Note: Copy Text and to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْإِجَارَةِ
کتاب: اجرت کے مسائل کا بیان
22. بَابُ إِذَا اسْتَأْجَرَ أَرْضًا فَمَاتَ أَحَدُهُمَا:
باب: اگر کوئی زمین کو ٹھیکہ پر لے پھر ٹھیکہ دینے والا یا لینے والا مر جائے۔
حدیث نمبر: 2286
وَأَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ حَدَّثَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنْ كِرَاءِ الْمَزَارِعِ"، وَقَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، حَتَّى أَجْلَاهُمْ عُمَرُ.
اور رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زمینوں کو کرایہ پر دینے سے منع فرمایا تھا اور عبیداللہ نے نافع سے بیان کیا، اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ (خیبر کے یہودیوں کے ساتھ وہاں کی زمین کا معاملہ برابر چلتا رہا) یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں جلا وطن کر دیا۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2286 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2286  
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ کا منشائے باب یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے خیبر کے یہودیوں سے زمین کی بٹائی کا ٹھیکہ طے فرمایا، جو حیات نبوی تک جاری رہا۔
بعد میں آپ ﷺ کا انتقال ہو گیا تب اسی معاملہ کو حضرت صدیق اکبر ؓ نے خلیفہ اسلام ہونے کی حیثیت میں جاری رکھا حتی کہ ان کا بھی وصال ہو گیا تو حضرت عمر ؓ نے بھی اپنی شروع خلافت میں اس معاملہ کو جاری رکھا۔
بعد میں یہودیوں کی مسلسل شرارتیں دیکھ کر ان کو خیبر سے جلاوطن کر دیا۔
پس ثابت ہوا کہ دو معاملہ کرنے والوں میں سے کسی ایک کی موت ہوجانے سے وہ معاملہ ختم نہیں ہوجاتا، بلکہ ان کے وارث اسے جاری رکھیں گے ہاں اگر کسی معاملہ کو فریقین میں سے کسی ایک کی موت کے ساتھ مشروط کیا ہے تو پھر یہ امر دیگر ہے۔
روایت میں زمینوں کو کرایہ پر دینے کا بھی ذکر ہے اور یہ بھی کہ فالتو زمین پڑی ہو جیسا کہ اسلام کے ابتدائی دور میں حالات تھے، تو ایسے حالات میں مالکان زمین یا تو فالتو زمینوں کی خود کاشت کریں یا پھر بجائے کرایہ پر دینے کے اپنے کسی حاجت مند بھائی کو مفت دے دیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2286   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2286  
حدیث حاشیہ:
(1)
مؤجر اور مستأجر دونوں میں سے کسی ایک کی موت سے اجارے کی فسخ ہوجانے یا عدم فسخ کے متعلق فقہاء کا اختلاف ہے۔
حضرت امام مالک، امام شافعی اور امام احمد ؒ کہتے ہیں کہ دونوں میں سے کسی ایک کا مرجانا،فسخ اجارہ کے لیے دلیل نہیں ہے، تاہم علمائے کوفہ کے نزدیک ایسا اجارہ فسخ ہوجاتا ہے۔
امام بخاری ؒ نے احادیث وآثار سے ثابت کیا ہے کہ ایسے حالات میں اجارہ فسخ نہیں ہوگا، جمہور کا یہی موقف ہے جسے انھوں نے اختیار کیا ہے۔
(فتح الباري: 583/4)
(2)
امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت کئی ایک روایات ذکر کی ہیں:
پہلی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے خیبر کی زرعی اراضی پر یہود کو مقرر کیا۔
دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ایک مقررہ کرائے پر زرعی اراضی ٹھیکے پر دی جاتی تھیں۔
تیسری روایت حضرت رافع بن خدیج کی ہے کہ زمین کو ٹھیکے پر دینا منع ہے۔
چوتھی روایت میں ہے کہ حضرت عمر ؓ نے یہودیوں کو جلا وطن کیا تھا۔
خیبر کی زمین کو بٹائی پر دینے کے متعلق حضرت نافع سے دوراوی بیان کرتے ہیں:
ایک حضرت جویریہ بن اسماء اور دوسرےحضرت عبیداللہ۔
حضرت عبید اللہ نے آخر حدیث میں یہ اضافہ ذکر کیا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے ان یہودیوں کو ان کی شرارتوں کی وجہ سے جلا وطن کردیاتھا۔
اس روایت کو امام مسلم نے متصل سند سے بیان کیا ہے۔
(صحیح مسلم، المساقاة و المزارعة، حدیث: 3967(1551)
زمین کو ٹھیکے پر دینے کے متعلق ہم اپنی گزارشات کتاب الحرث والزراعۃ میں بیان کریں گے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2286   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3939  
´زمین کو تہائی یا چوتھائی پر بٹائی دینے کی ممانعت کے سلسلے کی مختلف احادیث اور ان کے رواۃ کے الفاظ کے اختلاف کا ذکر۔`
نافع کا بیان ہے کہ رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو خبر دی کہ ہمارے چچا لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے، پھر واپس آ کر خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھیت کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے، تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: ہمیں معلوم ہے کہ وہ (رافع) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں زمین والے تھے، اور اسے کرا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3939]
اردو حاشہ:
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس حدیث میں بیان کردہ بٹائی کی صورت کو جائز سمجھتے تھے اور اس پر عمل بھی کرتے تھے کیونکہ ان کو نہی کا علم نہ تھا‘ بعد میں ان کو حضرت رافع بن حدیج کے بارے میں بتایا تو وہ اس سے رک گئے۔ جیسا کہ حدیث:3935 میں ذکر ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3939   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2344  
2344. پھر انہیں حضرت رافع بن خدیج ؓ کی حدیث بتائی گئی کہ نبی کریم ﷺ نے کھیت کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے تو وہ خود حضرت رافع ؓ کے پاس گئے۔ (حضرت نافع کہتے ہیں کہ) میں بھی ان کے ساتھ گیا۔ انھوں نے دریافت کیا تو حضرت رافع ؓ نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے کھیتوں کو کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے۔ حضرت ابن عمر ؓ نے فرمایا: تم جانتے ہو کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں اپنے کھیت اس پیداوار کے بدلے جو نالیوں کے کناروں پر ہوتی تھی اور کچھ گھاس کے عوض بٹائی پر دے دیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2344]
حدیث حاشیہ:
قانون الگ ہے اور ایثار الگ۔
حضرت رافع بن خدیج ؓ نے قانون نہیں بلکہ احسان اور ایثار کے طریقہ کو بتلایا ہے اس کے برخلاف حضرت عبداللہ بن عمر ؓ جواز اور عدم جواز کی صورت بیان فرما رہے ہیں۔
جس کا مقصد یہ کہ مدینہ میں جو یہ طریقہ رائج تھا کہ نہر کے قریب کی پیداوار زمین کا مالک لے لیتا اس سے آنحضرت ﷺ نے منع فرمایا مطلق بٹائی سے منع نہیں فرمایا۔
یہ الگ بات ہے کہ کوئی شخص اپنی زمین بطور ہمدردی کاشت کے لیے اپنے کسی بھائی کو دے دے۔
آنحضرت ﷺ نے اس طرز عمل کی بڑے شاندار لفظوں میں رغبت دلائی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2344