سنن نسائي
كتاب الافتتاح
کتاب: نماز شروع کرنے کے مسائل و احکام
17. بَابُ : نَوْعٌ آخَرُ مِنَ الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ بَيْنَ التَّكْبِيرِ وَالْقِرَاءَةِ
باب: تکبیر تحریمہ اور قرأت کے درمیان ایک اور دعا کا بیان۔
حدیث نمبر: 898
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، قال: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، قال: حَدَّثَنِي عَمِّي الْمَاجِشُونُ بْنُ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا اسْتَفْتَحَ الصَّلَاةَ كَبَّرَ، ثُمَّ قَالَ:" وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا شَرِيكَ لَهُ وَبِذَلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ اللَّهُمَّ أَنْتَ الْمَلِكُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ أَنَا عَبْدُكَ ظَلَمْتُ نَفْسِي وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي جَمِيعًا لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ وَاهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا لَا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي يَدَيْكَ وَالشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ أَنَا بِكَ وَإِلَيْكَ تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ".
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اللہ اکبر کہتے، پھر یہ دعا پڑھتے: «وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض حنيفا وما أنا من المشركين إن صلاتي ونسكي ومحياى ومماتي لله رب العالمين لا شريك له وبذلك أمرت وأنا من المسلمين اللہم أنت الملك لا إله إلا أنت أنا عبدك ظلمت نفسي واعترفت بذنبي فاغفر لي ذنوبي جميعا لا يغفر الذنوب إلا أنت واهدني لأحسن الأخلاق لا يهدي لأحسنها إلا أنت واصرف عني سيئها لا يصرف عني سيئها إلا أنت لبيك وسعديك والخير كله في يديك والشر ليس إليك أنا بك وإليك تباركت وتعاليت أستغفرك وأتوب إليك» ”میں نے اپنا رخ یکسو ہو کر اس ذات کی جانب کر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، اور میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ ساجھی بنانے والوں میں سے نہیں ہوں، یقیناً میری صلاۃ، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب اللہ کے لیے ہے، جو تمام جہاں کا رب ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے، اور میں فرمانبرداروں میں سے ہوں، اے اللہ! تو صاحب قوت و اقتدار ہے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، میں تیرا غلام ہوں، میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے، اور میں اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں، تو میرے تمام گناہوں کو بخش دے، تیرے سوا گناہوں کی مغفرت کوئی نہیں کر سکتا، اور مجھے حسن اخلاق کی توفیق دے، تیرے سوا کوئی اس کی توفیق نہیں دے سکتا، اور مجھ سے برے اخلاق پھیر دے، تیرے سوا اس کی برائی مجھ سے کوئی پھیر نہیں سکتا، میں تیری تابعداری کے لیے باربار حاضر ہوں، اور ہر طرح کی خیر تیرے ہاتھ میں ہے، اور شر سے تیرا کوئی علاقہ نہیں ۲؎، میں تیری وجہ سے ہوں، اور مجھے تیری ہی طرف پلٹنا ہے، تو صاحب برکت اور صاحب علو ہے، میں تجھ سے مغفرت کی درخواست کرتا ہوں، اور تجھ سے اپنے گناہوں کی توبہ کرتا ہوں“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 26 (771)، سنن ابی داود/الصلاة 118 (744)، 121 (760، 761)، 360 (1509)، سنن الترمذی/الدعوات 32 (3421، 3422، 3423)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 15 (864)، 70 (1054)، (تحفة الأشراف: 10228)، مسند احمد 1/93، 94، 95، 102، 103، 119، سنن الدارمی/الصلاة 33 (1274)، ویأتي عند المؤلف برقم: 1051، 1127 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: ابن حبان (۳/۱۳۱) کے الفاظ ہیں: ”جب نماز شروع کرتے …“ اس سے ثابت ہوا کہ بعض حضرات کا یہ کہنا کہ یہ دعائیں نوافل میں پڑھتے تھے، درست نہیں، یہ ساری دعائیں وقتاً فوقتاً بدل بدل کر پڑھی جا سکتی ہیں۔ ۲؎: شر کی نسبت اللہ رب العزت کی طرف نہیں کی جا سکتی اس لیے کہ اس کے فعل میں کوئی شر نہیں، بلکہ اس کے سارے افعال خیر ہیں، اس لیے کہ وہ سب سراسر عدل و حکمت پر مبنی ہیں، علامہ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اللہ تعالیٰ خیر و شر دونوں کا خالق ہے پس شر اس کی بعض مخلوقات میں ہے، اس کی تخلیق و عمل میں نہیں، اسی لیے اللہ سبحانہ تعالیٰ اس ظلم سے پاک ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
سنن نسائی کی حدیث نمبر 898 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 898
898۔ اردو حاشیہ:
➊ اس روایت کے بعض طرق میں صراحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فرض نماز شروع فرماتے تو یہ دعا پڑھتے اور بعض میں رات کی نماز کا ذکر ہے، گویا یہ دعا فرض اور نفل دونوں میں پڑھی جا سکتی ہے، البتہ جماعت کی صورت میں مقتدیوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
➋ ” «اللہ اکبر» کہتے، پھر فرماتے۔“ یہ صراحت ہے کہ آپ یہ دعا تکبیرتحریمہ کے بعد پڑھتے، لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ یہ دعا تکبیر تحریمہ سے قبل پڑھی جائے۔
➌ «أَنَا مِنْ الْمُسْلِمِينَ» میں مسلمان ہوں، حالانکہ آپ تو نبی تھے۔ دراصل یہ امت کو تعلیم دینے کے لیے ہے۔ متن میں لغوی ترجمہ کیا گیا ہے: ”میں فرماں برداروں میں سے ہوں۔“ یہ نبی اور امتی سب کے لیے برابر ہے۔ آگے آنے والی پوری دعا امت کے لیے ہے ورنہ آپ تو معصوم تھے اور اخلاق کاملہ و فاضلہ سے مزین تھے۔
➍ ”شر کی نسبت سے تیری طرف نہیں۔“ البتہ خیر کے ساتھ ملا کر کہا: جا سکتا ہے۔ خیروشر کا خالق، ورنہ اس میں بے ادبی کا پہلو نمایاں ہے۔ اس جملے کے اور بھی مفہوم بیان کیے گئے ہیں، مثلاً: شر کے ساتھ تیرا قرب حاصل نہیں کیاجا سکتا۔ یا شر تیری طرف نہیں چڑھتا بلکہ پاکیزہ کلمات تیری طرف چڑھتے ہیں۔ یا تیرے پیدا کرنے کے لحاظ سے کوئی چیز شر نہیں اگر کسی کو شر کہا جاتا ہے تو وہ کسی نہ کسی مخلوق کے لحاظ سے ہے۔ جو چیز ایک مخلوق کے لحاظ سے شر ہے، بسا اوقات وہ دوسری مخلوق کے لحاظ سے خیر ہو جاتی ہے۔ یا جو چیز ایک وقت شر ہے، وہ دوسرے اوقات میں خیر بھی ہو سکتی ہے، لہٰذا حکمت کے لحاظ سے ہر چیز خیرہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 898
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 212
´نماز کی صفت کا بیان`
«. . . وعن علي بن أبي طالب رضي الله عنه عن رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: أنه كان إذا قام إلى الصلاة قال: «وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض» إلى قوله: «...من المسلمين، اللهم أنت الملك لا إله إلا أنت أنت ربي وأنا عبدك..» إلى آخره . رواه مسلم وفي رواية له: إن ذلك في صلاة الليل. . . .»
”. . . ´سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ` نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کیلئے کھڑے ہوتے تو پہلے یہ دعا پڑھتے کہ «وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض ...... من المسلمين، اللهم أنت الملك لا إله إلا أنت أنت ربي وأنا عبدك .... إلى آخره» ”میں نے اپنے چہرے کو آسمانوں اور زمینوں کے خالق کی طرف متوجہ کیا اور میں مشرکوں سے نہیں۔ میری نماز و قربانی، میرا جینا و مرنا اللہ رب العزت ہی کے لئے ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کا مجھے حکم ہے اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔ اے اللہ! تو ہی مالک، تو ہی معبود ہے، تو میرا رب اور میں تیرا بندہ ہوںٍ ٍ“ (آخر تک) اور مسلم ہی کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ رات کہ نماز (تہجد) میں پڑھا کرتے تھے۔ . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب صفة الصلاة: 212]
� لغوی تشریح:
«إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ» جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے، سے مراد ہے تکبیر تحریمہ کے بعد دعائے افتتاح یا دعائے استفتاح کے طور پر پڑھتے۔
«وَجَّهْتُ» توجیہ سے ماخوذ ہے۔ میں نے چہرہ پھیر لیا۔
«فَطَرَ» خلق کے معنی میں ہے، یعنی پیدا کیا۔
«مِنَ الْمُسْلِمِين» تک۔ اس بارے میں دو روایتیں مروی ہیں۔ ایک روایت میں: «أَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ» ہے۔ ”میں پہلا مسلمان (مطیع فرمان بندہ) ہوں۔“ یہ آیت قرآنی میں مذکور لفظ کا لحاظ رکھتے ہوئے ہے۔ اور دوسرا: «أَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ» معنی کا لحاظ رکھتے ہوئے ہے۔ مصنف نے اسی جانب اشارہ کیا ہے۔ مکمل آیات اس طرح ہیں: پہلی آیت ہے: «إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ» [الأنعام 6: 79] اور دوسری آیت ہے: «إِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ * لَا شَرِيْكَ لَهُ وَبِذٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ» [الأنعام 6: 162۔ 163] ”میں نے اپنا رُخ اس ذاتِ اقدس کی جانب کر لیا جو آسمانوں اور زمین کی خالق ہے، یکسو ہو کر، اور میں مشرکین میں سے نہیں ہوں۔ یقیناًً میری نماز، میری ہر عبادت، میرا جینا اور میرا مرنا (سب کچھ) اسی اللہ کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا مالک وپروردگار ہے۔ اس کا کوئی شریک نہیں (ذات وصفات اور حقوق واختیارات میں۔) اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں مطیع فرمان بندوں میں سے ہوں۔“ ان آیات کو پڑھنے کے بعد آپ «اَللّٰهُمَّ! أَنْتَ الْمَلِكُ . . .» إلخ دعا پڑھتے۔
«إِلٰي آخِرِهٖ» یعنی اس معروف دعا کو آخر تک پڑھتے:
«اَللّٰهُمَّ! أَنْتَ الْمَلِكُ لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنْتَ، أَنْتَ رَبِّي وَأَنَا عَبْدُكَ، ظَلَمْتُ نَفْسِي وَاعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْلِي ذُنُوبِي جَمِيعًا، إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ، وَاهْدِنِي لِأَحْسَنِ الْأَخْلَاقِ، لَا يَهْدِي لِأَحْسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ، وَاصْرِفْ عَنِّي سَيِّئَهَا، لَا يَصْرِفُ عَنِّي سَيِّئَهَا إِلَّا أَنْتَ، لَبَّيْكَ، وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ كُلُّهُ فِي يَدَيْكَ، وَالشَّرُّ لَيْسَ إِلَيْكَ أَنَا بِكَ وَإِلَيْكَ، تَبَارَكْتَ وَتَعَالَيْتَ، أَسْتَغْفِرُكَ وَأَتُوبُ إِلَيْكَ»
”اے اللہ! تو ہی بادشاہ ہے، تیرے سوا کوئی آقا و مالک نہیں۔ تو ہی میرا آقا و پروردگار ہے اور میں تیرا بندہ و غلام ہوں۔ میں نے (یقیناًً) اپنی جان پر ظلم کیا اور میں نے اپنے گناہ کا اعتراف کیا، لہٰذا میرے سارے گناہ بخش دے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ تیرے سوا کوئی اور گناہ بخش نہیں سکتا۔ میری عمدہ اور اچھے اخلاق کی طرف رہنمائی فرما، تیرے سوا بہترین اخلاق کی راہ کوئی دوسرا نہیں دکھا سکتا۔ مجھ سے میری بری خصلتیں ہٹا دے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ تیرے سوا برے اخلاق کو کوئی بھی ہٹا نہیں سکتا۔ بار بار تیرے حضور حاضر ہوں اور تیرا فرمانبردار ہوں۔ بھلائی ساری کی ساری تیرے ہاتھوں میں ہے اور برائی تیری جانب منسوب نہیں کی جا سکتی۔ میں تیرے ساتھ (ہی قائم) ہوں اور تیری جانب (ہی لوٹنے والا) ہوں۔ تو ہی بہت برکت والا اور بہت بلندی و برتری والا ہے۔ بخشش و خطا بخشی کا تجھی سے طلبگار ہوں اور توبہ کی صورت میں تیری جناب میں رجوع کرتا ہوں۔“
مشہور محقق و محدث مولانا عبدالرحمٰن مبارک پوری رحمہ اللہ نے ترمذی کی شرح [تحفة الأحوذي: 203] میں اس حدیث پر عالمانہ گفتگو کی ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ یہ حدیث مسلم شریف کے باب صلاۃ اللیل میں دو طریق سے منقول ہے۔ ان دونوں طرق میں سے کسی میں بھی یہ نہیں ہے کہ یہ دعا آپ رات کی نماز میں پڑھتے تھے، نیز اس حدیث کو ترمذی نے ابواب الدعوات [حديث: 3421، 3422، 3423] میں تین طرق سے روایت کیا ہے۔ تینوں میں سے کسی میں بھی یہ نہیں ہے کہ یہ دعا آپ نماز شب میں پڑھتے تھے بلکہ اس کے برعکس جامع الترمذی ہی کی ایک روایت [3423] میں ہے کہ جب آپ فرض نماز کی ادائیگی کے لیے کھڑے ہوتے تو اس موقع پر یہ دعا پڑھتے۔ اور امام ابوداود رحمہ اللہ نے اپنی سنن کی کتاب [الصلاة، باب «ما يستفتح به الصلاة من الدعاء»، حديث: 760، 761] میں بھی دو طریق سے یہ روایت نقل کی ہے۔ ان میں سے کسی میں بھی یہ نہیں ہے کہ یہ دعا آپ رات کی نماز میں مانگتے تھے بلکہ ان میں سے ایک میں تو یہ ہے کہ آپ جب فرض نماز کی ادائیگی کے لیے کھڑے ہوئے تو اس وقت یہ دعا مانگتے۔ اور سنن دراقطنی کی ایک روایت میں ہے: جب آپ فرض نماز کا آغاز فرماتے تو اس وقت «وَجَّهْتُ وَجْهِيَ....» الخ پڑھتے۔ [سنن دارقطني: 287/1 - 296]
امام شوکانی رحمہ اللہ نے اپنی مشہور ومعروف کتاب نیل الاوطار میں کہا ہے کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے بھی اسی طرح اس حدیث کی تخریج کی اور اتنا اضافہ نقل کیا ہے کہ جب آپ فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے، اس وقت یہ پڑھتے۔ اور اسی طرح امام شافعی رحمہ اللہ نے بھی اسے روایت کیا ہے، انہوں نے بھی فرض نماز کی قید لگائی ہے۔ ان دونوں کے علاوہ دوسروں نے بھی اسی طرح کہا: ہے۔ یہ قول کہ یہ دعا نفلی نماز کے ساتھ مخصوص ہے اور فرض نماز میں مشروع نہیں باطل ہے۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے: [نيل الأوطار: 215/2 - 217]
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 212
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 760
´نماز کے شروع میں کون سی دعا پڑھی جائے؟`
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو «الله اكبر» کہتے پھر یہ دعا پڑھتے: «وجهت وجهي للذي فطر السموات والأرض حنيفا مسلما وما أنا من المشركين إن صلاتي ونسكي ومحياى ومماتي لله رب العالمين لا شريك له وبذلك أمرت وأنا أول المسلمين اللهم أنت الملك لا إله لي إلا أنت أنت ربي وأنا عبدك ظلمت نفسي واعترفت بذنبي فاغفر لي ذنوبي جميعا إنه لا يغفر الذنوب إلا أنت واهدني لأحسن الأخلاق لا يهدي لأحسنها إلا أنت واصرف عني سيئها لا يصرف سيئها إلا أنت لبيك وسعديك والخير كله في يديك والشر ليس إليك أنا بك وإليك تباركت وتعاليت أستغفرك وأتوب إليك» ”میں نے اپنے چہرے کو اس ذات کی طرف متوجہ کیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، میں تمام ادیان سے کٹ کر سچے دین کا تابع دار اور مسلمان ہوں، میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو اللہ کے ساتھ دوسرے کو شریک ٹھہراتے ہیں، میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور مرنا سب اللہ ہی کے لیے ہے، جو سارے جہاں کا رب ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلا تابعدار ہوں، اے اللہ! تو بادشاہ ہے، تیرے سوا میرا کوئی اور معبود برحق نہیں، تو میرا رب ہے اور میں تیرا بندہ ہوں، میں نے اپنے نفس پر ظلم کیا، مجھے اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں کا اعتراف ہے، تو میرے تمام گناہوں کی مغفرت فرما، تیرے سوا گناہوں کی مغفرت کرنے والا کوئی نہیں، مجھے حسن اخلاق کی ہدایت فرما، ان اخلاق حسنہ کی جانب صرف تو ہی رہنمائی کرنے والا ہے، بری عادتوں اور بدخلقی کو مجھ سے دور کر دے، صرف تو ہی ان بری عادتوں کو دور کرنے والا ہے، میں حاضر ہوں، تیرے حکم کی تعمیل کے لیے حاضر ہوں، تمام بھلائیاں تیرے ہاتھ میں ہیں، تیری طرف برائی کی نسبت نہیں کی جا سکتی، میں تیرا ہوں، اور میرا ٹھکانا تیری ہی طرف ہے، تو بڑی برکت والا اور بہت بلند و بالا ہے، میں تجھ سے مغفرت طلب کرتا اور تیرے حضور توبہ کرتا ہوں“، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں جاتے تو یہ دعا پڑ ھتے: «اللهم لك ركعت وبك آمنت ولك أسلمت خشع لك سمعي وبصري ومخي وعظامي وعصبي» ”اے اللہ! میں نے تیرے لیے رکوع کیا، تجھ پر ایمان لایا اور تیرا تابعدار ہوا، میری سماعت، میری بصارت، میرا دماغ، میری ہڈی اور میرے پٹھے تیرے لیے جھک گئے)، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے سر اٹھاتے تو فرماتے: «سمع الله لمن حمده ربنا ولك الحمد ملء السموات والأرض وملء ما بينهما وملء ما شئت من شىء بعد» ”اللہ نے اس شخص کی سن لی (قبول کر لیا) جس نے اس کی تعریف کی، اے ہمارے رب! تیرے لیے حمد و ثنا ہے آسمانوں اور زمین کے برابر، اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان ہے اس کے برابر، اور اس کے بعد جو کچھ تو چاہے اس کے برابر۔“ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے تو کہتے: «اللهم لك سجدت وبك آمنت ولك أسلمت سجد وجهي للذي خلقه وصوره فأحسن صورته وشق سمعه وبصره وتبارك الله أحسن الخالقين» ”اے اللہ! میں نے تیرے لیے سجدہ کیا، تجھ پر ایمان لایا اور تیرا فرماں بردار و تابعدار ہوا، میرے چہرے نے سجدہ کیا اس ذات کا جس نے اسے پیدا کیا اور پھر اس کی صورت بنائی تو اچھی صورت بنائی، اس کے کان اور آنکھ پھاڑے، اللہ کی ذات بڑی بابرکت ہے وہ بہترین تخلیق فرمانے والا ہے۔“ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلام پھیرتے تو کہتے: «اللهم اغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت وما أسرفت وما أنت أعلم به مني أنت المقدم والمؤخر لا إله إلا أنت» ”اے اللہ! میرے اگلے اور پچھلے، چھپے اور کھلے گناہوں کی مغفرت فرما، اور مجھ سے جو زیادتی ہوئی ہو ان سے اور ان سب باتوں سے درگزر فرما جن کو تو مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے، تو ہی آگے بڑھانے والا اور پیچھے کرنے والا ہے، تیرے سوا کوئی برحق معبود نہیں۔“ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 760]
760۔ اردو حاشیہ:
➊ نماز شروع کرنے کے وقت کی کئی دعائیں ثابت ہیں۔ طویل بھی اور مختصر بھی۔ من جملہ ان کے مذکورہ دعا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے حضور اپنے عجز و نیاز اور اظہار بندگی میں انتہائی فرما دی ہے۔ ہمارے لیے بھی ان دعاؤں کا پڑھنا مستحب ہے اور معنوی لحاظ سے ان میں توحید الوہیت، ربوبیت اور اسماء صفات سب ہی کا اثبات و اقرار ہے۔
➋ یہ دعا فرائض اور دن اور رات کی سب ہی نمازوں میں پڑھی جا سکتی ہے جیسے کہ امام ابن حبان رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ نے ا ن کا فرائض میں پڑھنا بیان فرمایا ہے۔ تاہم صحیح مسلم میں رات کی نماز میں پڑھنے کا ذکر کیا گیا ہے۔
➌ اس روایت میں تصریح ہے کہ دعا «وجهت وجهي . . . . . . .» کا مقام تکبیر تحریمہ کے بعد ہے بخلاف ان حضرا ت کے جو اسے پہلے سمجھتے ہیں۔ [صحيح مسلم، حديث: 771]
➍ «وانا اول المسلمين» کا جملہ جو پہلی دعا میں آیا ہے، اس کے متعلق کچھ فقہائے مدینہ سے مروی ہے کہ وہ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخصوص سمجھتے تھے اور عام مسلمانوں کو «وانا من المسلمين» کہنے کی تلقین کرتے تھے۔ دیکھیے روایت: 762، مگر حقیقت یہ ہے کہ دونوں طرح صحیح ہے اور «اوّل المسلمين» کا مفہوم بھی بالکل بجا ہے، یعنی بندہ یہ اقرار کرتا ہے کہ ”میں تیرے احکام قبول کرنے میں سب سے پیش پیش ہوں۔“
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 760
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3423
´تہجد میں پڑھی جانے والی دعاؤں سے متعلق ایک اور باب۔`
علی بن ابی طالب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فرض نماز پڑھنے کھڑے ہوتے تھے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں کندھوں کے برابر اٹھاتے (رفع یدین کرتے)، اور ایسا اس وقت بھی کرتے تھے جب اپنی قرأت پوری کر لیتے تھے اور رکوع کا ارادہ کرتے تھے، اور ایسا ہی کرتے تھے جب رکوع سے سر اٹھاتے تھے ۱؎، بیٹھے ہونے کی حالت میں اپنی نماز کے کسی حصے میں بھی رفع یدین نہ کرتے تھے، پھر جب دونوں سجدے کر کے کھڑے ہوتے تو اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے اسی طرح، پھر تکبیر (اللہ اکبر) کہتے اور نماز شروع کرتے وقت تکبیر (تحریمہ) کے بعد پڑھ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3423]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی ان تینوں حالتوں وصورتوں میں رفع یدین کرتے تھے۔
2؎:
فرض نماز خصوصاً باجماعت نماز میں امام کو تخفیف کی ہدایت کی گئی ہے،
تو اس میں اتنی لمبی لمبی دعائیں آپﷺ خود کیسے پڑھ سکتے تھے،
یہ انفرادی نمازوں کے لیے ہے خواہ فرض ہو یا نفل۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3423
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1812
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے کھڑ ے ہوتے تھے تو یہ دعا پڑھتے: ”میں نے اپنا چھرہ ہر طرف سے یکسو ہو کر، اس ذات کی طرف کر دیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا، اور میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں، جو اس کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں، میری نماز اور میری قربانی یا میرا ہر دینی عمل اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لئے ہے، جو کائنات کا آقا ومالک ہے، اس کا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1812]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
وَجَّهْتُ وَجْهِيَ حَنِيْفاً:
میں نے ہر طرف سے رخ پھیر لیا ہے اور ہر طرف سے کٹ کر آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے کی طرف کر لیا ہے،
اس لیے میرا مشرکوں سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔
(2)
صَلاَتِيْ وَ نُسُكِيْ:
نسک،
عبادت و بندگی اور ہر دینی کام کو کہتے ہیں لیکن یہاں مقصود قربانی ہے اور یہ دونوں لفظ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِيْ کے مقابلہ میں ہیں کہ میری زندگی میں دوئی اور شراکت نہیں ہے،
جب تک زندہ ہوں اس کی طرف متوجہ ہوں اور نماز اس کی علامت ہے اور جب میری موت آئے گی تو جان اسی پر قربان کروں گا،
زندگی کے آخری سانس تک اس سے منہ نہیں موڑوں گا کیونکہ للهِ کا معنی ہے میری موت کا مالک وہی ہے اور کوئی اور اس کا مالک نہیں ہے۔
اس لیے موت و حیات اس کے لیے مختص ہیں،
کسی اور کا ان میں کوئی حق اور حصہ نہیں ہے،
کیونکہ وہی ﴿رَبُّ الْعَالَمِیْن﴾ ہے یعنی تمام کائنات کا آقا،
مالک و فرمانروا،
پروردگار اور مدبر و منتظم ہے۔
کائنات کے نظم و نسق اور انتظام و انصرام میں کسی کا دخل نہیں ہے۔
اس لیے میری موت و حیات میں کسی کا دخل نہیں،
اس لیے میں اس کا فرمانبردار اور اطاعت گزار ہوں،
اس کا بندہ اور غلام ہونے کی بنا پر اس بادشاہ حقیقی سے اپنی لغزشوں اور کوتاہیوں کی معافی کا طلب گار ہوں اور اس مالک کے بغیر یہ کام کوئی بھی نہیں کر سکتا،
کیونکہ وہی اِلٰہ ہے۔
اخلاق حسنہ اختیار کرنے کی توفیق وہی عنایت فرما سکتا ہے اور اخلاق سیئہ سے وہی بچا سکتا ہے۔
اس کے سوا کسی کے اختیار میں نہیں ہے کہ وہ اخلاق حسنہ کو اپنانے کی توفیق دے اور برے اخلاق سے محفوظ رکھے کیونکہ ہر قسم کی خیر و بھلائی اس کے ہاتھ میں ہے،
اس لیے میں اس کی اطاعت و فرمانبرداری پر قائم ہوں اور ہر وقت اس کے لیے تیار ہوں،
وہ خالقِ شر ضرور ہے لیکن برائی کا اس کی طرف گزر نہیں۔
(3)
وَالشَّرُّ لَيْسَ اِلَيْكَ:
یعنی شر تقرب اور نزدیکی کا باعث نہیں بن سکتا،
کیونکہ شر تیری بارگاہ میں پہنچتا نہیں،
تجھ تک صرف کلمات خیر اور اعمال صالحہ ہی پہنچتے ہیں،
نہ شر کی طرف نسبت ہو سکتی ہے کیونکہ تیری نسبت اور تیرے اعتبار سے وہ شر نہیں ہے بلکہ حکمت بالغہ پر مبنی ہے اس لیے اس میں شر ہمارے اعتبار سے ہے اور ادب و توقیر کا تقاضا بھی یہی ہے کہ شر کی نسبت اپنی طرف کی جائے،
اپنے مالک اور آقا کی طرف نہ کی جائے،
ہم چونکہ تیرے سہارے قائم ہیں،
اس لیے ہمارا رخ تیری ہی طرف ہے،
اور ہماری ہر چیز ہماری نس نس،
انگ انگ اور جوڑ جوڑ تیرے حضور جھکا ہے،
اور تو اپنے انعامات و احسانات کے سبب جو بے حد و بے انتہا ہیں،
اس قدر حمد اور شکر کا حق دار ہے کہ آسمان و زمین اور ان کے درمیان خلا بھی اگر تیری حمد و شکر سے بھر جائیں تو بھی تیرے فیض و کرم کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔
اس لیے ہم ہر قسم کی کوتاہیوں سے جو ہو چکی ہیں یا ہوں گی معافی کے خواستگار ہیں،
کیونکہ ہر قسم کی کھلی چھپی،
چھوٹی بڑی کوتاہیوں کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں اور تیرے سوا کوئی انہیں معاف نہیں کر سکتا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1812