سنن نسائي
كتاب التطبيق
کتاب: تطبیق کے احکام و مسائل
66. بَابُ : نَوْعٌ آخَرُ
باب: سجدہ کی ایک اور دعا کا بیان۔
حدیث نمبر: 1125
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، قال: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، قال: قالت عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا: فَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَضْجَعِهِ فَجَعَلْتُ أَلْتَمِسُهُ وَظَنَنْتُ أَنَّهُ أَتَى بَعْضَ جَوَارِيهِ فَوَقَعَتْ يَدِي عَلَيْهِ وَهُوَ سَاجِدٌ وَهُوَ يَقُولُ:" اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا أَسْرَرْتُ وَمَا أَعْلَنْتُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنی خواب گاہ میں نہیں ملے، تو میں آپ کو تلاش کرنے لگی، اور مجھے گمان ہوا کہ شاید آپ اپنی کسی لونڈی کے پاس چلے گئے ہیں کہ اچانک میرا ہاتھ آپ پر پڑا، آپ سجدے میں تھے، اور کہہ رہے تھے: «اللہم اغفر لي ما أسررت وما أعلنت» ”اے اللہ! بخش دے میرے ان گناہوں کو جنہیں میں نے چھپا کر کیا ہے اور جنہیں میں نے اعلانیہ کیا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 17678)، مسند احمد 6/147، وانظر حدیث رقم: 169 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 1125 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1125
1125۔ اردو حاشیہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ گمان عورت کی فطرت کے مطابق ہے ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ محبت حضرت عائشہ سے فرماتے تھے۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، فضائل أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم، حدیث: 3662، و صحیح مسلم، فضائل الصحابة، حدیث: 2384] آپ انہیں چھوڑ کر کہاں جاسکتے تھے؟ دراصل یہ دلیل ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انتہا درجے کی محبت تھی۔ اس قسم کے ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا تھا، ”کیا تو سمجھتی ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تجھ پر ظلم کریں گے؟“ [صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 974]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1125