سنن نسائي
باب سجود القرآن
ابواب: قرآن میں سجدوں کا بیان
74. بَابُ : الرُّكُودِ فِي الرَّكْعَتَيْنِ الأُولَيَيْنِ
باب: پہلی دونوں رکعتوں میں قرأت لمبی کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1003
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قال: حَدَّثَنِي أَبُو عَوْنٍ، قال: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ يَقُولُ: قال عُمَرُ، لِسَعْدٍ: قَدْ شَكَاكَ النَّاسُ فِي كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى فِي الصَّلَاةِ فَقَالَ سَعْدٌ:" أَتَّئِدُ فِي الْأُولَيَيْنِ وَأَحْذِفُ فِي الْأُخْرَيَيْنِ وَمَا آلُو مَا اقْتَدَيْتُ بِهِ مِنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" قَالَ: ذَاكَ الظَّنُّ بِكَ.
ابو عون کہتے ہیں کہ میں نے جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے سعد رضی اللہ عنہ سے کہا: لوگ ہر بات میں تمہاری شکایت کرتے ہیں یہاں تک کہ نماز میں بھی، سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں پہلی دونوں رکعتوں میں جلد بازی نہیں کرتا ۱؎ اور پچھلی دونوں رکعتوں میں قرأت ہلکی کرتا ہوں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی پیروی میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم سے مجھے یہی توقع ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 94 (755) مطولاً، 95 (758)، 103 (770)، صحیح مسلم/الصلاة 34 (453)، سنن ابی داود/الصلاة 130 (803)، (تحفة الأشراف: 3847)، مسند احمد 1/175، 176، 179، 180 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی اطمینان سے ٹھہر ٹھہر کر قرأت کرتا ہوں۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
سنن نسائی کی حدیث نمبر 1003 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1003
1003۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ قدیم الاسلام صحابی تھے۔ عشرۂ مبشرہ (وہ دس آدمی جنھیں زبان رسالت سے نام لے کر جنت کی خوش خبری ملی) میں سے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ننھیال میں سے تھے جنگ قادسیہ کے فاتح تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں کوفے کا گورنر مقرر کیا تھا۔ مندرجہ بالا شکایت پر معزول کر دیا مگر اپنے بعد جن چھ صحابہ کو خلافت کے لیے نامزد کیا، ان میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو بھی شامل فرمایا۔ اور وضاحت فرمائی کہ ”میں نے انہیں کسی نقص کی بنا پر معزول نہیں کیا تھا بلکہ وہ انتظامی مسئلہ تھا، لہٰذا یہ خلافت کے اہل ہیں۔“ رضي اللہ عنه وأرضاہ۔
➋ اکثر اہل کوفہ بدباطن لوگ تھے۔ جھوٹی شکایات کے عادی تھے۔ گورنروں تک کو تنگ کیا کرتے تھے۔ کسی کو ٹکنے نہ دیتے تھے۔ حجاج نے انہیں خوب کس کے رکھا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی بابت ان کی مندرجہ بالا شکایات بھی غلط ثابت ہوئیں۔ پھر بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں معزول کر دیا کہ جب حاکم اور محکو م میں غلط فہمیاں اس حد تک ہو جائیں تو امور حکو مت خوش اسلوبی سے نہیں چلائے جاسکتے۔
➌ پہلی دو رکعتیں لمبی کرنا مستحب ہے۔
➍ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کا بہت اہتمام کرتے تھے۔ ان کی نماز نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے عین مطابق ہوتی تھی۔
➎ اگر حکو مت کو کسی گورنر یا عہدیدار کی شکایت پہنچے جو لوگوں کے معاملات کا ذمہ دار ہو تو حاکم وقت مصلحت کے پیش نظر اسے معزول کر سکتا ہے اگرچہ اس کے خلاف کوئی الزام ثابت نہ بھی ہو۔
➏ معزول ہونے والا اپنے متعلق شکایات کے بارے میں پوچھ گچھ کر سکتا ہے۔
➐ کسی کی تعریف منہ پر کی جا سکتی ہے جب کہ اس سے فتنے میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔
➑ حکمران کو اپنے ماتحتوں کے متعلق اچھا گمان ہی رکھنا چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1003