Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْوَكَالَةِ
کتاب: وکالت کے مسائل کا بیان
3. بَابُ الْوَكَالَةِ فِي الصَّرْفِ وَالْمِيزَانِ:
باب: صرافی اور ماپ تول میں وکیل کرنا۔
حدیث نمبر: 2303
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ عَبْدِ الْمَجِيدِ بْنِ سُهَيْلِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ عنه،" أن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَعْمَلَ رَجُلًا عَلَى خَيْبَرَ، فَجَاءَهُمْ بِتَمْرٍ جَنِيبٍ، فَقَالَ: أَكُلُّ تَمْرِ خَيْبَرَ هَكَذَا، فَقَالَ: إِنَّا لَنَأْخُذُ الصَّاعَ مِنْ هَذَا بِالصَّاعَيْنِ، وَالصَّاعَيْنِ بِالثَّلَاثَةِ، فَقَالَ: لَا تَفْعَلْ، بِعِ الْجَمْعَ بِالدَّرَاهِمِ، ثُمَّ ابْتَعْ بِالدَّرَاهِمِ جَنِيبًا"، وَقَالَ: فِي الْمِيزَانِ مِثْلَ ذَلِكَ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو امام مالک نے خبر دی، انہیں عبدالمجید بن سہل بن عبدالرحمٰن بن عوف نے، انہیں سعید بن مسیب نے اور انہیں ابو سعید خدری اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو خیبر کا تحصیل دار بنایا۔ وہ عمدہ قسم کی کھجور لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا خیبر کی تمام کھجوریں اسی قسم کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس طرح کی ایک صاع کھجور (اس سے گھٹیا قسم کی) دو صاع کھجور کے بدل میں اور دو صاع، تین صاع کے بدلے میں خریدتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ہدایت فرمائی کہ ایسا نہ کر، البتہ گھٹیا کھجوروں کو پیسوں کے بدلے بیچ کر ان سے اچھی قسم کی کھجور خرید سکتے ہو۔ اور تولے جانے کی چیزوں میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی حکم فرمایا۔

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2303 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2303  
حدیث حاشیہ:
حافظ ؒ نے کہا کہ خیبر پر جس کو عامل مقرر کیا گیا تھا اس کا نام سواد بن غزیہ تھا۔
معلوم ہوا کہ کوئی جنس خواہ گھٹیا ہی کیوں نہ ہو وزن میں اسے بڑھیا کے برابر ہی وزن کرنا ہوگا۔
ورنہ گھٹیا چیز الگ بیچ کر اس کے پیسوں سے بڑھیا جنس خرید لی جائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2303   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2303  
حدیث حاشیہ:
(1)
سونے چاندی اور کرنسی کے تبادلے کو صَرف کہا جاتا ہے۔
اس بیع میں وہم ہوسکتا ہے کہ شاید اس میں وکالت جائز نہ ہو کیونکہ اس بیع میں عوضین (سونے یا چاندی)
کے قبض سے پہلے تفارق (ایک دوسرے سے الگ ہونا)
جائز نہیں، وکالت میں مؤکل اصل ہے جو عقد کے وقت موجود نہیں ہوتا تو قبض کے بغیر تفارق لازم آتا ہے، اس وہم کو امام بخاری ؒ نے دور کیا ہے کہ وکیل ہی براہِ راست عقد کرنے والا ہے، لہٰذا سب حقوق اسی کی طرف راجع ہوں گے، وکیل کا قبضہ اصیل کا قبضہ شمار ہوگا۔
بہر حال بیع صرف وکالتًا جائز ہے اور مؤکل کی جگہ وکیل کا قبضہ بھی معتبر ہے۔
(2)
اس حدیث میں ہے کہ ماپ سے خریدوفروخت والی اشیاء کو ایک صاع، دو صاع کے عوض مت لو بلکہ انھیں دراہم سے فروخت کرو، پھر دراہم سے دوسری عمدہ کھجور خرید لو،اسی طرح وزن سے خریدوفروخت والی اشیاء کا بھی یہی حکم ہے۔
(3)
اس حدیث سے عنوان کی مناسبت اس طرح ہے کہ جب وکیل کو دوصاع کے عوض ایک صاع لینے سے منع کیا گیا تو معلوم ہوا کہ درہم کی بیع درہم سے اور دینار کی بیع دینار سے بھی اسی طرح ہے۔
اس میں توکیل کے معنی بھی واضح ہیں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کے عامل کو اس طرح کرنے میں وکیل مقرر کیا تھا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2303   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4558  
´کھجور کے بدلے کھجور کمی زیادتی کے ساتھ بیچنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس «ریان» (نامی عمدہ) کھجوریں لائی گئیں اور آپ کی «بعل» نامی (گھٹیا قسم کی) سوکھی کھجور تھی تو آپ نے فرمایا: تمہارے پاس یہ کھجوریں کہاں سے آئیں؟ لوگوں نے کہا: ہم نے اپنی دو صاع کھجوروں کے بدلے اسے ایک صاع خریدی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کرو، اس لیے کہ یہ چیز صحیح نہیں، البتہ تم اپنی کھجوریں بیچ دو اور پھر اس نقدی سے اپنی ضرورت ک [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4558]
اردو حاشہ:
موٹی تازی کھجوریں مراد ان درختوں کی کھجوریں ہیں جن کو پانی وافر ملتا تھا۔ ظاہر ہے وہ ایسی ہی ہوں گی اور جن درختوں کو پانی نہیں ملتا، وہ زمین کے پانی ہی سے اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں۔ ظاہر ہے ان کی کھجوریں خشک ہی ہوں گی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4558   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2256  
´بیع صرف (سونے چاندی کو سونے چاندی کے بدلے نقد بیچنے) کا بیان اور نقداً کمی و بیشی کر کے نہ بیچی جانے والی چیزوں کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں مختلف قسم کی مخلوط کھجوریں کھانے کو دیتے تھے، تو ہم انہیں عمدہ کھجور سے بدل لیتے تھے، اور اپنی کھجور بدلہ میں زیادہ دیتے تھے، تو رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک صاع کھجور کو دو صاع کھجور سے اور ایک درہم کو دو درہم سے بیچنا درست نہیں، درہم کو درہم سے، اور دینار کو دینار سے، برابر برابر وزن کر کے بیچو، ان میں کمی بیشی جائز نہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2256]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
کھجور کا کھجور کےساتھ تبادلہ وزن کی کمی بیشی کےساتھ جائز نہیں۔
اسی طرح اشیاء اگر ایک جنس سے ہوں تو ان کا باہمی تبادلہ وزن کی کمی بیشی کے ساتھ جائز نہیں۔

(2)
دور نبوی میں مختلف قسم کے درہم و دینار رائج تھے لیکن ہر درہم دوسرے درہم کے برابر ہی سمجھا جاتا تھا، اسی طرح ایک قسم کا دینار دوسری قسم کے دینار سے برابر ہی سمجھا جاتا تھا، اس لیے ان کے وزن کے معمولی فرق کو نظر انداز کر دیا گیا۔

(3)
روپے کے پرانے اور نئے نوٹوں کا تبادلہ یا بڑے نوٹ کا چھوٹے نوٹوں سے تبادلہ برابری کی سطح پر ہونا چاہیے۔
سو روپے کے نئے نوٹوں کے بدلے میں پرانے نوٹوں کی صورت میں ایک سو دس روپے دینا‘ یا ایک سوروپے کے نوٹ کے بدلے میں روپے روپے والے نوٹ یا سکے کم وصول کرنا جائز نہیں کیونکہ بازار میں خرید وفروخت کے لیے نئے اور پرانے نوٹ یا سکے کی قدر میں کوئی فرق نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2256   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4087  
ابو نضرہ رحمۃاللہ علیہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے نقدی کے باہمی تبادلہ کے بارے میں سوال کیا؟ تو انہوں نے اس میں کوئی حرج نہیں سمجھا، میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا، تو میں نے ان سے بھی صرف (نقدی کا باہمی تبادلہ) کے بارے میں پوچھ لیا، تو انہوں نے کہا، ایک جنس کی صورت میں جو اضافہ ہے، وہ سود ہے، تو میں نے ان دونوں (ابن عمر، ابن عباس رضی اللہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:4087]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت ابو صبہاء جو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے شاگرد ہیں،
ان کے قول سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی طرح اپنے موقف سے رجوع کر لیا تھا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4087   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2080  
2080. حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نےفرمایا کہ ہمیں خوراک کے طور پر ہرقسم کی ملی جلی کھجوریں ملاکرتی تھیں۔ ہم ان کے دو صاع عمدہ کھجوروں کے ایک صاع کے عوض بیچ ڈالتے تھے۔ اس کے متعلق نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "دو صاع کھجور کا ایک صاع کھجور کے عوض فروخت کرنا درست نہیں اور نہ ہی دو درہم ایک درہم کے عوض فروخت کرنا جائزہے۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2080]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ بتلانا ہے کہ اس قسم کی مخلوط کھجوروں کی بیع جائز ہے کیوں کہ ان میں جو کچھ بھی عیب ہے وہ ظاہر ہے اور عمدگی ہے وہ بھی ظاہر ہے کوئی دھوکہ بازی نہیں ہے لہٰذا ایسی مخلوط کھجوریں بیچی جاسکتی ہیں۔
اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ہدایت فرمائی وہ حدیث سے ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2080   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2080  
2080. حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نےفرمایا کہ ہمیں خوراک کے طور پر ہرقسم کی ملی جلی کھجوریں ملاکرتی تھیں۔ ہم ان کے دو صاع عمدہ کھجوروں کے ایک صاع کے عوض بیچ ڈالتے تھے۔ اس کے متعلق نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "دو صاع کھجور کا ایک صاع کھجور کے عوض فروخت کرنا درست نہیں اور نہ ہی دو درہم ایک درہم کے عوض فروخت کرنا جائزہے۔ " [صحيح بخاري، حديث نمبر:2080]
حدیث حاشیہ:
یہ حکم تمام اشیائے خوردنی کا ہے۔
جب ایک جنس کا باہمی تبادلہ کیا جائے تو کمی بیشی اور ادھار جائز نہیں، البتہ اس مقام پر امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ اس قسم کی مخلوط کھجوروں کی بیع جائز ہے کیونکہ ان میں جو کچھ عیب ہے وہ ظاہر ہے اور جو عمدگی ہے وہ بھی واضح ہے۔
کوئی دھوکا بازی یا فریب کاری نہیں ہے،لہٰذا ایسی مخلوط کھجوریں فروخت کی جاسکتی ہیں لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کو ضرور ملحوظ رکھا جائے جو حدیث میں بیان ہوئی ہےکیونکہ کھجوریں روی ہوں یا اعلیٰ،یہ سب ایک ہی جنس ہیں،باہمی تبادلے کے وقت ایک ہی جنس میں نفع لینا جائز نہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے:
اس سے مراد مختلف قسم کی کھجوروں کا ملاجلا ڈھیر ہے لیکن اگر اس طرح کی کھجوریں پیک شدہ ہوں،عمدہ کھجوریں نظر آئیں اور روی کھجوریں نظر وں سے اوجھل رہیں تو اس صورت میں ان کی فرخت جائز نہیں ہوگی۔
(فتح الباری: 4/394)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2080