سنن نسائي
كتاب السهو
کتاب: نماز میں سہو کے احکام و مسائل
20. بَابُ : الْكَلاَمِ فِي الصَّلاَةِ
باب: نماز میں بات کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1219
أَخْبَرَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَطَاءُ بْنُ يَسَارٍ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السَّلَمِيِّ , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّا حَدِيثُ عَهْدٍ بِجَاهِلِيَّةٍ فَجَاءَ اللَّهُ بِالْإِسْلَامِ , وَإِنَّ رِجَالًا مِنَّا يَتَطَيَّرُونَ , قَالَ:" ذَاكَ شَيْءٌ يَجِدُونَهُ فِي صُدُورِهِمْ , فَلَا يَصُدَّنَّهُمْ" , وَرِجَالٌ مِنَّا يَأْتُونَ الْكُهَّانَ , قَالَ:" فَلَا تَأْتُوهُمْ" , قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَرِجَالٌ مِنَّا يَخُطُّونَ , قَالَ:" كَانَ نَبِيٌّ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ يَخُطُّ فَمَنْ وَافَقَ خَطُّهُ فَذَاكَ".
معاویہ بن حکم سلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارا جاہلیت کا زمانہ ابھی ابھی گزرا ہے، پھر اللہ تعالیٰ اسلام کو لے آیا، ہم میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو برا شگون لیتے ہیں! آپ نے فرمایا: ”یہ محض ایک خیال ہے جسے لوگ اپنے دلوں میں پاتے ہیں، تو یہ ان کے آڑے نہ آئے“ ۱؎ معاویہ بن حکم نے کہا: اور ہم میں بعض لوگ ایسے ہیں جو کاہنوں کے پاس جاتے ہیں! تو آپ نے فرمایا: ”تم لوگ ان کے پاس نہ جایا کرو“، پھر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! اور ہم میں سے کچھ لوگ (زمین پر یا کاغذ پر آئندہ کی بات بتانے کے لیے) لکیریں کھینچتے ہیں! آپ نے فرمایا: ”نبیوں میں سے ایک نبی بھی لکیریں کھینچتے تھے، تو جس شخص کی لکیر ان کے موافق ہو تو وہ صحیح ہے“۔ معاویہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ ہی رہا تھا کہ اسی دوران اچانک قوم میں سے ایک آدمی کو چھینک آ گئی، تو میں نے (زور سے) «يرحمك اللہ» ”اللہ تجھ پر رحم کرے“ کہا، تو لوگ مجھے گھور کر دیکھنے لگے، میں نے کہا: «واثكل أمياه» ”میری ماں مجھ پر روئے“، تم لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ تم مجھے گھور رہے ہو؟ لوگوں نے (مجھے خاموش کرنے کے لیے) اپنے ہاتھوں سے اپنی رانوں کو تھپتھپایا، جب میں نے انہیں دیکھا کہ وہ مجھے خاموش کر رہے ہیں تو میں خاموش ہو گیا، پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے مجھے بلایا، میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، نہ تو آپ نے مجھے مارا، نہ ہی مجھے ڈانٹا، اور نہ ہی برا بھلا کہا، میں نے اس سے پہلے اور اس کے بعد آپ سے اچھا اور بہتر معلم کسی کو نہیں دیکھا، آپ نے فرمایا: ”ہماری اس نماز میں لوگوں کی گفتگو میں سے کوئی چیز درست نہیں، نماز تو صرف تسبیح، تکبیر اور قرأت قرآن کا نام ہے“، پھر میں اپنی بکریوں کی طرف آیا جنہیں میری باندی احد پہاڑ اور جوانیہ ۲؎ میں چرا رہی تھی، میں (وہاں) آیا تو میں نے پایا کہ بھیڑیا ان میں سے ایک بکری اٹھا لے گیا ہے، میں (بھی) بنو آدم ہی میں سے ایک فرد ہوں، مجھے (بھی) غصہ آتا ہے جیسے انہیں آتا ہے، چنانچہ میں نے اسے ایک چانٹا مارا، پھر میں لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، میں نے آپ کو اس واقعہ کی خبر دی، تو آپ نے مجھ پر اس کی سنگینی واضح کی، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا میں اس کو آزاد نہ کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے بلاؤ“، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”اللہ کہاں ہے؟“ اس نے جواب دیا: آسمان کے اوپر، آپ نے پوچھا: ”میں کون ہوں؟“ اس نے کہا: آپ اللہ کے رسول ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ مومنہ ہے، تو تم اسے آزاد کر دو“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 7 (537)، سنن ابی داود/الصلاة 171 (930)، مسند احمد 5/447، (تحفة الأشراف: 11378)، وھو مختصراً والحدیث عند: صحیح مسلم/السلام 35 (537)، سنن ابی داود/الأیمان والنذور 19 (3282)، الطب 23 (3909)، موطا امام مالک/العتق 6 (8)، مسند احمد 5/448، 449، سنن الدارمی/الصلاة 177 (1543، 1544) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی یہ بدشگونی انہیں کسی کام سے جس کے کرنے کا انہوں نے ارادہ کیا ہو نہ روکے۔ ۲؎: احد پہاڑ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
سنن نسائی کی حدیث نمبر 1219 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1219
1219۔ اردو حاشیہ:
➊ جاہلیت سے مراد اسلام سے ماقبل کے رواج ہیں۔ عموماً ان کی بنیاد جاہلیت پر تھی، لہٰذا انہیں جاہلیت کہا گیا ہے۔
➋ ”بے حقیقت چیز ہے۔“ یعنی اس کی کوئی بنیاد نہیں، صرف ان کا دلی وہم ہے۔ بعض نے اس جملے کے یہ معنیٰ بھی کیے ہیں کہ ”ایسے خیالات تو دل میں آہی جایا کرتے ہیں، اس میں کوئی گناہ نہیں۔ ہاں: ایسے خیالات کی بنا پر وہ اپنے کام کاج سے نہ رکیں۔“
➌ ”کاہن“ غیب کی باتیں بتانے والے کو کہا جاتا ہے، خواہ وہ جنوں کی مدد سے بتائیں یا نجوم و خطوط اور لکیروں کی مدد سے یا اٹکل اور ظن و تخمین سے۔ چونکہ ان کی بات کی صحت یقینی نہیں ہوتی، لہٰذا ان سے پوچھنا اور ان کی بات پر یقین کرنا شریعت اسلامیہ میں منع ہے۔ ان کی غلط باتیں بسا اوقات باہمی تعلقات کی خرابی اور فساد کا موجب بنتی ہیں۔ عقیدہ الگ خراب ہوتا ہے، البتہ کبھی فراست و ذہانت کی بنا پر صحیح نتیجے تک پہنچ جانے والے کو بھی کاہن کہہ دیا جاتا ہے، حالانکہ یہ مذموم نہیں، خصوصاً جب کہ ان کی بات دوسرے دلائل سے بالکل صحیح ثابت ہو جائے۔ جیسے حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت عمر و علی رضی اللہ عنہما اور قاضی شریح و ایاس رحمہما اللہ وغیرہ کے واقعات مشہور ہیں۔ لیکن فراست والی بات بھی اسی وقت صحیح ہو گی جب بعد میں وہ صحیح ثابت ہو جائے ورنہ کسی صاحب فراست کی بات کو آنکھیں بند کر کے تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ بہرحال کہانت حرام ہے اور اسے ماننا بھی، نیز کہانت کی طرح بدشگونی لینا بھی حرام ہے۔
➍ ”ایک نبی خط کھینچا کرتے تھے۔“ واللہ أعلم وہ کیسے خط کھینچتے تھے؟ کیا حساب تھا؟ کہیں صراحت نہیں ہے، لہٰذا شریعت اسلامیہ میں یہ قطعاً ممنوع ہے۔
➎ ”نماز میں لوگوں کی کسی قسم کی بات کرنا درست نہیں“ مذکورہ صحابی اس وقت اس مسئلے سے واقف نہیں تھے، لہٰذا انہیں معذور سمجھا اور قضا کا حکم نہیں دیا ورنہ آپ کے الفاظ صراحتاً ثابت کر رہے ہیں کہ اس صورت میں نماز نہ ہو گی۔
➏ ”جوانیہ“ مدینہ منورہ کے شمال میں احد پہاڑ کے قریب ایک جگہ کا نام ہے۔
➐ ”بڑی غلطی“ کیونکہ وہ لونڈی بھیڑیے کے سامنے بے بس تھی اور بے قصور تھی۔
➑ ”آسمان میں“ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ کسی سے پوچھا: جا سکتا ہے، اللہ تعالیٰ کہاں ہے؟ اور جواب میں آسمان یا عرش کا نام لیا جا سکتا ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کی کوئی توہین نہیں ہو گی۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کی طرف اوپر کو اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے عرش پر مستوی ہونے کو بیان کیا جا سکتا ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ نہ تو کسی جگہ کا محتاج ہو جائے گا نہ اس میں مقید۔ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ میں اس کے نظائر موجود ہیں، مثلاً: ارشاد باری ہے: «أَأَمِنْتُمْ مَنْ فِي السَّمَاءِ» [الملك: 17: 67] اسی طرح «الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى» [طه: 5: 20] نیز حدیث شریف میں ہے: «ارحموا أھل الارض یرحمکم من في السمآء» [سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 4941] بعض لوگ جنھیں اللہ تعالیٰ کی فکر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ کر ہے، اس قسم کی عبارات کواللہ تعالیٰ کے حق میں جائز نہیں سمجھتے مگر یہ ان کی بے علمی ہے۔ ان مسائل میں سلف صالحین (صحابہ و تابعین) اور محدثین کا مسلک ہی صحیح ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات جو قرآن مجید اور احادیث صحیحیہ و صریح سے ثابت ہیں، انہیں بلاجھجک مانا جائے، بولا: جائے اور کسی قسم کی تاویل نہ کی جائے، نہ ان میں بحث کی جائے کیونکہ یہ چیزیں انسان کی عقل سے ماور اء ہیں۔ ان کی حقیقت اللہ عزوجل کے سپرد کر دی جائے۔ تشبیہ دی جائے نہ انکار کیا جائے، بلکہ قیامت کا انتظار کیا جائے کہ اس دن ہر چیز واضح ہو جائے گی، آنکھوں کے سامنے ہو گی، کہیں اس دن ندامت نہ ہو۔
➒ ”یہ مومنہ عورت ہے۔“ معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی کفارے وغیرہ میں غلام آزاد کرنا ہو تو وہ مومن ہونا چاہیے۔ قرآن مجید میں بھی بغض مقامات پر قید ہے: «تَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُؤْمِنَةٍ» [النسآء: 92: 4] باقی مقامات پر بھی یہ قید معتبر ہو گی۔ نفل آزادی میں بھی مومن کو آزاد کرنا افضل ہے، ضروری نہیں۔
➓ خادموں اور ملازموں کے ساتھ نرمی و شفقت سے پیش آنا چاہیے اگر کبھی کبھار سختی ہو جائے تو ان کی دلجوئی بھی کرنی چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1219