Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب السهو
کتاب: نماز میں سہو کے احکام و مسائل
9. بَابُ : النَّهْىِ عَنْ رَفْعِ الْبَصَرِ، إِلَى السَّمَاءِ فِي الصَّلاَةِ
باب: نماز میں آسمان کی طرف نظر اٹھانے سے ممانعت کا بیان۔
حدیث نمبر: 1194
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ وَشُعَيْبُ بْنُ يُوسُفَ , عَنْ يَحْيَى وَهُوَ ابْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، عَنِ ابْنِ أَبِي عَرُوبَةَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" مَا بَالُ أَقْوَامٍ يَرْفَعُونَ أَبْصَارَهُمْ إِلَى السَّمَاءِ فِي صَلَاتِهِمْ , فَاشْتَدَّ قَوْلُهُ فِي ذَلِكَ حَتَّى قَالَ: لَيَنْتَهُنَّ عَنْ ذَلِكَ أَوْ لَتُخْطَفَنَّ أَبْصَارُهُمْ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ نماز میں اپنی نگاہوں کو آسمان کی جانب اٹھاتے ہیں، آپ نے بڑی سخت بات اس سلسلہ میں کہی یہاں تک کہ آپ نے فرمایا: وہ اس سے باز آ جائیں ورنہ ان کی نظریں اچک لی جائیں گی۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 92 (750)، سنن ابی داود/الصلاة 167 (913)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 68 (1044)، (تحفة الأشراف: 1173)، مسند احمد 3/109، 112، 115، 116، 140، 258، سنن الدارمی/الصلاة 67 (1340) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري

سنن نسائی کی حدیث نمبر 1194 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1194  
1194۔ اردو حاشیہ:
➊ عام طور پر لوگ دعا میں نظر اوپر اٹھاتے ہیں۔ نماز سے باہر تو کوئی حرج نہیں، البتہ نماز میں چونکہ نظر کی جگہ مقرر ہے، لہٰذا نماز میں منع ہے، نیز یہ آدابِ نماز کے خلاف ہے کہ نظر قبلے (سامنے) سے ادھر ادھر ہٹے۔
➋ جو بندہ منکرات کا ارتکاب کرے، اسے سخت کلام کے ساتھ زجر و توبیخ کی جا سکتی ہے، نیز جس بندے کو تنبیہ کرنا مقصود ہو، اس کا نام لیے بغیر ہی تمام لوگوں کو مخاطب کر کے مطلق بات کرنی چاہیے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی میں کوئی خلاف شرع بات دیکھتے تو اس کا نام لیے بغیر یوں خطاب فرماتے: «مَا بَالُ أَقْوَامٍ» لوگوں کا کیا خیال ہے! یہ اس لیے کہ اس کی رسوائی نہ ہو، نیز اگر کسی کا نام تمام لوگوں کے سامنے لے کر اسے کسی برائی سے روکا جائے تو بسا اوقات یہ اندازِ نصیحت اسے ہٹ دھرمی اور مزید ارتکاب گناہ پر آمادہ کرتا ہے، لہٰذا ناصح اور داعی کو چاہیے کہ حکمت بھرے انداز اور وصف ستر (کسی کے عیب پر پردہ ڈالنے) کو اپنائے تو اس سے اس کی نصیحت مؤثر ہو گی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1194   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 750  
750. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگوں کو کیا ہوا وہ نماز میں نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں؟ پھر آپ نے اس کے متعلق بڑی سختی سے فرمایا: لوگوں کو اس سے باز آنا چاہئے یا پھر ان کی بینائی کو اچک لیا جائے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:750]
حدیث حاشیہ:
فرشتے اللہ کے حکم سے اس کی بینائی سلب کرلیں گے۔
حافظ ؒ نے کہا یہ کراہت محمول ہے اس حالت پر جب نماز میں دعا کی جائے جیسے مسلم میں عندالدعاء کا لفظ زیادہ ہے۔
عینی نے کہا کہ یہ ممانعت مطلق ہے نماز میں دعاء کے وقت ہو یا اورکسی وقت۔
امام ابن حزم ؒ نے کہا ایسا کرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 750   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:750  
750. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگوں کو کیا ہوا وہ نماز میں نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں؟ پھر آپ نے اس کے متعلق بڑی سختی سے فرمایا: لوگوں کو اس سے باز آنا چاہئے یا پھر ان کی بینائی کو اچک لیا جائے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:750]
حدیث حاشیہ:
(1)
شارح بخاری علامہ ابن بطال ؒ نے لکھا ہے کہ تمام علمائے امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ نماز کی حالت میں آسمان کی طرف دیکھنا انتہائی ناپسندیدہ حرکت ہے۔
نماز کے علاوہ بھی قاضی شریح وغیرہ نے اسے مکروہ کہا ہے مگر اکثر علماء نے اس کی اجازت دی ہے، کیونکہ جس طرح کعبہ معظمہ نماز کے لیے قبلہ ہے اسی طرح آسمان دعا کا قبلہ ہے۔
قاضی عیاض نے کہا ہے کہ دوران نماز میں آسمان کی طرف دیکھنے سے ایک قسم کا قبلے سے اعراض ہوتا ہے، اس کے علاوہ نماز کی حیثیت وصورت سے بھی نکلنے کا باعث ہے۔
(فتح الباري: 302/2)
دوران نماز میں آسمان کی طرف دیکھنے سے ممانعت کیوں ہے؟حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ یہ ایک وعید ہے اور ایسا کرنا حرام ہے لیکن امام ابن حزم ؒ نے افراط کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا کرنے سے نماز باطل ہوجاتی ہے۔
بعض نے اس کی علت یہ بیان کی ہے کہ اس کام سے ممانعت نگاہوں پر شفقت کے پیش نظر ہے کہ نمازیوں پر حالت نماز میں فرشتے انوار وتجلیات کی بارش کرتے ہیں۔
اگر اس دوران میں نگاہوں کو آسمان کی طرف اٹھایا جائے تو شدت انوار کی وجہ سے ان کی روشنی سلب ہوجانے کا خطرہ ہے۔
جیسا کہ حضرت اسید بن حضیر ؓ کے واقعے میں ہے۔
اس واقعے کی تفصیل کتاب فضائل القرآن میں بیان ہوگی۔
(فتح الباري: 303/2)
سنن ابن ماجہ میں اس روایت کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک روز اپنے صحابہ کو نماز پڑھائی،جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا:
لوگوں کا کیا حال ہے وہ اپنی نگاہیں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں۔
پھر انتہائی غصے میں فرمایا:
وہ ایسا کرنے سے باز آجائیں بصورت دیگر اللہ تعالیٰ ان کی بصارت سلب کرلے گا۔
(سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث: 1044) (2)
ابن بطال ؒ نے دعا کے لیے آسمان کو قبلہ قرار دیا ہے۔
یہ محل نظر ہے کیونکہ دعا اور نماز کا ایک ہی قبلہ ہے، کیونکہ اولاً:
دعا کے لیے آسمان کا قبلہ ہونا محتاج دلیل ہے، کتاب وسنت میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے، پھر رسول اللہ ﷺ دعا کرتے وقت قبلے کی طرف منہ کرتے تھے، جیسا کہ متعدد احادیث سے ثابت ہے، نیز ہر چیز کا قبلہ وہی ہوتا ہے جو اس کے سامنے ہو نہ کہ اس کی طرف نظر اٹھا کر دیکھنا پڑے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 750