Note: Copy Text and to word file

سنن نسائي
كتاب السهو
کتاب: نماز میں سہو کے احکام و مسائل
25. بَابُ : التَّحَرِّي
باب: (نماز شک ہونے کی صورت میں) تحری (صحیح بات جاننے کی کوشش) کا بیان۔
حدیث نمبر: 1242
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُبَارَكِ الْمُخَرِّمِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ مِسْعَرٍ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ , فَلْيَتَحَرَّ وَيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ بَعْدَ مَا يَفْرُغُ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کسی کو اس کی نماز میں شک ہو جائے تو اسے چاہیئے کہ وہ غور و فکر کرے، (اور ظن غالب کو تلاش کرے) اور نماز سے فارغ ہو جانے کے بعد دو سجدے کر لے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: سجدہ سہو کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے کہ آدمی اسے سلام سے پہلے کرے یا سلام کے بعد، بعض لوگوں کی رائے ہے کہ اسے سلام کے بعد کرے، یہ قول سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا ہے، اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اسے سلام سے پہلے کرے، یہی قول اکثر فقہائے مدینہ مثلاً یحییٰ بن سعید، ربیعہ اور شافعی وغیرہ کا ہے، اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب نماز میں زیادتی ہوئی ہو تو سلام کے بعد کرے، اور جب کمی رہ گئی ہو تو سلام سے پہلے کرے، یہ قول مالک بن انس کا ہے، اور امام احمد کہتے ہیں کہ جس صورت میں جس طرح پر سجدہ سہو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے اس صورت میں اسی طرح سجدہ سہو کرنا چاہیئے، وہ کہتے ہیں کہ جب دو رکعت کے بعد کھڑے ہو جائے تو ابن بحینہ کی حدیث کے مطابق سلام سے پہلے سجدہ کرے، اور جب ظہر کی نماز پانچ رکعت پڑھ لے تو وہ سجدہ سہو سلام کے بعد کرے، اور اگر ظہر و عصر کی نماز میں دو ہی رکعت میں سلام پھیر دے تو ایسی صورت میں سلام کے بعد سجدہ سہو کرے، اس طرح جس صورت میں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل موجود ہے اس پر اسی طرح عمل کرے، اور جس صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی فعل مروی نہ ہو تو اس میں سجدہ سہو سلام سے پہلے کرے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

وضاحت: ۱؎: سجدہ سہو کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے کہ آدمی اسے سلام سے پہلے کرے یا سلام کے بعد، بعض لوگوں کی رائے ہے کہ اسے سلام کے بعد کرے، یہ قول سفیان ثوری اور اہل کوفہ کا ہے، اور بعض لوگوں نے کہا ہے کہ اسے سلام سے پہلے کرے، یہی قول اکثر فقہائے مدینہ مثلاً یحییٰ بن سعید، ربیعہ اور شافعی وغیرہ کا ہے، اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ جب نماز میں زیادتی ہوئی ہو تو سلام کے بعد کرے، اور جب کمی رہ گئی ہو تو سلام سے پہلے کرے، یہ قول مالک بن انس کا ہے، اور امام احمد کہتے ہیں کہ جس صورت میں جس طرح پر سجدہ سہو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے اس صورت میں اسی طرح سجدہ سہو کرنا چاہیئے، وہ کہتے ہیں کہ جب دو رکعت کے بعد کھڑے ہو جائے تو ابن بحینہ کی حدیث کے مطابق سلام سے پہلے سجدہ کرے، اور جب ظہر کی نماز پانچ رکعت پڑھ لے تو وہ سجدہ سہو سلام کے بعد کرے، اور اگر ظہر و عصر کی نماز میں دو ہی رکعت میں سلام پھیر دے تو ایسی صورت میں سلام کے بعد سجدہ سہو کرے، اس طرح جس صورت میں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فعل موجود ہے اس پر اسی طرح عمل کرے، اور جس صورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی فعل مروی نہ ہو تو اس میں سجدہ سہو سلام سے پہلے کرے۔