Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب السهو
کتاب: نماز میں سہو کے احکام و مسائل
18. بَابُ : الْبُكَاءِ فِي الصَّلاَةِ
باب: نماز میں رونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1215
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قَالَ: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي وَلِجَوْفِهِ أَزِيزٌ كَأَزِيزِ الْمِرْجَلِ يَعْنِي: يَبْكِي".
عبداللہ بن الشخیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اس وقت آپ نماز پڑھ رہے تھے، اور آپ کے پیٹ سے ایسی آواز آ رہی تھی جیسے ہانڈی ابل رہی ہو یعنی آپ رو رہے تھے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 161 (904)، سنن الترمذی/الشمائل 44 (305)، (تحفة الأشراف: 5347)، مسند احمد 4/25، 26 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اس سے نماز میں اللہ کے خوف سے رونے کا جواز ثابت ہوا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

سنن نسائی کی حدیث نمبر 1215 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1215  
1215۔ اردو حاشیہ: اللہ تعالیٰ کے خوف سے رونا نماز کا اصل مقصود ہے۔ عبادت چشم پرنم کی ہے۔ اصل نماز ہی یہ ہے کہ دل پر خوف باری تعالیٰ، خشیت الٰہی، ذکر آخرت اور جنت و جہننم کی یاد غالب آ جائے اور آنکھوں سے آنسو چھلکیں۔ ہاں، کسی تکلیف کی بنا پر یاد نبوی نقصان یا کسی کی یاد کی بنا پر روئے تو نماز کے منافی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1215   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 175  
´دوران نماز میں خوف الہی سے رونا`
«. . . وعن مطرف بن عبد الله بن الشخير عن ابيه قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يصلي وفي صدره ازيز كازيز المرجل من البكاء . . .»
. . . سیدنا مطرف اپنے باپ عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا ہے اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ مبارک سے گریہ و زاری کی وجہ سے ایسی آواز آ رہی تھی جیسے جوش کھاتی ہوئی ہنڈیا (سے آواز آتی) ہے . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 175]
لغوی تشریح:
«أَزِيزٌ» ہمزہ پر فتحہ اور زا کے نیچے کسرہ ہے۔ وہ آواز جو جوش مارتے وقت ہنڈیا سے آتی ہے۔
«اَلْمِرْجَلِ» میم کے نیچے کسرہ، را ساکن اور جیم پر فتحہ ہے۔ ہنڈیا کے معنی میں ہے۔

فائدہ:
اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دوران نماز میں خوف الہی سے رونا نماز کے لیے موجب فساد نہیں ہے۔ اس سے نماز میں کسی قسم کا نقص واقع نہیں ہوتا۔

راویٔ حدیث:
(سیدنا مُطَرِّف رحمہ اللہ) میم پر ضمہ اور را پر تشدید اور کسرہ ہے۔ سلسلہ نسب یوں ہے: مطرف بن عبداللہ بن شخیر۔ شین کے نیچے کسرہ اور خا پر تشدید ہے۔ حرشی عامری بصری۔ کبار تابعین میں شمار ہوتے ہیں۔ ثقہ ہیں۔ عبادت گزار اور فاضل آدمی تھے۔ ان کے مناقب بے شمار ہیں۔ 95 ہجری میں فوت ہوئے۔
«عن أَبيه» اس سے مراد عبداللہ بن شخیر بن عوف بن کعب الحرشی رضی اللہ عنہ ہیں۔ شرف صحابیت سے سرفراز ہیں۔ بنو عامر کا جو وفد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا ان میں یہ بھی نمایاں فرد تھے۔ بصریوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 175   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 904  
´نماز میں رونے کا بیان۔`
عبداللہ بن شخیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، آپ کے سینے سے رونے کی وجہ سے چکی کی آواز کے مانند آواز آتی تھی۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 904]
904۔ اردو حاشیہ:
سنن نسائی کی روایت میں ہے کہ آپ کے اندر سے ہنڈیا کے ابلنے کی سی آواز آ رہی تھی۔ [حديث 1215]
اور مومنین کی خاص صفت یہی ہے کہ جب ان پر اللہ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو سجدوں میں گر جاتے ہیں اور روتے ہیں۔ [سورة مريم 57]
اور کیفت ایمان اور تدبر فی الآیات ہی سے حاصل ہوتی ہے اور اس سے نماز باطل نہیں ہوتی، خواہ آواز سے روئے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 904