْوَرَّاقُ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ سَعِيدٍ. ح وأَخْبَرَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ، عَنْ زَاذَانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ لِلَّهِ مَلَائِكَةً سَيَّاحِينَ فِي الْأَرْضِ يُبَلِّغُونِي مِنْ أُمَّتِي السَّلَامَ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ہیں جو زمین میں گھومتے رہتے ہیں، وہ مجھ تک میرے امتیوں کا سلام پہنچاتے ہیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، حم1/387، 441، 452، سنن الدارمی/الرقاق 58 (2816)، (تحفة الأشراف: 9204)، والمؤلف فی عمل الیوم واللیلة 29 (رقم 66) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 1283 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1283
1283۔ اردو حاشیہ:
➊ نماز میں آپ پر سلام پڑھنا فرض ہے، آگے پیچھے بھی آپ پر سلام پڑھنا ایک بہت بڑی فضیلت ہے اور یہی مرتبہ آپ پر صلاۃ (درود) کا ہے کیونکہ یہ قرآنی حکم ہے: «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا» [الأحزاب: 56: 33] صلی اللہ علیه وسلم۔
➋ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کے علاوہ اکیلا سلام پڑھنا بھی درست ہے، یعنی اگر کوئی شخص صلی اللہ علیہ یا علیہ السلام اکیلا اکیلا کہہ دے تو جائز ہے۔
➌ اس حدیث مبارکہ میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر کثرت سے سلام پڑھنے کی ترغیب ہے۔
➍ اس حدیث مبارکہ سے نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بلند مرتبہ اور عزت و عظمت واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی ڈیوٹی لگا رکھی ہے کہ جو آپ پر سلام پڑھے، فرشتے اس کا سلام آپ تک پہنچائیں۔
➎ اس شخص کی فضیلت بھی اس سے ثابت ہوتی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام پڑھتا ہے اور اس کا سلام نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا جاتا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس اس کا جواب دیتے ہیں جیسا کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص بھی مجھے سلام کہتا ہے، اللہ مجھ پر میری روح لوٹا دیتا ہے اور میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔“ [سنن أبي داود، المناسك، حدیث: 2041] یہ حدیث حسن درجے کی ہے۔ ”روح لوٹانے“ کی کئی ایک تاویلات کی گئی ہیں مگر اول و آخر یہی ہے کہ یہ عالم برزخ کا معاملہ ہے، اسے دنیا کی زندگی پر قیاس کرنا درست نہیں، علاوہ ازیں یہ متشابہات میں سے ہے۔ ہم کوئی اطمینان بخش تفصیل و توجیہ کرنے سے قاصر ہیں۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1283