Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب الإمامة
کتاب: امامت کے احکام و مسائل
63. بَابُ : الرُّكُوعِ دُونَ الصَّفِّ
باب: صف میں ملے بغیر رکوع کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 872
أَخْبَرَنَا حُمَيْدُ بْنُ مَسْعَدَةَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ زُرَيْعٍ، قال: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ، عَنْ زِيَادٍ الْأَعْلَمِ، قال: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، أَنَّ أَبَا بَكْرَةَ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَاكِعٌ فَرَكَعَ دُونَ الصَّفِّ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" زَادَكَ اللَّهُ حِرْصًا وَلَا تَعُدْ".
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ مسجد میں داخل ہوئے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں تھے، تو انہوں نے صف میں شامل ہونے سے پہلے ہی رکوع کر لیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ آپ کی حرص میں اضافہ فرمائے، پھر ایسا نہ کرنا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الاذان 114 (783)، سنن ابی داود/الصلاة 101 (683، 684)، (تحفة الأشراف: 11659)، مسند احمد 5/39، 42، 45، 46، 50 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: کیونکہ خیر کی حرص گو محبوب و مطلوب ہے لیکن اسی صورت میں جب یہ شریعت کے مخالف نہ ہو، اور اس طرح صف میں شامل ہونا شرعی طریقے کے خلاف ہے، اس لیے اس سے بچنا اولیٰ ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري

سنن نسائی کی حدیث نمبر 872 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 872  
872 ۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کے اس طرح کرنے میں نماز کے اندر چلنا پڑتا ہے جو نماز کے منافی ہے، لہٰذا یہ جائز نہیں۔
➋ اس روایت سے رکوع کی رکعت پر استدلال کیا گیا ہے کہ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کو خدشہ تھا کہ اگر رکوع ختم ہو گیا تو میں رکعت نہ پاس کوں گا، تبھی انہوں نے یہ انداز اختیارکیا۔ مگر یہ استدلال اتنا قوی نہیں ہے، نیز کوئی صراحت نہیں کہ انہوں نے اٹھ کر وہ رکعت پڑھی تھی یا نہیں۔ اس مسئلے میں یہ روایت مبہم ہے۔ استدلال واضح ہونا چاہیے۔ فتح الباری میں طبرانی کے حوالے سے حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا تھا کہ «صلِّ ما أدركتَ واقضِ ما سبَقَك» جو مل جائے پڑھو اور جو نکل جائے اسے پورا کرو۔ [فتح الباري: 2؍348، شرح حدیث: 783]
حدیث کا مذکورہ قطعہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بھی آتا ہے۔ دیکھیے: [صحيح مسلم، المساجد، حديث: 602]
اور ظاہر ہے کہ انہیں صرف رکوع ہی ملا تھا، قیام تو ان سے رہ گیا تھا۔ اس پس منظر میں اس حکم کا صاف مقصد یہ ہے کہ صرف رکوع ملے تو وہ رکعت شمار نہ ہو گی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 872   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد محفوظ اعوان حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سلسله احاديث صحيحه 533  
´امام کو رکوع کی حالت میں پانے والا نمازی جماعت کے ساتھ کیسے ملے؟`
«. . . - زادك الله حرصا، ولا تعد . . .»
. . . جب سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کی حالت میں تھے، انہوں نے صف تک پہنچنے سے پہلے رکوع کر لیا اور چل کر صف میں داخل ہو گئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری کی تو فرمایا: تم میں سے کس نے صف سے پہلے رکوع کیا اور پھر چل کر صف میں داخل ہو گیا؟ ابوبکرہ نے کہا: میں نے ایسے کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تیری رغبت میں اضافہ کرے، دوبارہ ایسے نہ کرنا۔ . . . [سلسله احاديث صحيحه/الاذان و الصلاة: 533]
فوائد و مسائل
سیدنا عبداللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی حدیث [سلسله احاديث صحيحه حديث نمبر 532] میں صف میں پہنچنے سے پہلے رکوع کرنے کی تعلیم دی جا رہی ہے، جبکہ سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ایسا کرنے سے منع کیا جا رہا ہے۔ یہ دو احادیث مبارکہ ظاہری طور پر متعارض ہیں۔ چونکہ دونوں احادیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہیں، اس لیے کسی ایک کے حق میں ذاتی رائے دئیے بغیر دونوں پر عمل کرنے کے لیے جمع و تطبیق کی کوئی صورت پیش کرنی چاہئیے، وگرنہ نسخ یا ترجیح کی صورت پرغور کیا جائے۔

امام البانی رحمہ اللہ نے طویل بحث کرتے ہوئے ان دو احادیث مبارکہ میں یہ تطبیق دی ہے: دونوں احادیث میں کوئی تعارض نہیں ہے، کیونکہ مختلف احادیث کو مدنظر رکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں نماز کی طرف جلدی چل کر آنے سے منع کیا گیا، نہ کہ صف سے پہلے رکوع کر کے صف کے ساتھ ملنے سے کیونکہ مسند احمد کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکرہ کے جوتوں کی آواز سنی، وہ رکوع پانے کے لیے دوڑ رہے تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا: کہ دوڑنے والا کون تھا؟ ... لہٰذا سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بیان کردہ صورت واقعی سنت ہے اور ابوبکرہ کہ حدیث میں اس سے منع نہیں کیا گیا، بلکہ نماز کی طرف دوڑ کر آنے سے منع کیا گیا ہے۔ [مزید دیکھئے: صحیحہ: 230،229]
   سلسله احاديث صحيحه شرح از محمد محفوظ احمد، حدیث/صفحہ نمبر: 533   

  حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 783  
´جب صف تک پہنچنے سے پہلے ہی کسی نے رکوع کر لیا`
«. . . أَنَّهُ انْتَهَى إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ رَاكِعٌ، فَرَكَعَ قَبْلَ أَنْ يَصِلَ إِلَى الصَّفِّ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" زَادَكَ اللَّهُ حِرْصًا وَلَا تَعُدْ . . .»
. . . ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف (نماز پڑھنے کے لیے) گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت رکوع میں تھے۔ اس لیے صف تک پہنچنے سے پہلے ہی انہوں نے رکوع کر لیا، پھر اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تمہارا شوق اور زیادہ کرے لیکن دوبارہ ایسا نہ کرنا . . . [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 783]
اشکال:
مجوزین صحیح بخاری کی یہ حدیث اپنے دلائل میں پیش کرتے ہیں۔
فقہ الحدیث
اگر امام کی اقتدا میں نماز پڑھی جا رہی ہو تو صف کے پیچھے اکیلے مرد کی کوئی بھی نماز کسی بھی صورت میں نہیں ہوتی۔
مجوزین کے مزعومہ دلائل کا منصفانہ تجزیہ
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز ہو جاتی ہے لیکن جیسا کہ امام ابن حزم رحمہ اللہ کا کلام ہے، کتاب و سنت یا اجماع امت میں سے کوئی بھی دلیل ان کا ساتھ نہیں دیتی۔ اپنے باطل مذہب کو ثابت کرنے کے لیے جو دلائل وہ پیش کرتے ہیں، ان کا منصفانہ تجزیہ پیش خدمت ہے:
دلیل نمبر 3:
سیدنا ابوبکرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
«إنه انتهى إلى النبى صلى الله عليه وسلم وهو راكع، فركع قبل أن يصل إلى الصف، فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال: زادك الله حرضا ولا تعد.»
وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ رکوع کی حالت میں تھے۔ انہوں نے صف کے ساتھ ملنے سے پہلے ہی رکوع کر لیا (پھر چلتے چلتے صف میں مل گئے)، پھر اس بات کا تذکرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تمہاری حرص کو مزید بڑھائے لیکن آئندہ ایسا مت کرنا۔ [صحيح البخاري: 783]
تجزیہ:
اس روایت سے بھی ویسا ہی باطل استدلال کیا گیا ہے جیسا کہ سابقہ روایت سے کیا گیا تھا۔ فرق صرف یہ ہے کہ سابقہ روایت کے ذریعے امام کی بائیں جانب سے دائیں جانب آنے والے شخص کو صف کے پیچھے نماز پڑھنے والا ثابت کرنے کی سعی کی گئی تھی اور اس روایت کے ذریعے رکوع کی حالت میں چل کر آنے والے شخص کو صف کے پیچھے نماز پڑھنے والا باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے۔ حالانکہ بالکل واضح بات ہے کہ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رکوع کی حالت میں دیکھ کر فوراً تعمیل کے جذبے کے تحت پچھلی صف سے ہی رکوع کی ہیئت میں منتقل ہو گئے اور پھر چل کر اگلی میں شامل ہو گئے، یعنی ان کا یہ چلنا صف میں شامل ہونے کے لیے تھا، نہ کہ اکیلے نماز پڑھنے کے لیے۔

اگر اس بات کو تسلیم کر بھی لیا جائے کہ سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے صف کے پیچھے اکیلے نماز ادا کی تھی تو پھر بھی اس سے دلیل نہیں لی جا سکتی کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو آئندہ کے لیے اس کام سے منع بھی فرما دیا تھا، یعنی اب بقول رسول امین صلی اللہ علیہ وسلم صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنا ممنوع ہے۔

امام ابن حزم رحمہ اللہ کا فتویٰ بھی ملاحظہ فرمائیں:
«وهذا الخبر حجة عليهم لنا . . . . . فقد ثبت أن الركوع دون الصف، ثم دخول الصفت كذلك لا يحل .»
یہ حدیث تو ان لوگوں کے خلاف ہماری ہی دلیل بنتی ہے۔۔ اس حدیث سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ صف کے پیچھے رکوع کر کے صف میں شامل ہونا بھی جائز نہیں (چہ جائیکہ ایک دو رکعات یا پوری نماز ادا کرنا)۔ [المحلى لابن حزم: 58,57/4]

اب رہا یہ اعتراض کہ اگر یہ کام جائز نہ تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کو وہ رکعت دوبارہ پڑھنے کاحکم کیوں نہیں دیا جس میں انہوں نے رکوع صف کے پیچھے ہی کر لیا تھا؟ تو معترض پہلے یہ ثابت کرے کہ سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے وہ رکعت اٹھ کر نہیں پڑھی تھی۔

عدم ذکر، عدم وجود کی دلیل نہیں ہوتا۔ ہماری ذکر کردہ پہلی دلیل میں صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنے والے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے نماز دوہرانے کا صریح حکم ثابت ہے۔ صریح کو چھوڑ کر مبہم کو دلیل بنانا انصاف نہیں۔
معلوم ہوا کہ اس حدیث سے صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔
صف کے پیچھے اکیلے کی نماز مفصل مضمون پڑھنے کے لیے سنن ترمذی حدیث نمبر 230 کے فوائد و مسائل دیکھئیے۔
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 40، حدیث/صفحہ نمبر: 48   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 683  
´آدمی صف میں ملنے سے پہلے ہی رکوع کر لے تو اس کے حکم کا بیان۔`
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ وہ مسجد میں آئے اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں تھے، وہ کہتے ہیں: تو میں نے صف میں پہنچنے سے پہلے ہی رکوع کر لیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (نماز سے فارغ ہونے کے بعد) فرمایا: اللہ تمہارے شوق کو بڑھائے، آئندہ ایسا نہ کرنا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الصفوف /حدیث: 683]
683۔ اردو حاشیہ:
آیندہ ایسے نہ کرنا۔ کا مطلب ہے کہ یہ دیکھ کر کہ جماعت ہو رہی ہے اور امام رکوع میں چلا گیا ہے، تو تم تیزی سے دوڑتے ہوئے آؤ، اور پھر دروازے ہی سے رکوع کر لو اور حالت رکوع ہی میں چلتے ہوئے صف میں شامل ہو۔ آئندہ اس طرح نہ کرنا، بلکہ اطمینان اور وقار سے آ کر صف میں شامل ہو۔ باقی رہا مسئلہ کہ اس رکعت کو شمار کیا گیا یا نہیں کیا گیا؟ اس حدیث میں اس امر کی کوئی صراحت نہیں ہے۔ لیکن ایک دوسری حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: «اذا اتيت الصلاة فاتها بوقار وسكنينة فصل ما ادركت واقض ما فاتك» [الصحيحه، حديث: 1198، بحواله الاوسط، للطبراني]
جب تم نماز کے لیے آؤ تو وقار اور آرام سے آؤ، پس جو (جماعت کے ساتھ) پالو، پڑھ لو اور جو فوت ہو جائے، اسے پور ا کر لو۔ ظاہر بات ہے کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے قیام اور سورۃ فاتحہ رہ گئی، تو انہوں نے یہ رکعت دہرائی ہو گی، جس کا ذکر گو حدیث میں نہیں ہے، لیکن فرمان نبوی کی رُو سے انہوں نے یقیناًً ایسا کیا ہو گا، اگر اسی طرح رکعت کا اثبات یا جواز ہوتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کو یہ نہ کہتے کہ آئندہ ایسا نہ کرنا۔ بعض لوگ «لا تَعُدْ» ( «عاد»، «يعود»، «عَوُد» سے) کو «لا تُعِدْ» پڑھتے ہیں اور اسے «اَعَادَ»، «يُعيد» سے بتلاتے ہیں اور معنی کرتے ہیں۔ اس رکعت کو نہ لوٹانا۔ اور یوں مدرک رکوع کے لیے رکعت کا اثبات کرتے ہیں۔ لیکن اس کا اِعَادَہ سے ہونا سیاق کلام سے میل نہیں کھاتا۔ اس طرح بعض لوگ اسے «عَدّ»، «يَعُدُّ» شمار کرنا سے قرار دے کر «لا تَعُدّ» پڑھتے ہیں، یعنی اس رکعت کو شمار نہ کرنا۔ اس طرح گویا لفظ میں متعدد احتمالات پائے جاتے ہیں۔ لیکن سیاق کے اعتبار سے اس کے پہلے معنی ہی اس رکعت کو شمار نہ کرنا۔ اس طرح گویا لفظ میں متعدد احتمالات پائے جاتے ہیں، لیکن سیاق کے اعتبار سے اس کے پہلے معنی ہی صحیح ہیں اور اس سے مدرک رکوع کے لیے رکعت کا اثبات نہیں ہوتا۔ علاوہ ازیں دیگر دلائل بھی اسی موقف کے موئد ہیں، اس لیے یہی راجح اور قوی ہے۔ «والله اعلم»
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 683   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 684  
´آدمی صف میں ملنے سے پہلے ہی رکوع کر لے تو اس کے حکم کا بیان۔`
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ (مسجد میں) آئے اس حال میں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں تھے، انہوں نے صف میں پہنچنے سے پہلے ہی رکوع کر لیا، پھر وہ صف میں ملنے کے لیے چلے، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ چکے، تو آپ نے پوچھا: تم میں سے کس نے صف میں پہنچنے سے پہلے رکوع کیا تھا، پھر وہ صف میں ملنے کے لیے چل کر آیا؟، ابوبکرہ نے کہا: میں نے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تمہاری نیکی کی حرص کو بڑھائے، آئندہ ایسا نہ کرنا۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: «زياد الأعلم» سے مراد زیاد بن فلاں بن قرہ ہیں، جو یونس بن عبید کے خالہ زاد بھائی ہیں۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الصفوف /حدیث: 684]
684۔ اردو حاشیہ:
➊ نیکی کرنے میں اگر کسی سے کوئی خطا ہو جائے تو پہلے اس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے پھر صحیح طریقہ بتانا یا سکھانا چاہیے۔
➋ نمازی کو پہلے اطمینان سے صف میں پہنچنا چاہیے، اس کے بعد سکون سے تکبیر کہہ کر نماز میں شامل ہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 684   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 783  
783. حضرت ابوبکرہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی ﷺ کے قریب اس وقت پہنچے جب آپ رکوع میں تھے۔ صف میں شمولیت سے پہلے ہی انہوں نے رکوع کر لیا۔ پھر جب نبی ﷺ سے یہ ماجرا بیان کیا تو آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہارے شوق کو مزید ترقی دے آئندہ ایسا مت کرنا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:783]
حدیث حاشیہ:
طبرانی کی روایت میں یوں ہے کہ ابوبکرہ اس وقت مسجد میں پہنچے کہ نماز کی تکبیر ہو چکی تھی، یہ دوڑے اور طحاوی کی روایت میں ہے کہ دوڑتے ہوئے ہانپنے لگے، انہوں نے مارے جلدی کے صف میں شریک ہونے سے پہلے ہی رکو ع کر دیا۔
نماز کے بعد جب آنحضرت ﷺ کو یہ حال معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ آئندہ ایسا نہ کرنا۔
بعض اہل علم نے اس سے رکوع میں آنے والوں کے لیے رکعت کے ہو جانے پر دلیل پکڑی ہے۔
عون المعبود شرح ابوداؤد میں، ص332، میں ہے۔
قَالَ الشَّوْكَانِيُّ فِي النَّيْلِ لَيْسَ فِيهِ مَا يَدُلُّ عَلَى مَا ذَهَبُوا إِلَيْهِ لِأَنَّهُ كَمَا لَمْ يَأْمُرْهُ بِالْإِعَادَةِ لَمْ يُنْقَلْ إِلَيْنَا أَنَّهُ اعْتَدَّ بِهَا وَالدُّعَاءُ لَهُ بِالْحِرْصِ لَا يَسْتَلْزِمُ الِاعْتِدَادَ بِهَا لِأَنَّ الْكَوْنَ مَعَ الْإِمَامِ مَأْمُورٌ بِهِ سَوَاءٌ كَانَ الشَّيْءُ الَّذِي يُدْرِكُهُ الْمُؤْتَمُّ مُعْتَدًّا بِهِ أَمْ لَا كَمَا فِي الْحَدِيثِ إِذَا جِئْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ وَنَحْنُ سجود فاسجدوا ولا تعددوها شيئا على أن النبي قد نهى أبا بكرة عَنِ الْعَوْدِ إِلَى ذَلِكَ وَالِاحْتِجَاجُ بِشَيْءٍ قَدْ نهي عنه لا يصح وقد أجاب بن حَزْمٍ فِي الْمُحَلَّى عَنْ حَدِيثِ أَبِي بَكْرٍ فَقَالَ إِنَّهُ لَا حُجَّةَ لَهُمْ فِيهِ لِأَنَّهُ ليس فيه اجتراء بِتِلْكَ الرَّكْعَةِ الخ۔
خلاصہ یہ ہے کہ بقول علامہ شوکانی اس حدیث سے یہ استدلال صحیح نہیں ہے کیوں کہ اگر حدیث میں یہ صراحت نہیں ہے کہ آپ نے اسے رکعت کے لوٹانے کا حکم نہیں فرمایا تو ساتھ ہی منقول یہ بھی نہیں ہے کہ اس رکعت کو کافی سمجھا۔
آپ نے ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کو اس کی حرص پر دعائے خیر ضرور دی مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس رکعت کو بھی کافی سمجھا اور جب آنحضرت ﷺ نے ابوبکرہ ؓ کو اس فعل سے مطلقاً منع فرما دیا تو ایسی ممنوعہ چیز سے استدلال پکڑنا صحیح نہیں۔
علامہ ابن حزم نے بھی محلی میں ایسا ہی لکھا ہے۔
حضرت صاحب عون المعبود ؒ فرماتے ہیں:
فَهَذَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْبُخَارِيُّ أَحَدُ الْمُجْتَهِدِينَ وَوَاحِدٌ مِنْ أَرْكَانِ الدِّينِ قَدْ ذَهَبَ إِلَى أَنَّ مُدْرِكًا لِلرُّكُوعِ لَا يَكُونُ مُدْرِكًا لِلرَّكْعَةِ حَتَّى يَقْرَأَ فَاتِحَةَ الْكِتَابِ فَمَنْ دَخَلَ مَعَ الْإِمَامِ فِي الرُّكُوعِ فَلَهُ أَنْ يَقْضِيَ تِلْكَ الرَّكْعَةَ بَعْدَ سَلَامِ الْإِمَامِ بَلْ حَكَى الْبُخَارِيُّ هَذَا الْمَذْهَبَ عَنْ كُلِّ مَنْ ذَهَبَ إِلَى وُجُوبِ الْقِرَاءَةِ خَلْفَ الْإِمَامِ الخ۔
(عون المعبود، ص: 334)
یعنی حضرت امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمۃ اللہ علیہ جو مجتہدین میں سے ایک زبردست مجتہد بلکہ ملت اسلام کے اہم ترین رکن ہیں، انہوں نے رکوع پانے والے کی رکعت کو تسلیم نہیں کیا۔
بلکہ ان کا فتوی یہ ہے کہ ایسے شخص کو امام کے سلام کے بعد یہ رکعت پڑھنی چاہئے بلکہ حضر ت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ہر اس شخص کا مذہب نقل فرمایا ہے جس کے نزدیک امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ پڑھنی واجب ہے اور ہمارے شیخ العرب و العجم حضرت مولانا سید نذیر حسین محدث دہلوی ؒ کا بھی یہی فتوی ہے۔
(حوالہ مذکور)
اس تفصیل کے بعد یہ امر بھی ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ جو حضرات بلا تعصب محض اپنی تحقیق کی بنا پر رکوع کی رکعت کے قائل ہیں وہ اپنے فعل کے خود ذمہ دار ہیں۔
ان کو بھی چاہئے کہ رکوع کی رکعت نہ ماننے والوں کے خلاف زبان کو تعریض سے روکیں اور ایسے مختلف فیہ فروعی مسائل میں وسعت سے کام لے کر اتفاق باہمی کو ضرب نہ لگائیں کہ سلف صالحین کا یہی طریقہ یہی طرز عمل رہا ہے۔
ایسے امور میں قائلین و منکرین میں سے حدیث الاعمال بالنیات کے تحت ہر شخص اپنی نیت کے مطابق بدلہ پائے گا، اسی لیے المجتہد قد یخطی و یصیب کا اصول وضع کیا گیا ہے۔
واللہ أعلم بالصواب و إلیه المرجع و المآب۔
دلائل کی رو سے صحیح یہی ہے کہ رکوع میں ملنے سے اس رکعت کا لوٹانا ضروری ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 783   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:783  
783. حضرت ابوبکرہ ؓ سے روایت ہے کہ وہ نبی ﷺ کے قریب اس وقت پہنچے جب آپ رکوع میں تھے۔ صف میں شمولیت سے پہلے ہی انہوں نے رکوع کر لیا۔ پھر جب نبی ﷺ سے یہ ماجرا بیان کیا تو آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تمہارے شوق کو مزید ترقی دے آئندہ ایسا مت کرنا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:783]
حدیث حاشیہ:
(1)
شمولیت صف سے پہلے رکوع کرنے والے کے متعلق امام بخاری ؒ نے جزم کے ساتھ کوئی حکم نہیں لگایا کہ اس کی یہ رکعت درست ہوگی یا نہیں؟ کیونکہ اس کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے۔
جن فقہاء کے نزدیک یہ رکعت صحیح ہے ان کا موقف ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے تیز دوڑنے اور قبل از شمولیتِ صف رکوع کرنے سے ضرور منع فرمایا ہے لیکن ایسا کرنا حرام نہیں، اگر نہی تحریمی ہوتی تو آپ ابو بکرہ ؓ کو مذکورہ رکعت دوبارہ پڑھنے کا حکم دیتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔
معلوم ہوا کہ ان کی وہ رکعت درست تھی۔
اور جن حضرات کے نزدیک ایسی رکعت صحیح نہیں ان کا موقف ہے کہ پہلے ایسا کرنا جائز تھا اور رکعت بھی درست تھی لیکن اس موقع پر رسول اللہ ﷺ نے لا تَعُد کے الفاظ سے نہی فرمادی، اس لیے وہ کام کرنا جس سے آپ نے منع کر دیا ہے کسی صورت میں درست نہیں۔
صحابئ مذکورہ کا فعل چونکہ نہی سے پہلے سرزد ہوچکا تھا، اس لیے آپ نے اسے اعادے کا حکم نہیں دیا۔
یہ آخری موقف زیادہ راجح اور احوط معلوم ہوتا ہے اور امام بخاری کا میلان بھی اسی طرف ہے کیونکہ امام بخاری کے نزدیک جس رکعت میں سورۂ فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ رکعت درست نہیں۔
حالت مذکورہ میں ادا کی گئی رکعت بھی سورۂ فاتحہ کے بغیر ہے، لہٰذا وہ بھی درست نہ ہوگی، اس کے علاوہ مندرجہ ذیل حدیث سے بھی اس موقف کی تائید ہوتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ صف کے پیچھے کھڑا پڑھ رہا تھا، آپ نے اسے دوبارہ پڑھنے کا حکم دیا۔
امام بخاری اور ابن خزیمہ ؒ نے اس روایت کو درست قرار دیا ہے اور صحیح ابن خزیمہ میں مندرجہ ذیل الفاظ کا اضافہ ہے:
صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنے والے کی کوئی نماز نہیں ہوتی۔
(فتح الباري: 347/2)
ان روایات میں صف کے پیچھے منفرد کی نماز کو غیر درست قرار دیا گیا ہے، لہٰذا قبل از شمولیت صف رکوع کرنے والے نے رکعت کا جو حصہ صف کے پیچھے اکیلے ادا کیا وہ درست نہ ہوگا جس سے رکعت ادھوری رہ جائے گی، اس بنا پر غیر درست قرار پائے گا۔
والله أعلم۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دیر سے جماعت میں شامل ہونے والے کو چاہیے کہ وہ جس حالت میں امام کوپائے اسی حالت کو اختیار کرکے امام کے ساتھ شامل ہو جائے۔
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
نماز کے لیے آرام اور سکون کے ساتھ آؤ،جتنا حصہ مل جائے پڑھ لو اور جو رہ جائے وہ بعد میں پورا کرلو۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 572) (3)
امام بخاری ؒ نے اپنے رسالے ''جزء القراءة'' میں اس موضوع پر تفصیل سے گفتگو کی ہے کہ صرف رکوع پالینے سے رکعت نہیں ہوتی کیونکہ ایسا کرنے سے وہ رکن فوت ہوجاتے ہیں، یعنی قیام اور فاتحہ، یہ دونوں کتاب وسنت کے مطابق فرض ہیں۔
اس موقف پر مندرجہ ذیل احادیث کی روشنی میں اعتراض کیا گیا ہے:
٭حضرت ابوبکرہ ؓ کی روایت کے آخر میں لا تَعُد کے الفاظ ہیں۔
ان سے استدلال کیا جاتا ہے کہ تو اپنی نماز کو نہ لوٹا، کیونکہ اس نے امام کے ساتھ رکوع پالیا تھا۔
٭حدیث میں ہے کہ جس نے رکوع پالیا اس نے نماز کو پالیا۔
اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مدرک رکوع، مدرک رکعت ہے۔
٭جب تم نماز کے لیے آؤ اور ہم بحالت سجدہ میں ہوں تو تم بھی سجدہ کرو اور اسے کچھ بھی شمار نہ کرو اور جس نے رکعت کو پا لیا اس نے نماز کو پا لیا۔
(السنن الکبرٰی للبیھقي: 89/2)
اس روایت میں رکعت سے مراد رکوع ہے۔
٭جب تم نماز کو آؤ اور امام رکوع کررہا ہوتو تم بھی رکوع کرو اور اگر سجدے کی حالت میں ہوتو تم بھی سجدہ کرو۔
اور تم سجدے کو شمار نہ کرنہ کرو جب اس کے ساتھ رکوع نہ ہو۔
(السنن الکبرٰی للبیھقي: 89/2)
٭جس نے امام کو اپنی کمر سیدھا کرنے سے پہلے رکوع کی حالت میں پالیا اس نے نماز کو پا لیا۔
(السنن الکبرٰی للبیھقي: 89/2)
ان روایات کا تقاضا ہے کہ رکوع پا لینے سے رکعت ہوجاتی ہے۔
٭عمل صحابہ بھی اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ امام کے ساتھ رکوع پالینا رکعت کوپا لینا ہے، مثلاً:
حضرت عبداللہ بن مسعود۔
(السنن الکبرٰی للبیھقي: 90/2)
حضرت عبداللہ بن عمر۔
(السنن الکبرٰی للبیھقي: 90/2)
حضرت زید بن ثابت۔
(السنن الکبرٰی للبیھقي: 90/2)
حضرت ابو بکر صدیق ؓ (السنن الکبرٰی للبیھقي: 90/2)
اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم۔
(إرواءالغلیل: 264/2)
یہ تمام آثار اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ رکوع پالینے والے سے قراءت فاتحہ ساقط ہوجائے گی اور اس کی رکعت بھی صحیح ہوگی۔
جیسا کہ علامہ البانی ؒ نے لکھا ہے۔
(ارواءالغلیل: 264/2)
ان روایات وآثار کا جواب حسب ذیل ہے:
٭حضرت ابوبکرہ کی روایت سے مدرک رکوع کی رکعت کا ہونا اور نہ ہونا دونوں ہی ثابت نہیں ہوتے۔
روایت کے اعتبار سے اس حدیث کے جو الفاظ ثابت ہیں وہ لَا تَعُد ہی ہیں جن کے معنی ہیں کہ دوبارہ ایسا نہ کرنا جس کی وضاحت ہم پہلے کر چکے ہیں اور جو الفاظ اعتراض میں بیان ہوتے ہیں کہ اعادہ نہ کر، نماز نہ لوٹا، تو روایت کے اعتبار سے یہ الفاظ ثابت نہیں، اس بنا پر جس حدیث میں ہے کہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی وہ محکم ہے اور مذکورہ ابوبکرہ کی روایت سے متعارض نہیں، کیونکہ محکم اور محتمل میں تعارض نہیں ہوتا، اس لیے رکوع میں شامل ہونے والے کی رکعت کو کیونکر شمار کیا جائے۔
٭جس نے رکوع پا لیا، اس نے نماز کو پا لیا، اس مفہوم پر مشتمل جتنی بھی روایات ہیں وہ محل نظر ہیں کیونکہ محدثین کے قائم کردہ معیار صحت پر پوری نہیں اترتیں۔
علامہ البانی نے ایک روایت بایں الفاظ نقل فرمائی ہے کہ جس نے رکوع پا لیا اس نے رکعت کو پا لیا۔
(ارواءالغلیل: 2/260)
لیکن یہ الفاظ بالکل بے اصل ہیں جیسا کہ علامہ البانی نے خود وضاحت کردی ہے۔
٭اس تیسری روایت میں ہے کہ جس نے رکعت کو پا لیا اس نے نماز کو پا لیا۔
یہ روایت بھی ضعیف ہے۔
جیسا کہ خود امام بیہقی ؒ نے اس کی طرف اشارہ فرمایا ہےکیونکہ اس کی سند میں یحییٰ بن ابی سلیمان المدینی راوی"منکر الحدیث" ہے۔
جیسا کہ امام بخاری ؒ نے اس کے متعلق تبصرہ کیا ہے۔
(ارواءالغلیل: 262/2)
اس کے علاوہ اس میں رکعت سے مراد رکوع نہیں کیونکہ رکعت بمعنی رکوع مجاز ہے اور مجازی معنی اس وقت معتبر ہوتا ہے۔
جب حقیقی معنی دشوار اور مشکل ہو۔
پھر اس روایت کے راوی حضرت ابو ہریرہ ؓ ہیں، خود ان کا فتویٰ یہ ہے کہ مدرک رکوع مدرک رکعت نہیں، کیونکہ وہ فرماتے ہیں کہ تیری رکعت اس وقت تک جائز نہیں ہوگی جب تک تو امام کو حالت قیام میں نہ پا لے۔
(جزءالقراءة، حدیث: 131)
٭چوتھی روایت میں بھی لفظ رجلآیا ہے اور یہ آدمی مجہول ہے۔
ابھی تک اس کا صحابی ہونا ثابت نہیں ہوسکا۔
اگر وہ تابعی ہے تو اس کے حالات کا علم نہیں۔
اگر صحیح بھی مان لیا جائے تو زیادہ سے زیادہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سجدہ کے قابل اعتبار ہونے کے لیے رکوع ضروری ہے، اس کے بغیر سجود کی کوئی حیثیت نہیں۔
٭پانچویں روایت کے معنی یہ نہیں کہ جس نے امام کو اپنی کمر سیدھی کرنے سے پہلے رکوع کی حالت میں پا لیا، اس نے نماز کو پا لیا کیونکہ روایت کے الفاظ میں رکعت ہے رکوع نہیں، پھر کمر سیدھا کرنے کے الفاظ بھی روایت کا حصہ نہیں بلکہ مدرج ہیں۔
شاید یہ امام زہری کے الفاظ ہیں جنھیں یحییٰ بن حمید نے حدیث کا حصہ بنایا ہے اور اس کی وضاحت نہیں کی۔
(ارواءالغلیل: 2/262)
امام بیہقی نے بھی اس کی وضاحت کی ہے۔
٭جن روایات سے صحابۂ کرام کے عمل کو پیش کیا گیا ہے وہ ان کا عمل ہونے کی حیثیت سے شریعت کو ثابت نہیں کرتا اور خاص طور پر اس وقت جب ان کا عمل رسول اللہ ﷺ کی حدیث سے معارض ہو۔
اجتہاد کی بنا پر ایسا ہونا ممکن ہے۔
ہمارے لیے سب سے پہلے رسول اکرم ﷺ کے حکم پر عمل کرنا ضروری ہے۔
اور اس مقام پر معارضت موجود ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے قیام کو طویل کردیتے تھے تاکہ وہ رکعت پا لیں لیکن آپ نے کبھی رکوع کو طویل نہیں کیا تاکہ وہ اس میں شامل ہوکر اسے رکعت شمار کرلیں۔
والله أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 783